میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی پیکیج پر وفاق، سندھ حکومت آمنے سامنے

کراچی پیکیج پر وفاق، سندھ حکومت آمنے سامنے

ویب ڈیسک
پیر, ۷ ستمبر ۲۰۲۰

وزیراعظم کی جانب سے کراچی پیکیج کے اعلان کے بعد اگرچہ اعلان یہ کیا گیا تھا کہ کراچی کے ترقیاتی عمل میں وفاق اور سندھ حکومت یکساں صفحے پر رہیں گے۔ مگر

شیئر کریں

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) وزیراعظم کی جانب سے کراچی پیکیج کے اعلان کے بعد اگرچہ اعلان یہ کیا گیا تھا کہ کراچی کے ترقیاتی عمل میں وفاق اور سندھ حکومت یکساں صفحے پر رہیں گے۔ مگر اس اعلان کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے کے وفاقی اور سندھ حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے بنیادی وجہ نزاع بلاول بھٹو کا وہ ویڈیو ٹیپ بنا جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کا ترقیاتی پیکیج میں حصہ صرف تین سو ارب روپے کا ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے اس حوالے سے اپنے ساتھی وزراء علی زیدی اور امین الحق کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس میں اس تاثر کی تردید کی ۔ دوسری طرف گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ بلاول بھٹو کو کوئی غلط بریف کررہا ہے۔ اس فضاء نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت میں کراچی ترقیاتی پیکیج پر اعتماد قائم رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ تاریخی طور پر کراچی کے ترقیاتی کاموں میں اصل رکاؤٹ وفاق اور صوبے کے درمیان موجود اسی خلیج کو قرار دیا جاتا ہے جو مختلف حیلوں بہانوں سے ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ پچیس تیس برسوں سے کراچی پر یہ سیاست جاری ہے۔کراچی کے ترقیاتی کاموں میں کبھی وفاق اور کبھی صوبائی حکومت رکاؤٹ بن جاتی ہے۔اس حوالے سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ ورلڈ بینک، ایشیائی بینک،جاپان اورچین کے علاوہ دیگر ممالک بھی ریلوے پر سرمایہ لگانے پر تیار تھے۔ چین سے منظوری کے باوجود گزشتہ 8سال سے دونوں حکومت کے درمیان کسی نہ کسی تنازع کے نتیجے میں کراچی سرکلر ریلو ے کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔اس افسوس ناک تعطل کے باعث منصوبے کی لاگت 120ارب سے بڑھ کر 300ارب روپے تک پہنچ گئی ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت تنہا کراچی کے منصوبوں کی منظوری کا اختیار نہیں رکھتی۔ صوبے کو وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ میں ہمیشہ رکاوٹیںرہی ہیں ،15سال قبل چین اس منصوبہ پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار تھا۔ وفاق اور صوبے کے درمیان میں اختیارات کی تقسیم کا جھگڑا یا پھر کنٹرول کی لڑائی فیصلہ سازی میں اصل رکاؤٹ ہے جس کے باعث میگا منصوبے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اربوں روپے پروجیکٹ کی منظوری کے لیے وفاق کی دو کمیٹیوں سینٹر ل ڈیولپمنٹ ورک پارٹی(CDWP)اورایگز یکٹو کمیٹی نیشنل اکانومی کونسل (ECNEC)کو اختیارات حاصل ہیں،جہاں منصوبے پر بعض اعتراضات لگا کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے۔ سیاسی تجریہ کاروں کا کہناتھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کراچی کے 11سو ارب روپے کے منصوبہ کا اعلان کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا ردعمل تھا کہ سند ھ 802ارب روپے ،یعنی 285ارب روپے سندھ حکومت 35فیصد،107ارب روپے پبلک پارٹنر شپ منصوبہ 14فیصد ، 250ارب روپے سرکلر ریلوے کراچی چین سرمایہ کاری 31فیصد، 82ارب روپے ورلڈ بینک10فیصد، 39ارب روپے ریڈ لائن بی آر ٹی 5فیصد ادا کریںگے،اس پیکیج میں جن منصوبوںکی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں اورنج لائن اورنگی نمبر5سے میڑک بورڈ تک پونے دو کلومیٹر کی تعمیرات کا گزشتہ پانچ سال سے نامکمل منصوبہ بھی شامل ہے۔بلاول زردای نے ہی اس کا افتتاح کیا تھا۔جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پیکیج میں 62فیصد وفاق کا حصہ ہے صوبائی حکومت کا مجموعی طور پر فنڈ ز 38فیصد ہے ۔ یہ نہیں بتائیں گے کہ وفاق کیا کر رہا اور صوبہ کیا کر رہا ہے ۔کراچی ترقیاتی پیکیج کے اعلان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اس تنازع نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین اس معاملے پر ایک پیج پر آنے کی تحریک مصنوعی بندوبست کا نتیجہ تھی۔ عملاً دونوں سیاسی جماعتوں کی سیاست ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ دونوں حریف سیاستی جماعتیں کراچی کے مسئلے پر اپنی اپنی سیاستوں کے خلاف جاکر کسی دیرپا اتحاد کی جانب قدم بڑھا سکیں۔پیپلزپارٹی کے اندرونی ذرائع نے اس نمائندہ کو بتایا کہ کچھ مجبوریوں کے باعث اس تماشے کو ابھی برداشت کیا جارہا ہے۔مگر وفاقی وزراء کی اس پریس کانفرنس کا جلد مناسب جواب دیا جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں