میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خلیج فارس اوربدمست ہاتھی

خلیج فارس اوربدمست ہاتھی

ویب ڈیسک
جمعه, ۷ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
امریکاکے صدرجمی کارٹرنے1980میںاسٹیٹ آف یونین خطاب کے دوران کہاتھاکہاگرکسی بیرونی طاقت نے خلیج فارس کاکنٹرول سنبھالنے کیلئے کسی قسم کی مداخلت کی توامریکا مشرق وسطیٰ میں تیل کی آزادانہ نقل وحمل کی حفاظت کیلئے اس کے خلاف جوابی کاروائی کرے گا۔کارٹراوران کے جانشینوں نے اس وعدہ کوہمیشہ نبھایاہے۔قصرسفیدکادعویٰ ہے کہ امریکا نے نہ صرف خطے میں موجودامریکی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیابلکہ عراق کے صدام حسین کوتیل کی سپلائی لائن پرقبضے سے روکنے کابہانہ بناکرجنگ خلیج میں بھی حصہ لیتے ہوئے عراق کوتاراج اورصدام کوپھانسی پر چڑھادیا۔اگرچہ خلیج فارس میں امریکاکے دیگربھی کئی مفادات تھے جن میں جوہری پھیلاؤکی روک تھام، انسداد دہشت گردی اور جمہوریت کافروغ جیسے بہانے بھی شامل تھے لیکن امریکاکاسب سے اہم مفادتیل کی ترسیل کوبغیررکاوٹ جاری رکھناتھا جبکہ وقت نے امریکی بیانیے نے یہ ثابت کردیاکہ اس خطے میں امریکا کی موجودگی اپنے مخصوص مفادات ورلڈآرڈرکے تابع ہیں۔
خلیج فارس سے امریکا کی اس وابستگی پراسے کبھی کسی بڑی مخالفت کاسامنانہیں کرناپڑا۔حتی کہ وہ لوگ بھی جوامریکاکے یورپ اور ایشیا میں مختلف اتحادوں کے مخالف رہے ہیں اور ان اتحادوں کوملکی معیشت پربوجھ قراردیتے رہے ہیں،انہوں نے بھی ہمیشہ اس بات سے اتفاق کیاہے کہ امریکاکوخلیج فارس کی حفاظت کاذمہ اپنے سررکھناچاہیے،کیونکہ دنیاکے ایک تہائی تیل کی پیدواراس خطے سے ہوتی ہے۔لیکن اب دنیا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں۔سردجنگ کے دوران خطے میں امریکی مفادات کیلئے سب سے بڑاخطرہ سوویت یونین تھا۔ امریکی پالیسی سازپریشان تھے کہ اگرسوویت یونین تیل کی ترسیل کومنقطع کرنے میں کامیاب ہوگیا،توتیل وگیس پرانحصارکرنے والی امریکی فوج یورپ میں کوئی بڑی جنگ نہ جیت سکے گی۔لیکن سوویت یونین کے خاتمے نے تیل کی سپلائی کے حوالے سے امریکی مفادکی نوعیت کوتبدیل کردیا۔جہاں قومی سلامتی اور خوشحالی دونوں کاانحصار خلیج فارس کی حفاظت پرہواکرتاتھا،اب اس کاتعلق صرف خوشحالی سے رہ گیا۔جس نے امریکا کی پالیسی پرگہرے اثرات مرتب کیے۔قومی سلامتی کے عنصرکی عدم موجودگی نے خلیج فارس میں فوج کی مداخلت بڑھا دی، کیونکہ زیادہ ترامریکی معاشی مفادات کے دفاع کیلئے فوج کومشکلات میں ڈالنے کوبرانہیں سمجھتے۔تویہاں سوال اٹھتاہے کہ کیاخلیج فارس کا تیل اتنا قیمتی ہے کہ اس کا دفاع امریکی فوجی قوت کے ذریعے کیاجائے؟
اس سوال کاجواب حاصل کرنے کیلئے مزیدچارسوالوں کے جواب حاصل کرنے ہوں گے۔اول یہ کہ اگرامریکاخلیج فارس سے اپنی وابستگی ختم کردیتاہے تواس بات کاکتناامکان ہے کہ خلیج فارس سے تیل کے بہاؤمیں کوئی بڑی رکاوٹ پیداہوگی؟دوم،اس رکاوٹ کاامریکی معیشت پرکتنااثرپڑے گا؟سوم،امریکاخلیج فارس سے تیل کے بہاؤکی حفاظت پرکتنے فوجی اخراجات اٹھاتا ہے؟آخری یہ کہ خلیج فارس کی حفاظت کیلئے غیرفوجی متبادل ذرائع کیاہوسکتے ہیں اوراس پرکتنے اخراجات ہوں گے؟ان سوالات کے جوابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے نظام کی حفاظت پرآنے والی لاگت،اس سے حاصل ہونے والے فوائدکے برابرپہنچ گئی ہے اوراس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ لاگت اس پالیسی سے حاصل ہونے والے فوائدسے بھی بڑھ جائے گی۔سویہ وہ وقت ہے جب امریکاکوخلیج فارس سے فوجی وابستگی ختم کرکے ایسے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جوتیل کی ترسیل میں رکاوٹ کی صورت میں امریکی معیشت کوسہارادے سکیں۔ایک دہائی یااس سے کچھ زیادہ وقت میں جب یہ خطہ آج سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو چکاہوگاتوامریکاکواس مقام پرہوناچاہیے کہ وہ خلیج فارس سے فوجی وابستگی مکمل طورپرختم کردے۔
موجودہ پالیسی کاصحیح جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی دورکرلی جائے۔سیاستدان اورتجزیہ نگاراکثریہ بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تیل کے ترسیلی نظام میں آنے والی کسی رکاوٹ کے خطرے سے بچنے کیلئے امریکاکوتیل کی پیداواربڑھانی ہوگی تاکہ درآمدی تیل پرانحصارکم سے کم ہویعنی توانائی کے شعبے میں خودمختارہو۔یہ دلیل بنیادی طورپر تیل کی عالمی منڈی کے نظام کی ناسمجھی کوظاہرکرتی ہے کیونکہ قابل مبادلہ اجناس کی تجارت میں خودمختاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔دراصل تیل کی خریدوفروخت عالمی منڈی میں ہوتی ہے، اس لیے امریکامیں اس کی قیمت دنیابھرمیں تیل کی قیمتوں سے جڑی ہوئی ہے۔تیل کی عالمی منڈی کی مثال ایک پانی کے ٹب کی سی ہے،جس میں پانی ڈالنے کیلئے بہت سے نل لگے ہوئے ہیں اوراس کی نکاسی کیلئے بھی بہت سی نالیاں ہیں۔اس لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ کسی ایک نل سے کتنا پانی آتاہے اورکسی خاص نالی سے کتناپانی بہتاہے۔ رسد اورطلب کی بنیاد پرانحصارکرنے والی تیل کی منڈی میں زیادہ اہمیت تیل کی رسدکی ہے کیونکہ اگرتیل کی رسدتیزی سے کم ہوتی ہے توٹب سے پانی حاصل کرنے والے تمام صارفین ہی متاثرہوں گے۔اس لیے اگرامریکاکی خلیج فارس سے تیل کی درآمدصفربھی ہوجاتی ہے،توبھی خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی سپلائی متاثرہونے کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں آنے والی تبدیلیوں سے امریکابھی متاثرہوئے بنانہیں رہ پائے گا۔
یہ توسوچاجاسکتاہے کہ امریکاکے خطے سے نکل جانے کی صورت میں تیل کی سپلائی کس طرح متاثرہوسکتی ہے،لیکن ان سوچے جانے والے آپشنزمیں سے قابل عمل کوئی بھی نہیں لگتا۔ ایک امکان جس پرغورکیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ اگرکوئی خلیجی ملک اپنے پڑوسی ممالک پرقبضہ کرکے خطے میں موجودتیل کے بیشترذخائرپرقبضہ کرلیتاہے توپھرتیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتاہے اور ایسا کوئی بھی اقدام تیل کے بڑے صارفین جیسے برطانیہ اورامریکاکی طاقت کوچیلنج کرنے کے برابرہوگالیکن یہ آپشن کسی طورپرممکنات میں سے نہیں، کیونکہ خطے میں اتنی طاقت رکھنے والا کوئی ملک نہیں ہے۔عراق امریکی حملے کے بعدسے تباہ ہوچکاہے اورابھی بھی انارکی کی لپیٹ میں ہے۔ایران کومغربی پابندیوں نے کمزورکرکے رکھ دیاہے اوراس کے رہنمااندورنی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔سعودی عرب،یمن جنگ سے جان چھڑانے کے بعداب خطے کوفتح کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دوسری فرضی صورتحال جس پرغورکیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ خطے پرکنٹرول حاصل کرنے کی بالواسطہ جنگ سے خلیجی ممالک افراتفری اورانارکی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اوربنیادی انفراسٹرکچرتباہ ہوسکتاہے۔جس سے تیل کی سپلائی بذریعہ بحری جہازمتاثرہوسکتی ہے لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں جواس فرضی صورتحال کوحقیقت کاروپ دینے میں رکاوٹ ہیں۔ خطے میں کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جواپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے اتنی بڑی جنگ کاخطرہ مول لے۔ ہوسکتاہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ بھی آسان کام نہیں۔ایران اورسعودی عرب ایک دوسرے کونشانہ بنا سکتے تھے لیکن ان دونوں کوجہاں خلیج فارس نے ایک دوسرے سے الگ رکھا ہواہے وہاں چین نے ایک بہت بڑامثبت کردارکرکے اس خطے میں امن قائم کروادیا ہے۔
عراق اندرونی تقسیم اورایران کے ساتھ سرحد لگنے کی وجہ سے نسبتاًزیادہ غیرمحفوظ ہے،لیکن ایران کو خودبے شمار چیلنجوں کاسامناہے اوراس بات کاقوی امکان ہے کہ وہ امریکاکے عراق پر حملے کی صورت میں پیش آنے والی مشکلات سے بہت کچھ سیکھ چکاہے۔اس کے علاوہ تیل کے ذخائرکابنیادی انفراسٹرکچراس قابل ہے کہ شدید جنگ کے دوران بھی کام دیتا رہے،جس کی واضح مثال1980کی ایران،عراق جنگ ہے،جب شدیدجنگ کے دوران بھی تیل کی سپلائی کم ضرورہوئی لیکن جاری رہی اورجنگ بندی کے کچھ ہی عرصے میں تیل کی قیمتیں دوبارہ مستحکم ہوگئیں۔
تیسری ممکنہ صورتحال یہ ہوسکتی ہے کہ ایران امریکااوراس کے اتحادیوں کومشکلات میں ڈالنے کیلئے آبنائے ہرمز سے ہونے والی تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیداکرے۔ آبنائے ہرمز کا21 میل کابہت ہی تنگ ساراستہ ہے جہاں سے روزانہ20ملین بیرل تیل گزرتاہے جوکہ عالمی پیداوارکاتقریبا20فیصدہے باوجوداس کے کہ ایرانی فوج اس راستے کومکمل بند کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی لیکن ماہرین کاکہناہے کہ وہ بارودی سرنگیں بچھاکراورمیزائل بوٹ کی مددسے سپلائی متاثرضرورکرسکتی ہے۔لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ آیا ایران آبنائے ہرمزکوبندکرنے کاارادہ رکھتابھی ہے یانہیں بہرحال سپلائی لائن بندکرنے سے اس کی اپنی پیدواراورآمدنی بھی متاثرہوگی اورپڑوسی ممالک بھی اس پرسخت ردعمل کا اظہارکریں گے۔ درحقیقت ایران نے کبھی ایساکرنے کی کو شش بھی نہیں کی،حتیٰ کہ عراق جنگ کے دوران بھی نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرامریکاخطے سے اپنی کمٹمنٹ ختم کردیتاہے توشایدایران کبھی اس آپشن پربھی غورکرناشروع کردے بہرحال یہ بات قابل فہم لگتی تھی کہ امریکاکے خطے سے نکل جانے کے بعد ایران جب ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تواس پرمغرب کی لگائی جانے والی پابندیوں کے ردعمل میں وہ آبنائے ہرمز کے راستے کو بند کرنے کی کو شش کرے جوایسا سب کچھ ہونا آسان تو نہیں ہے لیکن اگر امریکاخلیج فارس کی حفاظت کابیڑااٹھانے سے انکارکردے گاتواس صورتحال کے حقیقت کاروپ دھارنے کے امکا ن میں اضافہ ہوگالیکن یہ صورتحال اس وقت یکسرتدیل ہوگئی جب خودٹرمپ نے ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیارکرلی اورایران پرشکنجہ کسنے کیلئے مزید عالمی پابندیوں پر عملدرآمدشروع کردیاجس کے بعدایران نے ہنگامی بنیادوں پرمعاہدے کے باقی ارکان سے بات چیت کرکے کئی یقین دہانیاں کروائی ہیں ۔ادھردوسری طرف ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبرصالحی نے صحافیوں کوبتایاآیت اللہ خامنہ ای نے متعلقہ حکام کوحکم دیاہے کہ وہ افزودگی کیلئے اپنی تیاریاں تیزکردیں۔اسی لئے یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت بڑھانے کے بارے میں اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کومطلع کردیاگیا۔ایران کے جوہری ادارے نے اعلان کیا ہے کہ وہ افزودگی کاسب سے اہم جز”یورینیم ہیگزافلورائڈ”زیادہ بنائے گا۔ اگر ہم معمول کے مطابق کام کرتے توشاید چھ سے سات سال لگ جاتے لیکن اب یہ آئندہ ہفتوں یامہینوں میں تیارہوجائے گا۔اگرایران کی اس بات کایقین کرلیاجائے تواب تک ایران اپنے اس مقصدکوحاصل کرچکاہے۔
امریکاکی بددیانتی کے بعدتیل کی سپلائی لائن میں رکاوٹ پیداکرنے والا آخری ممکنہ خطرہ یہ ہوسکتاہے کہ تیل پیداکرنے والے کسی بڑے ملک کے اندرونی حالات اس حد تک خراب ہوجائیں کہ تیل کی پیداوارمتاثرہو۔اس ممکنہ صورتحال کا نشانہ سعودی عرب بن سکتا ہے۔سعودی عرب نہ صرف عالمی پیداوارکا10فیصدسے زیادہ تیل پیداکرتاہے،بلکہ اس کے پاس تیل کے اتنے بڑے ذخائرہیں کہ وہ دنیابھرمیں تیل کی سپلائی لائن متاثرکرنے کی اہلیت رکھتاہے۔فی الوقت تواس کی برآمدات بظاہر محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔سعودی فوج تیل کے ذخائر کی حفاظت پرمامورہے اوروہ اس کام کوبہترطریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔اس لیے کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی ممکنہ طورپرناکام ہی ہوگی حالانکہ ان دنوں سعودی بادشاہت یمن کی جنگ سے الگ ہوکراپنی مشکلات پرکافی حدتک قابوپاچکی ہے جس میں چین نے ایک اہم کرداراداکیاہے۔
سعودی شاہی خاندان کوعمومی طورپربادشاہت کاحقدارسمجھاجاتاہے۔ملک کے بیشترعوام تیل کی دولت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں اور جنرل راحیل اوران کے دیگرساتھیوں کی انتھک محنت اورعسکری مہارت کی بناپرسعودی فوج بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اعلی مہارت کی حامل بن چکی ہے۔یہی وہ سب وجوہات ہیں جنہوں نے بروقت سعودی عرب کو عرب بہار کے اثرات سے بچائے رکھاہے۔مزیدیہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں اگرکوئی نئی طاقت اقتدارسنبھالتی ہے تواسے بھی تیل کی پیداوارکوجاری رکھناہوگاکیونکہ ملک کی معیشت مکمل طور پر تیل کی پیداوارپرانحصارکرتی ہے۔اگرامریکاخلیج سے اپنی کمٹمنٹ ختم کرتاہے توبھی وہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کیلئے اس کی فوج کوتربیت دینے کاعمل جاری رکھ سکتاہے اوراس کے ساتھ ساتھ خفیہ معلومات کاتبادلہ اورہتھیارکی فراہمی بھی جاری رکھی جاسکتی ہے۔ مختصریہ کہ اگرامریکا خطے سے اپنی فوجی کمٹمنٹ ختم کرنے کافیصلہ کرتاہے،تو تیل کی سپلائی متاثرہونے کے امکان میں اضافہ توہوگا،خاص طورپر آبنائے ہرمزسے،لیکن یہ اضافہ نہایت معمولی ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ تیل کی سپلائی میں ایسی کوئی رکاوٹ کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے؟اوریہ خطے میں کسی ممکنہ بڑی جنگ کاپیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
تیل کی سپلائی میں کسی قسم کی رکاوٹ کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئیاں کافی خطرناک ہیں۔ حالیہ اعدادو شمارکے مطابق تیل کی عالمی پیداوار میں ایک فیصد کمی سے تیل کی عالمی قیمتوں میں8فیصدتک اضافہ ہو گا۔ان اعدادوشمار کو سامنے رکھاجائے توایک لاکھ بیرل یومیہ تیل اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے کم سپلائی ہوتاہے،تو اس کا مطلب ہے کہ سعودیہ کی برآمدات صفر ہو جاتی ہے یاآبنائے ہرمزسے تیل کی سپلائی60فیصدکم ہوجاتی ہے،توتیل کی عالمی قیمتیں دگنی ہوجائیں گی۔دنیانے ابھی تک ایسی کسی رکاوٹ کاسامنانہیں کیا،لیکن ایساہونے کی صورت میں نقصان کااندازہ لگانا مشکل ہے۔اورقیمت میں اس بھی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔تیل کی قیمتوں کاامریکاکی معیشت پربھی گہرا اثرپڑے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تیل کی قیمت دگنی ہونے کی صورت میں امریکاکی مجموعی ملکی پیداوارمیں تین فیصد کمی آئے گی،جو کہ تقریبا550/ارب ڈالربنتی ہے اور کسی بڑی رکاوٹ کی صور ت میں جیسے کہ آبنائے ہرمزسے تیل کی سپلائی مکمل طورپر بندہونا،تواس کے نقصانات بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے۔ لیکن اس کے حقیقی اثرات امریکاپرنہایت کم ہوں گے۔کیونکہ ایسی صورت میں امریکا اپنے پیٹرول کے ہنگامی محفوظ ذخیرے کااستعمال کرسکتاہے۔اس کے علاوہ قیمتوں کوکنٹرول کرنے کیلئے زیرزمین ذخائرکااستعمال بھی کرسکتاہے۔ایک اندازے کے مطابق700ملین بیرل تیلاسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرومیں موجودہے۔اس کے علاوہ چارارب بیرل سے زائد تیل عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک کے پاس بھی موجودہوتاہے۔(یہ تنظیم 1974 میں قائم کی گئی،جس کامقصد دنیابھرمیں تیل کے بحران کی صورت میں مل کراس کا مقابلہ کرناتھا)۔آبنائے ہرمزسے اگرتیل کی سپلائی آٹھ ماہ کے طویل عرصے کیلئے بھی بندہوجائے تویہ چارارب بیرل تیل آٹھ ماہ تک اس کمی کوپوراکرسکتاہے۔ایسے کسی بحران کی صورت میں پہلے ایک ماہ توامریکا اپنے محفوظ ذخائرسے یومیہ 44ملین بیرل تیل نکالے گااوراسی طرح عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک بھی 85ملین بیرل یومیہ اضافی تیل اپنے ذخائرسے نکال سکتے ہیں۔ چین جوکہ عالمی توانائی ایجنسی کارکن نہیں ہے، لیکن وہ بھی اپنے ذخائرکا استعمال کرسکتاہے،چین اپنی درآمدکے حساب سے90دن کے ذخائررکھتا ہے۔یہ تمام اعدادوشماراس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس سے تیل کی سپلائی میں کسی بڑی رکاوٹ کی صورت میں دنیااگرباہمی طورپرکوئی لائحہ عمل اپنائے گی تووہ یومیہ ہونے والے نقصانات کاازالہ کرسکتی ہے۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے معاشی فوائد اورنقصانات کاجائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے وہاں رہنے پرآنے والے اخراجات کاجائزہ بھی لیاجائے۔وہاں بھاری اخراجات توامریکی جنگی جہازوں کوفعال رکھنے پرآتے ہیں۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے پینٹاگون نے ایک وقت میں دودشمنوں سے مقابلے کی جوحکمت عملی بنارکھی ہے ،اس میں سے ایک دشمن کوہمیشہ خلیج فارس میں سمجھ کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔دومحاذوں پرلڑنے کی حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی کہ کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ امریکا کسی ایک محاذ پراتناپھنس جائے کہ موقع پرست دوسرے محاذ سے حملہ کرکے فائدہ اٹھالیں۔اگرامریکا خلیج فارس میں جنگ کی تیاری کی حکمت عملی کوترک کرتاہے تواس کے پاس دوآپشن بچتے ہیں ، ایک یہ کہ وہ دو دشمنوں سے ایک وقت میں لڑنے والی حکمت عملی جاری رکھے لیکن وہ دوسرا دشمن کسی اورخطے میں ہو، دوسرایہ کہ وہ ایک وقت میں ایک جنگ کی حکمت عملی اختیارکر لے لیکن اس حکمت عملی میں خلیج فارس سے زیادہ خطرناک کوئی خطہ نہیں جہاں اس حکمت عملی کے تحت موجودگی برقراررکھی جاسکے۔
خلیج فارس میں امریکی فوج پرآنے والے اخراجات کاصحیح اندازہ لگانا مشکل ہے،کیونکہ وہاں موجود فوج اوربھی کئی جگہوں پراستعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر امریکا ایک جنگ کی حکمت عملی اپناتاہے توایک اندازے کے مطابق سالانہ75ارب ڈالرکی بچت ہوگی جوکہ دفاعی بجٹ کا15فیصدبنتاہے۔فوجیوں کی تعدادمیں کمی،جنگی جہازوں کی تعداد میں کمی اوراسلحہ کی مقدارمیں کمی لاکریہ رقم بچائی جا سکتی ہے لیکن امریکاکی خلیج سے وابستگی صرف فوجیوں کی تعدادمیں کمی تک محدودنہیں۔اس خطے میں امریکاتیل کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بالواسطہ یابلاواسطہ کئی جنگیں لڑ چکاہے،جن کی بھاری قیمت چکائی ہے۔امریکانے خلیج کی جنگ میں حصہ لیاتوبنیادی مقصدتیل کی سپلائی جاری رکھنا تھا۔اگر چہ امریکی بیانئے کے مطابق عراق جنگ تیل کیلئے نہیں لڑی گئی لیکن وقت نے ثابت کردیاکہ یہ صرف دنیاکودھوکہ دینے کیلئے تھااورپالیسی سازوں کے ہاں عراق میں استحکام اورجمہوریت کی جوتڑپ نظرآتی تھی اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود تیل کے ذخائر ہی تھے۔اس لیے اب خلیج سے وابستگی ختم کرنے کے نتیجے میں نہ صرف ڈالربچیں گے بلکہ قیمتی جانوں کا ضیا ع بھی رک جائے گاکیونکہ اب خطے کے ممالک امریکی دھوکے کوسمجھ چکے ہیں۔
اس ساری بحث کے اختتام پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی حفاظت کیلئے فوج کے استعمال کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ اگر تیل کی رسد میں آنے والی رکاوٹ سے نمٹنے کیلئے فوج کااستعمال ہی بہترآپشن ہوتاتوآج اس پالیسی کا دفاع کرنے والے بہترپوزیشن میں ہوتے۔درحقیقت امریکابہت سے غیرفوجی ذرائع استعمال کرکے اس سپلائی کی حفاظت کو یقینی بناسکتاہے۔ایک طرف توامریکاتیل کے اپنے تزویراتی ذخائرمیں اضافہ کرسکتاہے۔مثال کے طورپراگرامریکااپنےSPR سٹریٹجک پٹرولیم ریزرومیں پچاس فیصد کااضافہ کرتا ہے تووہ تیل سپلائی میں آنے والے کسی بڑے تعطل کی صورت میں عالمی طلب کومزیدچندماہ پوراکرسکتاہے۔اوراس کام کیلئے اسے دس سے چالیس ارب ڈالرخرچ کرنے پڑیں گے جووہ متاثرہ ممالک سے وصول کرسکتاہے۔
اگرہم امریکی اوریورپی ممالک کی پٹرول کی طلب کی طرف دیکھیں توان میں بیشترممالک اس دن سے پٹرول کانعم البدل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں جب شاہ فیصل مرحوم نے امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے پٹرول کی فروخت بندکرنے کااعلان کردیاتھا جس کے بعد دنیا میں ایک بھونچال آگیاتھا۔اس دن کے بعدایک خاص حکمت عملی کے تحت امریکی معیشت میں تیل کاحصہ کم کر نے کے اقدامات شروع کردیے گئے لیکن ابھی تک مکمل طورپرپٹرول کانعم البدل ڈھونڈنہیں پائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکااوریورپ نے ایسے پالیسیوں کا اجرا ضرورکیاہے کہ معیشت پرتیل کی تبدیل ہوتی قیمتوں کااثرنہ پڑے۔امریکامیں نقل و حمل کاشعبہ70فیصد تیل استعمال کرتاہے،اس لیے اس شعبہ پرخصوصی توجہ دینے کے عمل کارحجان بڑھ رہاہے۔جارج بش سے لیکراوباما تک تمام صدور نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی لیکن ٹرمپ کے اقدامات نے نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیاکوتباہی کے کنارے لاکھڑاکردیابلکہ دفاعی اورمعاشی ماہرین نے ان خطرات سے بچنے کیلئے جارحانہ پالیسیوں سے گریزکامشورہ دیتے ہوئے ٹرمپ کومتنبہ بھی کیاکہ ممکنہ خطرات سے بچنے کیلئے امریکااوراس کے اتحادیوں کو ہنگامی بنیادوں پرتیل کی کھپت کوکم کرنے کے اقدامات پرابھی سے اقدامات کرناہوں گے۔اس کیلئے پٹرول پرٹیکس کی شرح بڑھانی ہو گی تاکہ عوام متبادل ذرائع کا استعمال بڑھائیں لیکن ٹرمپ نے اس پردھیان نہ دیاجواب تک ان کی مشکلات کاسبب بھی ہے۔
امریکی ماہرین کے مطابق کچھ ترقیاتی اخرجات ایسے ہوتے ہیں جوطویل عرصے بعد نتائج دیتے ہیں،جیسے کہ ریسرچ کا شعبہ، اگر حکومت ریسرچ کے شعبے کیلئے مختص رقم میں اضافہ کر دے تواس کے نتیجے کی صورت میں2035تک ملک میں تیل کی کھپت میں پچاس فیصد تک کمی ممکن ہوسکے گی۔اس لیے حکومت اگرآئندہ15سالوں میں100سے200ارب ڈالر ریسرچ جیسے شعبہ جات پرخرچ کرتی ہے جوکہ تقریبادس ارب ڈالرسالانہ بنتے ہیں،توخلیج فارس کے دفاع پر آنے والے75 ارب ڈالرسالانہ اخراجات سے بچاجاسکتاہے۔
اس کے علاوہ امریکا تیل کی سپلائی میں کسی رکاوٹ کے معیشت پراثرات کم کرنے کیلئے مختلف اقدامات کرسکتاہے۔ مغربی اتحادیوںپر دباؤ ڈالاجائے کہ وہ بھی اپنے ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ کریںکیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت SPRمیں اضافہ کے علاوہ IEAمیں کسی
بحران کے موقع پرامریکاکواکیلے بوجھ برداشت کرناپڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کوخلیجی ممالک پربھی دبا ؤبڑھاناہوگاکہ وہ آبنائے ہرمز پراپناانحصارکم کریں اورتیل کی پائپ لائن،جوکہ آبنائے ہرمزسے گزرتی ہیں ان کی استعدادبڑھائیں اوریہ کام وہ آسانی سے کربھی سکتے ہیں۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے فوائدونقصانات کاجائزہ لینے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ حالیہ حکمت عملی کلی طورپرغلط نہیں ہے۔ اکثر ہمیں کم خطرات سے نمٹنے کیلئے بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔لیکن اب دانش کاتقاضہ ہے کہ اس وابستگی کاخاتمہ ہو۔قومی سلامتی کے تناظرمیں دیکھاجائے تواب خلیج فارس سے آنے والے تعطل پرکسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔معاشی طورپربھی ملک اب تیل کی سپلائی میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کوبرداشت کرسکتاہے اورآئندہ اس تیل پر انحصارمزیدکم ہی ہوگا۔موجودہ حالات میں امریکاکوخلیج فارس میں اپنی موجودگی کی بجائے بتدریج خودکو ایسی پوزیشن پر لاناہوگاکہ کسی بھی وقت وہ اس وابستگی کوختم کرسکے۔ آنے والے دو عشروں میں تیل کے حوالے سے خود انحصاری حاصل کرنے کیلئے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی، جیسا کہ ملکی ذخائرمیں اضافہ،توانائی کابہتر استعمال اور آبنائے ہرمزسے گزرنے والی تیل کی پائپ لائنوں کی استعداد میں اضافہ،ان اقدامات سے ملک جلدخودانحصاری حاصل کرلے گا۔
ادھر پینٹاگون نے ٹرمپ کواس بات پرقائل کرلیاتھاکہ تیل کے معاملے میں خودانحصاری کے بعدامریکاکوخلیج میں اپنی وابستگی وہاں موجود خطرات کوسامنے رکھ کربرقراررکھنی ہوگی۔ ان خطرات میں سب سے نمایاں ایران ہے جس کیلئے ایران پرایٹمی معاہدے میں مزیدسخت شرائط عائدکرنے کے بعدوابستہ خطرات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔تیل کی درآمد سے پابندی ہٹنے کے بعدایرن شاید ہی کبھی خلیج فارس میں کسی گڑبڑکاسوچے۔کیونکہ ایساکرنے سے اس کو بہت بڑی آمدنی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اس طرح جب ایران سے خطرات بھی نہ ہو نے کے برابررہ جائیں اورامریکاتیل پرخودانحصاری حاصل کرلے تواس کوتیل کی سپلائی لائن کی حفاظت کی ذمہ داری سے جان چھڑا لینی چاہیے۔لیکن اگرایران جارحیت پراترتاہے توپھرامریکاکومشکل حالات کاسامناکرناپڑسکتاہے۔
ان دنوں خودامریکی عوام کے اندریہ احساس بڑھتاجارہاہے امریکاکوخلیج سے اپنی فوجی وابستگی کاخاتمہ جلدازجلدکرناچا ہئے،جس سے اس کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی اور ترجیحات بدل جائیں گی اوراگرامریکااپنی فوجی وابستگی برقرار رکھتاہے،تواسے اپنے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ اس مدمیں خرچ کرناپڑے گا۔بہرحال یہ فیصلہ اب غزہ کے موجودہ حالات سے جڑگیاہے کہ امریکاکی خلیج فارس میں فوجی ترجیحات کیا ہوں گی،جن میں جوہری پھیلاسب سے اہم ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے دہائیوں سے خلیج میں فوج کی موجودگی پر کبھی سوال ہی نہیں اٹھایا باوجود اس کے کہ خلیج میں فوج کی ضرورت پہلے جیسی نہیں رہی۔اس معاملے پر نظرثانی نہ کرنااوراس کے متبادل پر سرمایہ کاری نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے ۔اس غلطی کے نتیجے میں جہاں امریکا کواربوں ڈالرکا نقصان ہورہاہے وہیں اپنی فوج کو غیرضروری جنگ میں بھی الجھایاہواہے اگراسرئیل جیسے سفید ہاتھی سے جلد جان نہ چھڑائی گئی تویہ بدمست ہاتھی خودامریکاکواپنے قدموں تلے کچلناشروع کردے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں