میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یورپی اقوام میں تقسیم۔۔ (٢)

یورپی اقوام میں تقسیم۔۔ (٢)

ویب ڈیسک
جمعه, ۷ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

بیلجیئم میں واٹر لوکے قریب اٹھارہ جون 1815 کو ہونے والی جنگ میںمشہورفرانسیسی رہنما نپولین بوناپارٹ کوایسی عبرتناک شکست ہوئی جس نے اُس کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک کردیا مگراب جنگوںکازمانہ نہیں بلکہ جمہوریت کا دور دورہ ہے سیاسی جماعتیں ووٹوں کی طاقت سے شہر اور ملک فتح کرتی ہیں اِس وقت بارہ لاکھ سے زائد آبادی والے شہر برسلز پربیلجیئم کی تمام سیاسی جماعتوں اور گروپوں کی نظر ہے سب کی اولیں کوشش اِس شہر کا اقتدار حاصل کرناہے کہتے ہیںکہ جس طرح بجلی کے بلیک آئوٹ میں جب ہر طرف اندھیرا ہوتا ہے تو اِس اندھیرے میں اگر ایک سگریٹ کا کش بھی لگایا جائے تو روشنی بہت دور تک محسوس ہوتی ہے اسی طرح ایسے عالم میں جب یورپی یونین کی رائے عامہ تارکینِ وطن کے خلاف ہے بیلجیئم میں تارکین ِ وطن ایک بڑی سیاسی قوت کے طورپر سامنے آئے ہیں۔ برسلزکے شہری علاقے میں فواد حیدر ٹیم اِس حدتک متحرک اور منظم ہے کہ انتخابی نتائج سے قبل ہی اُسے اہم ترین گروپ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ گروپ فرانسیسی زبان بولنے والے شہری اور ڈچ یعنی فلامش بولنے والے دیہی حصے میں بھی مقبول ہے۔ شہر میں اپنے امیدواروں کی تشہیر کے ساتھ آزاد فلسطین کے لیے آواز بلند کرتاہے۔ مقامی مسائل کے حل کے حوالے سے ایسے قابلِ عمل منشور کا اعلان کیا ہے جسے مسائل کے حل کا روڈ میپ کہہ سکتے ہیں جس سے مقامی ووٹروں کو قائل کرنے میں مدد مل رہی ہے مگر اِس حقیقت کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا کہ حاصل مقبولیت میں چوہدری پرویز لوہسر کی حکمتِ عملی ،ملنساری اور سماجی خدمات کاقابلِ قدر حصہ ہے جنھوں نے انتخابی مُہم کا آغاز حکمت وتدبر سے کرتے ہوئے تارکین ِ وطن کے علاوہ مقامی لوگوں کو ہمنوا بنایا۔
عالمی معاملات ہوں یامقامی مسائل ،یورپی اقوام میں تقسیم کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بیلجیئم کا دارالحکومت برسلز تو ہے ہی کثیر لسانی ،نسلی اور مذہبی شہر ، یہاں تو تقسیم درتقسیم کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ ماضی میں ایک سے زائد تارکین ِ وطن اِس شہرکے مقامی بلدیاتی اِداروں کے رُکن منتخب ہو ئے مگر انتخاب کے بعدکچھ سماجی روابط بہتر نہ رکھ سکے۔ البتہ کردارو عمل میں شفافیت رکھنے والوں کو متواتر پزیرائی حاصل ہے اوروہ تارکینِ وطن کی نیک نامی میں اضافے کے ساتھ مقامی لوگوں میں بھی اچھا تشخص بنانے میں کامیاب ہیں۔ چوہدری پرویز لوہسر کے صاحبزادے محمد علی لوہسر ایک بائیس سالہ نوجوان ہیں جو حسنِ اخلاق اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے مقبول ہیں والد کے تعلقات الگ اثاثہ ہیں جسے مدِ نظر رکھتے ہوئے فواد حیدرٹیم نے ٹکٹ جاری کرتے ہوئے پانچویں نمبر پر رکھا ہے ۔ایک طرف ایسے حالات میں جب یورپی اقوام میں تقسیم کا عمل جاری ہے جس کی وجہ سے سیاسی جگہ بنانا ازحد دشوار ہے اِن حالات میں محمد علی لوہسر کے نام پر نہ صرف تارکینِ وطن بلکہ مقامی مکاتب ِ فکر کا اعتمادکرنانہایت خوش آئند ہے۔ دراصل تقسیم درتقسیم کا شکار ہونے کے باوجود یورپی معاشرے میں اچھے اور بُرے میں فرق کی حس اب بھی قدرے بہتر ہے جس سے محمد علی لوہسر جیسے نوجوانوں کے لیے حالات سازگار ہیں ۔
برطانوی اخراج کے بعد دسویں یورپی پارلیمنٹ کی تشکیل کامرحلہ زیادہ دور نہیں رہا لیکن کیا برطانوی لوگ اپنے فیصلے سے خوش ہیں ؟اِس سوال کے جواب میں ہاں کہنا غلط ہوگاجس کی وجہ یہ ہے کہ چند برسوں میں ہی اُسے احساس ہو گیا ہے کہ جذبات میں آکر غلط فیصلہ کرلیا ہے مگراب غلط فیصلے کو درست کرنے کے لیے فوری طورپر ایسی کوئی روش نظر نہیں آرہی جس پر چل کر سُرعت سے غلطی درست کرلی جائے۔ برطانوی آبادی کا خیال تھا کہ دنیا بھر کے لیے برطانیہ باعثِ کشش تو ہے ہی لیکن یورپی یونین میں شامل ہونے سے تنظیم کے ممالک سے بھی بڑی تعدادمیں لوگ برطانیہ آکر رہائش اختیار کرنے لگے ہیں جس سے مقامی آبادی کے لیے نہ صرف رہائشی مسائل پیداہوئے بلکہ روزگارکا مسئلہ بھی شدت اختیار کرنے لگاہے۔ اب جبکہ برطانیہ یورپی یونین سے باہر ہوچکا ہے مگر ہنوزنہ صرف مسائل برقرار ہیں بلکہ وقت کے ساتھ اُن میں شدت آتی جارہی ہے ۔مزید یہ کہ نہ صرف سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے بلکہ ترقی کا پہیہ بھی سُست ہوچکاہے جس سے یہ خیال اذہان میں تقویت پکڑنے لگا ہے کہ تارکینِ وطن کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے سے ترقی اور سرمایہ کاری کامقصد حاصل نہیں ہو سکتا پُرتگال کی گزشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والی ترقی میں تارکینِ وطن کے کردارکویکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نئے لوگ نئے آئیڈیاز لاتے ہیں اور مقامی آبادی سے زیادہ جان مارکر محنت کرتے ہیں۔ اِس طرح سرمایہ حرکت میں آتااور کاروباری مواقع بڑھتے ہے شاید یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ یورپی اقوام میں تقسیم کا عمل فروغ پزیرہے مگر برطانوی بریگزٹ سے سبق حاصل کرنے کے بعد یورپی یونین کی حد تک اتفاق اور تعاون میں اضافہ ہواہے ۔
یورپی یونین میں شامل ریاستوں میںحکومتی اور عوامی سطح پر قُربت ہے لیکن خارجی حوالے سے خیالات میں فرق ہے اٹلی اور ہنگری جیسے ممالک واضح طور پر روس کی طرف رجحان رکھتے اور تجارت کے خواہاں ہیں کئی ممالک جہاں اقتدار قوم پرستوں کے پاس ہے ۔وہ بھی روس سے تیل و گیس درآمد کرناچاہتے ہیں۔ اٹلی توروس کے خلاف کسی قسم کی فوجی کاروائی میں ساتھ دینے سے اعلانیہ انکاری ہے۔ نیٹو میں شامل فرانس اور ترکیہ جیسے ممالک کا امریکہ سے دفاعی معاملات میں اختلاف ہے اور اگر یوکرین جنگ کاجلد اختتام ہوجاتا ہے تو شاید کئی یورپی ممالک روس کے ہمنوابن جائیں جنگ ختم کرانے میں امریکی عدم دلچسپی کا باعث یہی وجہ ہے کیونکہ اُسے نیٹو کے کمزور ہونے کے علاوہ یورپی یونین کے لیے بھی مُضر ثابت ہو نے کاخدشہ ہے مگر بیلجیئم کے لوگوں کے خدشات قدرے مختلف ہیں یہاں کی مقامی آبادی کا تارکینِ وطن سے فیاضانہ برتائو ہے مگر جب کم ہوتی رہائشی سہولتوں پر بات ہو یا روزگار کے کم ہوتے مواقع کاذکر ، تو اِن مسائل کا موجب تارکینِ وطن کو قرار دیتے ہیں حالانکہ حیران کُن پہلویہ ہے کہ بیلجیئم میں آباد تارکینِ وطن کی بڑی تعداد کا تعلق یورپی یونین میں شامل ممالک سے ہے جس کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔اِس ملک کی برآمدات میںاسٹیل،ٹیکسٹائل،کیمیکل ،پیپراور فوڈ پروسیسنگ وغیرہ شامل ہے جبکہ درآمدات میں تیل ،گاڑیاں،خوراک اور خام مال کا اہم حصہ ہے۔ ڈائمنڈکی بڑی منڈی اور معاشی حوالے سے مستحکم یہ ملک بھی گزشتہ دوبرس سے گرانی کا شکارہے اور حکومت مالی بوجھ مرحلہ وار عوام کی طرف منتقل کررہی ہے جس سے ملازمت پیشہ لوگ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں جس سے بے چینی کاخدشہ ہے ایسے حالات میں جب یورپی اقوام میںتقسیم بڑھ رہی ہے مقامی آبادی کی یہ بے چینی سیاسی قیادت کے لیے وبال بن سکتی ہے جس پر قابوپانے کے لیے نوجون کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو کچھ نیا اور منفرد کرنا ہوگا تاکہ شہریوں کی بداعتمادی ختم ہو اور یورپی یونین کے اِس مرکز میں سیاسی استحکام رہے یہ مقصد عوامی آسودگی کے بغیر ناگزیر ہے جو تارکینِ وطن کو معاشرے میں جذب کرنے سے ہی ممکن ہے ۔(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں