سندھ کی پبلک اور سروس کا کمیشن
شیئر کریں
پبلک سروس کمیشن یہ نام تو آپ نے بارہا، ہرکس و ناکس کی زبان سے سنا ہی ہوگا۔ یاد رہے کہ دنیا کے ہر ملک میں پبلک سروس کمیشن کا قیام اس لیے عمل میں لایا جاتا ہے کہ اہم ترین ملازمتوں کے تقرر و تبادلے میں میرٹ اور اہلیت کو فروٖغ حاصل ہوسکے۔ شاید اسی لیے پبلک سروس کمیشن کو دنیا بھر میں میرٹ جانچنے اور پرکھنے کا آخری قابل قدر ’’انتظامی مقام ‘‘سمجھا جاتاہے۔ عام طور پر کسی بھی ملک میں پبلک سروس کمیشن کا ایک ہی خود مختار ادارہ کافی و شافی ہوتاہے اور ابتدا میں ہمارے وطن عزیز میں بھی میرٹ پر اعلیٰ ملازمتوں کے تقرر کے لیے پبلک سروس کمیشن کا وفاق کے زیر انتظام ایک ہی ادارہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعدا زاں ہمارے میرٹ پسند، جمہوری حکمرانوں نے اپنے اپنے صوبوں میں بھی پبلک سروس کمیشن کے زیر انتظام سندھ، پنجاب ،خیبر پختونخواہ، بلوچستان وغیرہ کے لاحقے جوڑ کر پبلک سروس کمیشن کے جدا جدا کئی صوبائی ادارے بنا دیئے ۔جن کی تشکیل کے وقت پاکستانی عوام کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ صوبائی سطح پر پبلک سروس کمیشن کے خود مختار ادارے بن جانے سے نئی ملازمتوں کی تقسیم اور تقرر میں اہلیت کا بول بالا ہوگا اور میرٹ کا ثمر اُن کی دہلیز تک پہلے سے بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ پہنچنے لگے گا۔ مگر شومئی قسمت کہ پاکستانی عوام کے ساتھ کیا جانے والا یہ’’سیاسی وعدہ ‘‘بھی حسرت و یاس کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکا اورعوام کے پسندیدہ سیاسی حکمران خاندانوں نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو اقربا پروری کے بھٹی میں سے گزار کر کمال مہارت سے خالص ’’سیاسی پبلک سروس کمیشن ‘‘ میں ڈھالنے میں کوئی کسر نہ اُٹھارکھی۔یوں ہمارے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ادارے بھی اعلیٰ سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغوں میں ملک کی اعلیٰ ترین ملازمتیں تقسیم کرنے کی ٹکسال بن کر رہ گئے۔
سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدرآباد کے معزز ترین جسٹس جناب ذوالفقار احمد خان اور جسٹس محمد سلیم جیسر پر مشتمل ڈویژن بینچ کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے متعلق دیئے جانے والے حالیہ فیصلے نے تو مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو اپنی ’’سیا سی مرضی ‘‘ سے چلانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑا گیا۔ شا ید یہ ہی وجہ ہے کہ معزز جج صاحبان نے اپنے30 صفحات کے تفصیلی فیصلہ میں سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ1989کو آئین، چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے رولز2017کو سندھ گورنمنٹ رولز آف بزنس1986 اور سندھ پبلک سروس کمیشن فنکشنز)رولز 1990کو سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ 1989کے خلاف قرار دیتے ہوئے پبلک سروس کمیشن کے مو جودہ ڈھانچے کو معطل کرنے کا حکم صادر فرمادیا ہے ۔ نیز عدالت عالیہ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے مذکورہ تمام ایکٹ و رولز کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ایس پی ایس سی ایکٹ 1989 کے تحت تمام ٹیسٹ، انٹرویوز، سلیکشنز، بھرتیاں اور ٹینڈرز وغیرہ کو بھی معطل رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جبکہ عدالت عالیہ نے2018میں لیے جانے والے مقابلے کے امتحانات اور محکمہ صحت میں 1783میل و فی میل ڈاکٹرز کی ہونے والے بھرتیوں کو منسوخ کر دیا ہے۔
قارئین کی معلومات اور یاد دہانی کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ سال 2019 میں ایک نجی نیوز چینل نے سندھ پبلک سروس کمیشن میں جاری بے قاعدگیوں پر ایک تحقیقاتی رپورٹ نشر کی تھی ۔جس میں مبینہ طور پر کئی ہولناک انکشاف کیے گئے تھے کہ رپورٹ کے مطابق’’ گزشتہ کئی برسوں کے دوران سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے تقریبا 11 اشتہارات کے ذریعے پی ایم ایس، انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، سندھ پولیس ریجن، محکمہ شماریات سمیت مختلف محکموں میں تعیناتیوں کے لیے درخواستیں طلب کر کے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر من پسند افراد کو کامیاب قرار دے دیا گیا تھا۔جس کی بنا پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے ایک افسر سمیت مختلف امیدواران کی جانب سے عدالت سے رجوع کرلیا گیا تھا۔ ان امیدواروں کا موقف تھا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والا طریقہ امتحان مکمل طور پر ایک مافیا کے قبضے میں ہے جو اپنے بچوں، رشتہ داروں، دوستوں کو نواز رہے ہیں۔اس حوالے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت تحریری امتحان میں شرکت سے قبل عمومی طور پر اسکریننگ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اسکریننگ ٹیسٹ میں امیدوار عمران علی رول نمبر 00043 کو ناکام قرار دینے کے باوجود تحریری امتحان میں بٹھا دیا گیااور موقف اختیار کیا گیا کہ امیدوار نے پرچہ دوبارہ چیک کرنے کی درخواست کی تھی۔اسی تحریری امتحان اور انٹرویوز کے نتائج کے بعد جاری کیے گئے نتائج میں بھی سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر دیے جانے والے فیصلے کی صریح خلاف ورزی کی گئی جس کا مقصد مخصوص انداز میں من پسند افراد کو کامیاب قرار دینا تھا۔انٹرویو لینے والی کمیٹی میں میں پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نور محمد جادمانی، غلام شبیر شیخ، اعجاز علی خان، عبدالعلیم جعفری شامل تھے۔ ان میں سے کمیشن کے رکن شبیر شیخ پر نیب نے قومی خزانے کو 500 ملین روپے نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کا واضح حکم تھا کہ کرپشن کے الزام کا سامنا کرنے والا کوئی شخص کمیشن کا رکن نہیں ہوسکتا۔ انٹرویو میں شامل شبیر شیخ کے قریبی دوست کا بیٹا محسن کامیاب قرار دیا گیا تھا۔اسی طرح سیکریٹری پبلک سروس کمیشن احمد علی قریشی کا بیٹا کاشف علی کو بھی کامیاب قرار دیا گیا تھا ۔جبکہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت مختلف امتحانات میں کنٹرولر ہادی بخش کلہوڑو کے سگے بھائی، 3برادرنسبتی ایک بھتیجے سمیت 18رشتہ دار کامیاب قرار دے دیئے گئے تھے۔نیز ہادی بخش کلہوڑوکے بھائی عبدالشکور کلہوڑو کو انسپکٹر انٹی کرپشن، بھتیجے فراز احمد کو سی سی ای، برادرنسبتی عبیدالرحمان کو سی سی ای، غلام محی الدین کا کامیاب قرار دیا گیا جبکہ دیگر رشتہ داروں میں صدام حسین کلہوڑو، عبدالمجیدکلہوڑو، عتیق نبی کلہوڑو، زبیر احمد عباسی، جاوید احمد عباسی اور فیروز احمد عباسی کو اے ایس آئی پولیس رینج کراچی کے امتحان میں کامیاب قرار دیا گیاجبکہ شعیب احمد عباسی، میر احمد عباسی اور عبدالریشد کلہوڑو کو انسپکٹر انوسٹی گیشن کے امتحان میں کامیاب رہے تھے۔
حیران کن طور پر سندھ کی بااثر شخصیت غلام رسول برڑو کے تین بیٹے غلام محی الدین، غلام فاروق، فراز احمد اور ایک بھتیجا خالد احمد کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ یاد رہے غلام رسول برڑو ناظم امتحان ہادی بخش کلہوڑو کے قریبی دوست بتائے جاتے ہیں۔پبلک سروس کمیشن کے سابق رکن اور بااثر شخصیت سائیں داد سولنگی کی بیٹی امیمہ سولنگی کو شہری کوٹے سے سی سی ای کے امتحان میں کامیاب قرار دیا گیا جبکہ بیٹے غلام نبی کو دیہی کوٹے میں سی سی ای میں کامیاب رہے تھے۔ مزید انکشافات ، اُس وقت عدالت میں جمع کرائی گئی ایک درخواست میں کیے گئے تھے۔ جس میں ویڈیو کے ذریعے پبلک سروس کمیشن کا انگریزی مضمون کا پرچہ ایک رات قبل لیک ہونے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا۔نیزدرخواست دہندگان نے اُسی نجی نیوز چینل کے پروگرام میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں کلہوڑا عباسی ایسوسی ایشنز کا اثر رسوخ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان ایسوسی ایشنز کے سرگرم رکن اور سابق بیوروکریٹ لال محمد کلہوڑو ناظم امتحان ہادی بخش کلہوڑو کے سسر ہیں۔ اسی وجہ سے لال محمد کلہوڑو کے تین بیٹے بھی پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں۔دوسری جانب میرانی گروپ بھی سرگرم ہے جو ہادی بخش کلہوڑو سے خصوصی رابطہ میں ہے اور اسی بنیاد پر اس گروپ کے دو بھائیوں شاہنواز میرانی اور منصور میرانی کو بھی اسسٹنٹ کمشنر اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کے امتحانات میں کامیاب قرار دیا گیا ہے‘‘۔
اَب اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے کہ عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے مذکورہ فیصلے نے دو برس قبل نجی نیوز چینل پر نشر ہونے والی رپورٹ اور درخواست گزاروں کے موقف کو بالکل درست ثابت کردیا ہے اور سندھ پبلک کمیشن میں برسوں سے جاری میرٹ کے قتل عام کی’’قانونی تصدیق ‘‘بھی کردی ہے ۔بظاہر سندھ حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف عدالت میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔فرض کرلیں اگر سندھ حکومت اپیل میں یہ کیس جیت بھی جاتی ہے تو کیا اُس سے حکومتِ وقت اور سندھ پبلک سروس کمیشن کی مجروح ہونے والی ساکھ بحال ہوسکے گی؟۔اس سوال کا جواب کس سے لیا جائے ، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔