میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ْْْْٓٓقانون وانصاف

ْْْْٓٓقانون وانصاف

ویب ڈیسک
اتوار, ۷ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

انشا پردازی اور قانون کی تعبیر و تشریح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے کسی پہر اپنا قلم دانتوں میں دبائے سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ شاید کوئی نایاب موتی مل جائے جسے قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کروں کہ اچانک خیالات کے اس بحر میں اپنے استاد ِمحترم سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے آتے ہی مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’کیوں میاں کہاں کھوگئے کن خلائوں میں کہکشاں تلاش کررہے ہو‘‘ ؟میں نے جواب میں عرض کیا کہ قابل صد احترام استاد قانون اور انصاف کے عنوان سے ایک مضمون لکھنا چاہتا ہوں تاکہ ایک ’’عام شخص‘‘ کو بھی اپنے قانونی حقوق اور فرائض کا علم ہو۔ ’’عام شخص‘‘ استاد محترم نے میرے ان الفاظ پر زور دیتے ہوئے میری جانب معنی خیز انداز میں دیکھا اور فرمایا، جب اسد اللہ خان جسے دنیا آج غالب کے نام سے جانتی ہے، نے شاعری شروع کی تو ایسے ایسے اشعار کہے جو بہت گہرے مطلب اور تشریح رکھتے تھے وہ اشعار غالب کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور سننے والے کی روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے تھے لیکن غالب نے اپنے ان اشعار میں ایسے سخت اور بھاری الفاظ استعمال کیے کہ عام شخص تو کیا ادب سے وابستہ اشخاص کو بھی اُن کو سمجھنے میں بہت مشکل پیش آئی۔ یہاں تک کہ عیش دہلوی جیسی ادبی شخصیت نے غالب پر ایک طنزیہ رباعی تک کہہ دی کہ
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا وہ آپ سمجھے یا خدا سمجھے
اسد اللہ خان نے اس تنقید کے بعد ’’غالب‘‘ کا تخلص اپنایا اور اپنے انداز بیان کو سادہ زبان میں تبدیل کردیا اور بس پھر آج وہ غالب ہے۔ قانون کی زبان آسان و سہل نہیں لیکن ہر شخص تک اس کو سادہ زبان میں پہنچانے کی ضرورت میں الفاظ کا چنائو ہی انشا پردازی ہے۔قانون بناتے ہوئے بھی انشا پردازی کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ کم جملوں اور فقروں میں وسیع مطالب حاصل کرلیے جائیں ،ساتھ ساتھ صحیح جگہ پر درست لفظ کو استعمال کیا جائے۔ کسی بھی زبان میں ہم معنی اور مفہوم کے کئی الفاظ ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے استعمال کی درست جگہ مختلف ہوتی ہے مثلاً ’’کہا‘‘، ’’فرمایا‘‘، ’’عرض کیا‘‘ وغیرہ مفہوم اور فعل کے اعتبار سے ایک ہی مطلب رکھتے ہیں لیکن قدرکے اعتبار سے مختلف مقام پر استعمال ہوتے ہیں۔
قانون میں انشا پردازی قانون کی تعبیر و تشریح میں اہم کردار ادا کرتی ہے، خصوصاً جملوں میں علامات کا استعمال جملوں اور فقروں کے معنی ہی بدل دیتا ہے۔ مثلاً ’’اٹھو مت، بیٹھو اور اٹھو، مت بیٹھو‘‘ میں کومہ کا استعمال حکم کی نوعیت ہی بدل دیتا ہے۔ پاکستان میں رائج قوانین اصالتاً انگریزی زبان میں تحریر کیے گئے ہیں لہٰذا ان کی تعبیر و تشریح یا سادہ زبان میں سمجھنے کے لیے کئی اصول وضع کیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک کو میں یہاں واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن پہلے یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے قانون میں بیان کردہ حقوق و فرائض کو تحریر کرنے سے قبل انشا پردازی اور قانون کی تعبیر و تشریح کو کیوں موضوع بحث بنایا جبکہ یہ ایک مشکل اور دشوار امر سمجھا جاتا ہے اور قانون کے طالب علم بھی اس مضمون کے مطالعہ میں بوریت محسوس کرتے ہیں۔ ہم اکثر اوقات لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات اتنے بڑے قانون دانوں کی سمجھ میں نہیں آرہی اور اس پر بحث کرنے کے لیے عدالتیں تاریخ دے دیتی ہیں نیز بحیثیت وکیل اپنے موکل کو مقدمات کی سماعت کے دوران سامنے آنے والے قانونی سوالات و مسائل بتانے پر درج بالا جواب سننے کوملتا ہے۔ اس کی ایک عام سی مثال قانون معیادِ سماعت ہے یعنی قانون میں ہرطرح کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے کچھ مخصوص دورانیہ وضع کیا گیا ہے اور وہ وقت گزر جانے کے بعد مقدمہ دائرکرنے کا حق ختم ہو جاتا ہے لیکن قانون سے ناواقف افراد اس بات پر بضد ہوتے ہیں کہ وقت سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض اوقات کسی قانون میں اگر کوئی لفظ استعمال ہوتا ہے تو وہاں اس کا حقیقی مطلب ظاہری مطلب سے مختلف ہوسکتا ہے اور اسی ایک ہی لفظ کا کسی دوسرے قانون میں کوئی اور ہی مطلب لیا جاسکتا ہے ۔ یہی بات سادہ الفاظ میں قانونی پیچیدگی کہلاتی ہے۔ کون سے الفاظ قانون میں کس مطلب کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس امر کی وضاحت کے لیے ہر قانون میں تعارفی دفعات شامل کی جاتی ہیں، نیز قانون کی تعبیر و تشریح یعنی قانون میں استعمال ہونے والے الفاظ کے قانونی مطلب اور ان کے نفاذ کو سمجھنے کے لیے الگ سے قانونِ عبارات عامہ بھی وضع کیا گیا ہے۔
قانون کی عبارت اور اس کا نفاذ قانون کا بہت اہم اور نازک نکتہ ہے اور اس امر کے فیصلہ پر ہی خصوصی توجہ، احتیاط، علم اور عقل کی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ امر حضرت دائود ؑ کے اس واقعہ سے بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے جو قصص الانبیا میں درج ہے کہ ایک دن حضرت دائود ؑ نے دل میں خیال کیا کہ اس دنیا میں ان سے بہتر عدل اور فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ جونہی اُن ؑ کے دل میں یہ خیال گزرا تو اللہ ذوالجلال نے اُن ؑ کو حقیقت سے روشناس کرانے کے لیے ان کے پاس ایک فرشتے کو انسانی صورت میں بھیجا جس نے حضرت دائود ؑسے عرض کی کہ ’’اے اللہ کے نبی میرے بھائی کے پاس ننانوے (99 ) بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک۔ لیکن میرا بھائی چاہتا ہے کہ وہ مجھ سے یہ ایک بھیڑ بھی لے لے۔ یہ کہانی سن کر حضرت دائود ؑ نے فوراً فرمایا یہ تو ظلم ہے۔ اس جملے کی ادائیگی پر اللہ نے فوراً ہی حضرت دائود ؑ پر وحی کی اور فرمایا ’’دائود ؑ تم نے فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیا۔ کیا تم نے اس کے بھائی یعنی فریق ثانی سے اس کا موقف جانا۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی اسی دوسرے بھائی کی ہو اور تمہارے سامنے پیش ہونے والے فریق نے وہ چھینی ہو یا چوری کی ہو‘‘۔ اپنی خطا کا ادراک ہونے پر حضرت دائود ؑ نے فوراً معافی طلب کی۔
قانون کے نفاذ کے اعتبار سے قانون دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک قانون موثر بہ زمانہ ماضی اور دوسرا قانون موثر بہ زمانہ حال و مستقبل۔ یعنی قانون بناتے وقت مقنن (قانون ساز) کو قانون میں اس بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ مذکورہ قانون کب سے نافذ العمل سمجھا جائے گا۔ عموماً قانون موثر بہ زمانہ حال و مستقبل ہی ہوتا ہے جس سے مراد ہے جس وقت قانون بنایا گیا اس وقت سے ہی اور مستقبل کے لیے وہ قانون نافذ سمجھا جائے گا لیکن بعض اوقات قانون ساز قانون موثر بہ زمانہ ماضی بھی وضع کرتے ہیں جس سے مراد یہ کہ مذکورہ قانون کا نفاذ ماضی کی کسی تاریخ سے سمجھ جائے۔ اس ضمن میں چوپٹ راج کا واقعہ بہت دلچسپ ہے جب چوپٹ راج نے حکم دیا کہ شادی کرنا ایک جرم ہے اور تمام شادی شدہ افراد کو قتل کردیا جائے تو وہاں موجود ایک بزرگ شخص سامنے آئے اور عرض کی مہاراج میری شادی کو پچاس سال ہوچکے ہیں۔ پچاس سال قبل مجھے نہیں معلوم تھا کہ شادی کرنا ایک دن جرم ہوجائے گا ورنہ میں نہ کرتا۔ یہ واقعہ قانون موثر بہ زمانہ ماضی کی ایک اچھی مثال ہے۔
قانون کی تعبیر و تشریح اور انشا پردازی ایک مستقل اور اہم مضمون ہے جس میں قانون کی نحوی (لفظی) تعبیر، عقلی (منطقی) تعبیر، سخت اور لچکدار تعبیر شامل ہے۔ قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے داخلی و خارجی عناصر کا سہارا بھی لیا جاتا ہے جس میں انشا پردازی کے ساتھ ساتھ قانون کا عنوان، ابتدائیہ، تعبیری دفعہ، سرخیاں (HEADINGS )، ابواب (CHAPTERS ) تشریحات (EXPLANATION ) مثالیں (ILLUSTRATION)، حاشیے کے نوٹ (MARGINAL NOTES) عبارتی علامت (PUNCTUATIONS )، مست (EXCEPTIONS )، مشروط دفعات (PROVISO )، بچائو کی دفعات، فقرہ استثنائیہ (SAVING CLAUSE )، گوشوارہ (SCHEDULES ) فارم (FORMS ) مسودہ قانون (BILL )، مجلس قائمہ کی رپورٹ، عدالتی تعبیر، عدالتی نظائر (عدالت کے فیصلے) ڈکشنری (لغت)، قانونی حکمت عملی، محکمہ جاتی تعبیر اور مقصد قانون قابل ذکر ہیں۔ نیز تعبیر وتشریح میں قانون ساز کی نیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے جو کہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جس کی بناء پر قانون سازی کی ضرورت پیش آئی ان سب عوامل وعناصرکومدنظر رکھتے ہوئے ہی قانون میں فرائض اور استحقاق کا تعین کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں