میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دوستی

دوستی

ویب ڈیسک
بدھ, ۷ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

انگلش میں کہتے ہیں” Friend in need is firend in deed“ اردو میں کہتے ہیں کہ دوست وہی جو برے وقت میں کام آئے، بات انگلش میں ہو یا اردو میں بات ایک ہی ہے ہندی میں دوست کو سجن کہتے ہیں اور سجن پھر جندال بھی ہو تو اس نے کام تو آنا ہے سجن جندال صرف شریف فیملی کا دوست نہیں بھارت کے ہر حکمران کا دوست ہے اور یہ دوستی خاندانی ہے ۔
ایک حکایت ہے کہ ایک صاحب جو خیر سے سیاستدان بھی تھے بہت پارٹیاں تبدیل کیا کرتے تھے ،کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ اتنی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں آپ کے قائد بدلتے رہتے ہیں ایسا کیا ہے، کسی پارٹی نے آپ کو سکون کیوں نہیں آیا، ان صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھائی میں پارٹی تبدیل نہیں کرتا میں حکمران جماعت کے ساتھ ہوتا ہوں جب حکمران جماعت بدل جاتی ہے تو میں کیا کروں۔ اسی طرح سے وزیراعظم میرا قائد ہوتا ہے، وہ فیروز خان نون ہو یا محمد علی بوگرا،حسین شہید سہروردی ہو یا خواجہ ناظم الدین وزیراعظم کوئی بھی ہووہی میرا قائد ہے ۔
اگر ہم گزشتہ چار سال کی سرحدی صورتحال کا جائزہ لیں تو صورتحال بڑی تلخ نظر آتی ہے، جب جب میاں صاحب کی گردن میں پھندا تنگ ہونے لگتا ہے سرحد پر خصوصاً کشمیر سے ملحقہ سرحدی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ بھارتی اشتعال انگیزی بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی مفلوج کر دیتی ہے۔ جوابی کارروائی ہوتی ہے، دشمن کی توپیں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتی ہیں لیکن یہ خاموشی مستقل نہیں ہوتی بلکہ عارضی وقفہ کے بعد پھر گولہ باری شروع ہو جاتی ہے یوں اس علاقہ میں کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتاہے ان سرحدی علاقوں میں جو لوگ رہتے ہیں ان کا ذریعہ معاش زراعت ہے اور ان کی فصلیں سرحدی باڑ تک جاتی ہیں لیکن جب ہلکی توپوں ،سیمی آٹو میٹک مشین گنوں،لائٹ مشین گنوں اور ہیوی مشین گنوں کی فائرنگ ہوتی ہے تو میلوں کے علاقے سنسان ہوجاتے ہیںکہ ان ہتھیاروں کی رینج بہت وسیع ہوتی ہے لوگ گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں بلکہ گھروں میں بھی غیرمحفوظ ہوتے ہیں کہ توپ کا گولہ گرا چھت بیٹھی یا دیوار گری اور اس کے قرب وجوار میں پناہ لیے ہوئے کسی کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا،فوجی اور نیم فوجی دستے تو اپنی تربیت کے نتیجے میں ایسی صورتحال سے نمٹنے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن بے گناہ شہریوں کے لیے یہ حملے روح فرسا ہوتے ہیں ۔
تقریباً ایک سال قبل کشمیر کے نوجوان کمانڈر جس نے16 سال کی عمر میں جبکہ وہ انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا اور اپنے کالج کے ہونہار طلبہ میں شمار ہوتا تھا اس نے حزب المجاھدین میں شمولیت اختیار کی تو سب کو حیرانی تھی کہ برہان الدین وانی جو آئندہ چند سال میں ایک کامیاب انجینئر یا فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے اعلیٰ مقام حاصل کرسکتا تھا اس نے یہ فیصلہ کیوں کیایہ عمر تو سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے کی ہوتی ہے، وہ فیوچر جس کا آخری مقام قبر کی تاریکی ہے لیکن کتنے زندہ دل ہیں جو اس حقیقت کو جان لیتے ہیں۔ برہان الدین وانی نے یہ حقیقت جان لی تھی کہ جو مہلت عمل رب نے دی ہے اس میں ایک لمحہ کی توسیع بھی نہیں ہو سکتی لیکن اس مہلت عمل کو رب کی رضا کے لیے استعمال کر کے دائمی حیات حاصل کی جا سکتی ہے۔ میں برہان الدین وانی کو اخباری تصاویر کے علاوہ نہیں جانتا لیکن میری ہر دعا میں برہان الدین وانی اور اس کے مجاہد ساتھی شامل ہوتے ہیں کہ ان بچوں نے اپنا جوان خون دے کر رب کائنات کے اس تحفہ کی حفاظت کی ہے، برہان الدین وانی نے سوشل میڈیا کا سہارا لیکر 7 سال کے مختصر عرصہ میں بھارتی جبرواستبداد کو جس طرح بے نقاب کیا وہ کام بہت طویل عرصہ تک جو تقریباً ربع صدی پر مشتمل ہے کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی نہیں کر سکے ۔ برہان الدین وانی کے ساتھ تو بہت وسائل تھے کبھی نیٹ کے سگنل نہیں ملتے تھے ،کبھی وائی فائی نہیں ملتا تھا لیکن جب جذبے جوان ہوں تو مشکلات سہولیات میں بدل جایا کرتی ہیں، میں نہیں جانتا کہ برہان الدین وانی نے اپنے اس مشن کو کس طرح پورا کیا لیکن آج پورا کشمیر برہان الدین وانی کی جلائی ہوئی شمع سے روشن ہے ۔گزشتہ دنوں شہید ہونے والے حزب المجاہدین ہی کے کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی شہادت کا ذکر نہ ہو تو بھی ظلم ہو گا، کمانڈر سبزا ر بھٹ بھی سوشل میڈیا کے ماسٹر تھے اور جس طرح سے برہان الدین وانی اور سبزا ربھٹ نے بھارت کو بے نقاب کیا، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا لیکن اردو کے معروف شاعر اقبال عظیم نے کہا ہے
فقیہہ شہر نے تجدید بندگی کر لی
نئے خداؤں سے مشروط دوستی کر لی
وہ بدنصیب جسے سب ضمیر کہتے تھے
سنا ہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کر لی
ضمیر کبھی ہوا کرتا تھا اب مارکیٹ اکانومی کا دور ہے، مال بیچنا ضروری ہے کہ اس سے تجوری کا حجم بڑھتا ہے اور مال وہیں بگتا ہے جہاں آبادی زیادہ ہو اب علیحدگی کی تحریکوں کے باوجود فی الحال بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، یوںہر کمپنی کو بڑی مارکیٹ دستیاب ہے اور جب بڑی مارکیٹ دستیاب ہو تو انسانی حقوق ،اخلاقیات یہ سب کتابی باتیں ہیں انہیں کتابوں میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوتا ہے کہ اگر انہیں کتابوں سے نکال کر علمی زندگی میں جگہ دی تو پھر مال کہاں بکے گا ۔چین نے جو دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے اپنی درآمداد پر جو پابندیاں لگا رکھی ہیں اس میں بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے مارکیٹ تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ بھارت نے جو بیچنا ہے بیچ دو، بس ہمیں من مانی کرنے دو، ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کریں، ہم انسانوں کو حفاظتی دیوار کے طور پر استعمال کریں، ہماری عدالتیں صرف عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے افضل گرو کو بلا جواز پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیدیں، تو اس کو بھول جاو¿ کہ ایک جان جانے سے ایک ارب سے زائد ہندوستانیوں کے جذبات ٹھنڈے کیے جا سکتے ہیں تو ایک جان لینے میں کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کے بین الاقوامی ادارے اس صورتحال پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، سانحہ تاج ہوٹل ممبئی کے کیس کی اگر فائل پڑھیں تو وہ ہندو دیومالائی کہانیاں تو لگتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بھارتی سراغ رساں اتنے وسیع النظر ہوتے ہیں کہ وہ اجمل قصاب کو ایک ہاتھ سے ڈرائی فروٹ کھاتے اور دو ہاتھوں سے کلاشنکوف چلاتے دیکھ لیتے ہیں اور ایک ہاتھ سے وہ گرینیڈ بھی پھینک رہا ہوتا ہے۔ اب انسان کے تو دو ہی ہاتھ ہوتے ہیں، ہندو دیوی اور دیوتاو¿ں کے بہت سارے ہاتھ ہوتے ہیں اور اجمل قصاب ہندو نہیں تھا اور یوں وہ ہندوو¿ں کا کوئی دیوتا بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ چار ہاتھ اور چھ پیر رکھتا ہو،یہ ساری باتیں سنی سنائی نہیں ،بھارتی سپریم کورٹ کی کیس فائل میں موجود ہےں لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اجمل قصاب کو پھانسی دیدی، اب اجمل قصاب تاج ہوٹل کے معاملے میں کتنا ملوث تھا، یہ تو عدالتی کاغذات سے ثابت ہو چکا لیکن اس حادثہ کے بعد بھارت نے جس طرح سے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے خلاف طوفان بدتمیزی اُٹھایا تھا،لیکن باری باری والے پاکستانی حکمران خاموش تماشائی بنے رہے انہیں اپنے شہری کو بچانے کا کوئی خیال نہ تھا ورنہ اجمل قصاب کا کیس اگر عالمی عدالت انصاف میں جاتا تو بھارت کے لیے اپنے الزامات کو ثابت کرنا ناممکن تھا لیکن حکمران خاموش رہے اور بھارت آج تک معین الدین لکھوی اور حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے کہ یہ اس کے مطلوب ملزمان ہیں اور پاکستان بغیر کسی ثبوت کے ان افراد کے خلاف مقدمات کا اندراج کر دیتا ہے عدالتیں بری کرتی ہیں لیکن نظر بندی ان لوگوں کا مقدر رہتی ہے ۔
دوستی کے یہ پیمانے پاکستان میں حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے، سجن جندال نواز شریف یا زرداری کا دوست نہیں وہ پاکستانی حکمرانوں کا دوست ہے، ہاں نواز شریف سے اس کی دوستی میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ بھی اسٹیل ٹائیکون ہے اور نواز شریف بھی، ورنہ زرداری ہو یا نواز شریف کسی سے وہ کھلا کھلا ملتا ہے اور کسی سے پوشیدہ پوشیدہ ،کسی سے ملاقاتیں مری اور بھوربن میں ہوتی ہےں اور کسی سے دوبئی اور شارجہ میں ۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اور جن مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ آبادی کی ضرورت کے مطابق پانی کا حصول ہے، کشمیر کا بھارتی زیر تسلط علاقہ اس خطہ میں پانی کی فراہمی کا مرکز ہے گنگا،جمنا، جہلم، ستلج، بیاس، راوی ، سندھ سب ہی جھیل مانسرور سے نکلتے ہیں 1962ءکے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا کا پانی بھارت کو دیدیا گیا تھا اس معاہدے کے تحت بھارت کشمیر میں کوئی ڈیم نہیں بنا سکتا لیکن بھارت نے کبھی کسی معاہدے اور وعدہ کی پاسداری کی ہو جو اس معاہدے اور وعدے کی پاسداری کرتا، اس وقت کشمیر میں ڈیموں کی تعداد کم وبیش50 ہے جن میں پانی ذخیرہ کر کے بھارت اپنے دریاو¿ں میں تو ضرورت کے مطابق پانی حاصل کررہا ہے اور بجلی بھی لیکن وہ دریا جن کا پانی پاکستان کے حصہ میں آیا ان پر بنائے گئے ڈیمو ں سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے اور اس قلت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان بھارت کے اس عمل کے خلاف آج تک کسی فورم پر نہیں گیا جبکہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کا تنازعہ اقوام متحدہ نے طے کرانا ہے لیکن شاید اقوام متحدہ بھی صرف وہاں تنازعہ طے کراتی ہے جہاں مسلمانوں کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے وہ اسرائیل کا قیام ہو یا مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے علیحدگی اقوام متحدہ آناً فاناً اپنے فیصلوں پر عمل کراتی ہے ،کشمیرہو، فلسطین یا فلپائن ہو یا بوسنیا، اقوام متحدہ کے کارپرداز خواب غفلت کا ہی شکار رہتے ہیں ۔بات دوسری طرف نکل گئی، بات ہو رہی تھی دوستی کی، لیکن دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے حکام کی اس نیندمیں دوستیوں کا بڑا گہرا اثر ہے کہتے ہیں کہ بچے کو ماں بھی اس وقت دودھ پلاتی ہے جب بچہ روتا ہے اب اگر ہمارے حکمران دوستیاں نبھانے کے لیے قومی معاملات پر خاموش تماشائی ہوں تو اقوام متحدہ کو کیا پریشانی ہے کہ وہ سوئے شیر کو جگائے ۔
تقریباً سوا سال پہلے بھارت کا ایک مستند جاسوس پکڑا گیا بھارت کی جانب سے اسے اپنا شہری ماننے کے انکار سے لیکر عالمی عدالت انصاف تک جانا بھارتی حکمرانوں کی چال بازیوں کا بین ثبوت ہے لیکن کیا کریں پاکستان کے دفتر خارجہ میں بیٹھے رعشہ کے مریض مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے لیکر سابق مشیر خارجہ طارق فاطمی تک کا پاکستان سے کتنا تعلق ہے یہ دیکھنے والی بات ہے، سرتاج عزیز کا بڑا کاروبار امریکا اور برطانیہ میں اور خاندان کا بڑا حصہ امریکا میں رہائش پذیر ہے۔ طارق فاطمی تو ہے ہی امریکن شہری، وہ امریکن پاسپورٹ پر دہری شہریت کے نتیجہ میں پاکستان میں پائے جاتے ہیں، اب ایسا شخص جس کا پاکستان سے مفاد صفر فیصد بھی نہ ہو ،اس کو پاکستانی مفاد سے کیا دلچسپی ہو گی، اس نے اپنا بھاری بھرکم معاوضہ وصول کرنا ہے اور اکاو¿نٹس کا پیٹ بھاری کرنا ہے سرتاج عزیز کے پاکستانی معاملات سے دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستانی پرچم میں دفن ہونے کی خواہش رکھنے والے پروفیسر غلام اعظم کا انتقال ڈھاکا کی جیل میں ہوا تو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر اور ایک وفد نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ڈھاکا جانا چاہا جس کے لیے ایمرجنسی میں ویزے درکار تھے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا گیا تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نہیں جانتے تھے کہ یہ پروفیسر غلام اعظم ہے کون اور ان کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ جماعت اسلامی کی جانب سے سرتاج عزیز سے رابطہ کرنے والے شخص سے استفار کیا گیا کہ پروفیسر غلام اعظم ہے کون اور اس کا پاکستان سے کیا تعلق ہے۔ جب بتایا گیا کہ یہ جماعت اسلامی بنکلا دیش کے امیر رہے ہیں اور قیام بنکلا دیش کے بعد ایک عرصہ تک پاکستانی شہری کے طور پر لندن میں مقیم رہے بعدازاں بنکلا دیشی شہریت قبول کی ہے لیکن ہاتھ میں دوگھڑیاں باندھا کرتے تھے جن میں سے ایک میں پاکستان کا معیاری وقت ہوا کرتا تھا انہیں 1971ءکی خانہ جنگی میں پاکستانی فوج کی حمایت کرنے پر حسینہ واجد نے جیل میںڈالا ہے اور پروفیسر غلام اعظم کی وصیت ہے کہ ان کے جنازے پر پاکستانی پرچم ڈالاجائے مشیر خارجہ کی سمجھ میں یہ سب کچھ نہ آیا اور پاکستانی وفد اپنے اس محسن کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا لیکن جنازے میں جو تصاویر سوشل میڈیا میں آئیں ان میں پروفیسر غلام اعظم کی پاکستان سے محبت کو کھول کربیان کردیا آپ کے تابوت پر نا بنگلا دیشی پرچم نہ تھا نہ جماعت اسلامی کا جھنڈا آپ کا تابوت پاکستانی سبز ہلالی پرچم سے ڈھکا ہوا تھا، عبدالقادر ملا ہوں، فضل القادر چوہدری ،مطیع الرحمن نظامی ان سب نے پھانسی کے پھندے کو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر چوما ہے اور پاکستان کی محبت میں جان کی بازی لگائی ہے لیکن اسلام آباد کے سردایوانوں میں بیٹھے حکمران بے حسی کا شکار ہیں۔ بار بار آگاہی دیے جانے کے باوجود کہ ایک سہہ فریقی معاہدہ موجود ہے جس کے تحت پاکستان بھارت اور بنکلا دیش 1971ءکے واقعات پر کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا، لیکن بنگلا دیش کارروائی پر کارروائی کیے جا رہا ہے اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے اس معاہدے کی نقل نکالنے اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہے بات وہیں پر آتی ہے کہ ڈھاکا میں بیٹھی بدہیئت چڑیل جس کی دوست ہے اسلام آباد کے حکمران بھی اسی کی دوستی کے اسیر ہیں یوں دوست کے دوست کو ناراض کرنا ممکن نہیں کہ کہیں سجن ناراض نہ ہوجائے ،پاکستان پر قربان ہونے والوں کا کیا ہے، سینکڑوں نہیں ہزاروں بنگالی بولنے والوں نے 1971ءمیں جئے بنگلا کے بجائے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور جام شہادت نوش کیا ۔
اب پاکستان میں سجن کے دوست ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہیں جے آئی ٹی میں کبھی چھوٹے گونگلو ،کبھی بڑ ے گونگلو کی بار بار پیشیاں ہو رہی ہیں ،کبھی سمدھی جی پیش ہو رہے ہیں تو کبھی سب سے بڑے گونگلو کا نمبر بھی آ سکتا ہے، اور اس نمبر آنے سے پہلے صورتحال کو اس پیمانے پر لے جانا ضروری ہے کہ جہاں ”ملکی مفاد“ میں معاملات کو پس پشت ڈالا جا سکے ،گونگلوو¿ں کی پیشی سے جان چھوٹے، لندن کی آزادفضاو¿ں میں اُڑتے پھریں مے فیئر کے فلیٹوں میں عیش وعشرت کی زندگی گزاریں وہی کمائیں وہی کھائیں، ابا جان پاکستان کی حکومت چلائیں لیکن اب قوم جاگ چکی اور قوم کو جگانے پر ہم کپتان کے مشکور ہیں۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں