سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بالا کوٹ
شیئر کریں
میر افسر امان
آج ہم ہندوستان کی پہلی اسلامی جہادی تحریک، جس کو سید احمد شہیدبالا کوٹ بریلوی نے برپا کیا تھا اور جس کے قریبی ساتھی حضرت اسماعیل شہید تھے، کے متعلق بات کرتے ہیں۔ تکیہ رائے بریلوی ، اودھ میں حسنی سادات کا مشہور خاندان آباد ہے۔ سادات کا یہ تکیہ دائرة شاہ علم اللہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ سید احمد شہید اسی حسنی خاندان کے گوہر شب چراغ ہیں۔یہ ایک واقعہ ہے کہ حضرت سید احمد شہید کو کم عمری میں ہی تحدید و احیائے سنت کی فکر دامن گیر تھی اور ان کی دعوت میں ترک بدعات اور جہاد فی سبیل اللہ پر زور تھا۔ آپ(1201ھ) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے رفقاء کے ساتھ1237ھ میں حج کیا۔آپ کی طبیعت مدرسوں کی فرسودہ تعلیم کی طرف مائل نہیں ہوئی۔ والد کے انتقال کے بعد سترہ سال کی عمر میں روزگار کے لیے لکھنو، ایک مسلمان نواب کے ہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ پھر راجپوتانہ میں نواب امیر خان کے پاس پہنچے۔ نواب کی فوج میں جہاد کے شوق کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا۔ متعدد لڑائیوں میں حصہ لیا۔دہلی میں حضرت شاہ عبدالعزیز کے داماد مولانا عبدلحی اور ان کے بھیتجے، مولانا شاہ اسماعیل شہید اور خاندان کے دوسرے سرکردہ حضرات آپ کے ساتھ آملے۔ارشاد و ہدایات کا سلسلہ پھیلنے لگا۔ بہار کے رئیس زادے اور ناظم بہار کے نواسے ولایت علی عظیم آبادی صادق پوری اپنے پور ے خاندان کے ساتھ حلقہ بگوش ہوئے۔سید احمد شہید کے شہادت کے بعد مسلسل سو برس تک ان خاندان نے جہاد کا علم بلند رکھ کر سرفروشی کی تاریخ رقم کی۔سید احمد شہید نے اپنے رفقاء کے ساتھ میرٹھ،مظفر نگر، سارن پور اور شمالی ہند کے تبلیغی دورے کیے۔
یہ وہ دور تھا کہ پنجاب میں سکھوں کا قبضہ تھا اور باقی ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید شہیدجب حج سے واپس آئے تو پنجاب کے مسلمانوں کو جورو ظلم سے نجات دلانے کے لیے تیاریاں کرنے لگے۔ اس وقت پنجاب میں سکھاشاہی کازور تھا، مسلمانوں کی مسجدیں اور عبادت گاہیں سکھوں کے قبضے میں تھیں ۔ جن کوگھوڑوں کا اصطبل بنایا جاتا تھا۔ غریبوں کی آبرو محفوظ نہیں تھی۔ ہندوستان میں مسلم حکومت کا جنازہ نکل چکا تھا۔گو کہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں ،مگر وہ انگریزوں کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی تھی۔ ایسی حالت دیکھ کر سید احمد شہید اپنے باصفاء ساتھیوں کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے میدان میں نکل پڑے۔ سید شہید اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ صوبہ سرحد، موجودہ صوبہ خبیرپختونخوا میں پشاور کو جہاد کا ہیڈ کوارٹربنایا۔ پشاور اور ارد گرد میں ان کو کامیابیاںحاصل ہوئیں۔ وہاں اسلامی حکومت قائم کر دی۔ بدعات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔قریب ہی تھا کہ سارے پنجاب میں سکھوں کو شکست اور اسلامی جھنڈا لہرانے لگتا،مگر برا ہو نسلی غرور اور قبائلی عصبیت کا، کہ جس نے کامیابی پر پانی پھر دیا۔علمائے سو اور افغان سرداروں کی جاہلانہ عصبیت نے کایا پلٹ دی۔ سکھوں سے بہت سی لڑائیوں کے بعد بآلاخر 6مئی1931ء کو سید احمدشہید اور مولانا اسماعیل شہید نے سکھوں سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے بالا کوٹ صوبہ سرحد میں جام شہادت نوش کیا۔سید احمد شہید اور سید مولانا اسماعیل شہید کی دعوت خالص کتاب و سنت کی دعوت تھی۔اس دعوت کا مر کز جہاد فی سبیل اللہ تھا۔ سارے ہندوستان کے مجاہدین نے آپ کی بیعت کی۔ مجاہدینِ اسلام نے با ضابطہ آپ کی امارت کا اعلان کیا۔خطبوں میں آپ کا نام پڑھا جانے لگا ۔سید احمد شہید نے جہاد کا اعلان کیا ۔ آپ حکومت الہیہ، یعنی مکمل اسلامی حکومت قائم کرنے کے داعی تھے۔ اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں ” رب غیور جو کہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ امارت کے اس منصب کے قبول کرنے سے اس کے سوا میری کوئی دوسری نفسانی غرض نہیں کہ جہاد کو شرعی طریقے پر قائم کیا جائے اور ہاں! اس قدر آرزو رکھتا ہوں کہ اکثر افراد انسانی بلکہ تمام ممالک میں رب العالمین کے احکام جن میں شرع متین ہے بلا کسی کی مخالفت کے جاری کیے جائیں” ۔جہاں تک سکھوں سے جنگ کا تعلق ہے تو سکھوں کو پہلے اسلام کی دعوت دی۔یوں تو سید احمد شہید کے خلفاء کی تعداد بہت تھی لیکن ان میں مشہور ترین نام:۔ مولانا اسماعیل شہید، مولانا عبدالحی بڈھانوی، مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا محمد علی رام پوری، مولانا سعادت علی جون پوری اور مولانا کرامت علی جون پوریہیں۔ان نیک ہستیوں نے سید احمد شہید کے مشن کو جہاد اور تبلیغ کے ذریعے کامیاب کرنے کی کوششیں کیں۔ سکھوں سے بظاہر شکست کے بعد سید احمد شہید کے ساتھی تتر بتر ہوگئے۔مگر مولانا ولایت علی صادق پوری نے اُس وقت علم سنبھالا اور اپنے پورے خاندان کو اس نیک کام میں لگا دیا۔مسلسل سو سال یعنی1831ء تا 1934ء تک یہ جہاد جاری رکھا۔بنگال کے مشرقی اضلاع، سرحد اور ورائے سرحد کی پتھریلی اور پیاسی زمینوں تک بے دریخ خون بہایا۔ سکھوں سے کئی علاقے واپس لیے۔ اندرون ہندوستان ان کو مالی امداد ملتی رہی۔ اس کے بعد 1857ء میں میرٹھ اور دہلی سے جنگ آزادی شروع ہوئی۔ امداد آنا بند ہوئی۔ جب انگریزوں سے مڈ بھیڑ شروع ہوئی تو ان حالات میں1858ء میں انگریز حکومت نے پشاور سے جنرل کاٹن کی سرکردگی میں چھ ہزار فوج کے ساتھ مجاہدین پر حملہ کر دیا۔مجاہدین کی اچھی خاصی تعداد مردانہ وار لڑتی ہوئی شہادت کے رتبے پرفائز ہوئی۔ باقی جو بچے وہ پہاڑوں پر روپوش ہو گئے۔
1863ء میں معرکہ امبیلا ہوا۔ پورے پنجاب سے انگریز فوج جہاں پہنچی۔اس جنگ کو انگریزحکومت اپنی حدود سے باہر لڑنے کی کوشش کی تھی۔ اپنے علاقے کا دفاع کرنے کے لیے سوات اور افغان قبائل بھی سید احمد شہید کے مجاہدین کے ساتھ تھے۔ اس جنگ میں انگریز کمانڈرجنرل چمبرلین زخمی ہوا، اور انگریز فوج کو مجاہدین کی متحدہ فوج نے شکست دی۔پھر سیاسی چال کے طور پر،انگریز نے قبائل میں پیسے تقسیم کیے۔ ایک ایک کرکے قبائل گھروں کو چلے گئے اور باقی رہ جانے والے مجاہدین کو شکست ہوئی۔پھر 1868ء میں مجاہدین اور قبائل کی سرکوبی کے لیے جنرل سی ۔بی کی کمانڈ میں انگریز فوجیں روانہ ہوئیں۔ مولانا عبداللہ صادق پوری اپنی وفات یعنی1902ء تک ثابت قدم رہے۔ اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالکریم کو تنظیم جماعت اور عسکری امارت منتقل ہوئی۔ان کا انتقال سوات بونیر میںہوا۔ اس کے بعد غازی نعمت اللہ شہید امارت پر فائز ہوئے۔ آخر میں رحمت اللہ غازی مرابطین کے امیر بنے۔
اندرون ہندوستان ،خاص کر بنگال و بہار کے اضلاع سے مجاہدین اور رقم کی ترسیل ہوتی تھی۔انگریز نے پہلے سید احمد شہید کی تحریک سے صرف نظر کیا تاکہ کہ سکھ اور مسلمان لڑ کر کمزور ہوجائیں۔بعد میں 1849ء پنجاب میں سکھوں کو شکست دینے کے بعد تحریک مجاہدین سے لڑائیں شروع کی۔ مجاہدین تحریک کے خلاف بغاوت کے مقدمے قائم کیے ان کو سزائیں دیں سزا کے طور پر جزائر انڈیمان میں قید کیا۔ پر پہلا مقدمہ سازش انبالہ میں قائم کیا گیا۔اس مقدمے میں گیارہ ملزم تھے۔ ان میں کچھ 1905ء میں انڈیمان سے رہا ہور کر وطن آئے۔ دوسرا مقدمہ پٹنہ میں 1865ء میں قائم ہوا۔اس کا پہلا شکار سید احمد شہید کے خلیفہ مولانا احمد اللہ صادق پوری کو بنایا گیا۔ دس سال تک مبلغوں کو تنگ کیا جاتا رہا۔1870ء میں بنگال کے مسلمانوں کی املاک ضبط کر لی گئیں۔تیسرا مقدمہ مالدہ1870ء میں قائم ہوا۔مولانا امیرالدین پر مالدہ میں مقدمہ قائم ہوا۔ حبس دوام، ھبور دریائے شوراور املاک کی ضبطی کی سزا ہوئی۔چوتھا مقدمہ سازش راج محل 1870ء میں ابراھیم منڈل پر مقدمہ داہر ہوا۔ حبس دوام، ھبور دریائے شور اور ضبطی جائیداد کی سزا ہوئی۔پانچویں مقدمہ سازش پٹنہ1871ء میں بنا۔ اس میں شاملی ہندوستان سے گواہ لا کر سات ملزموں کو اس میں بھی ویسی ہی سزائیں سنائی گئیں۔ اس کے علاوہ بے شمار لوگوں، جنہوں نے فنڈ جمع کرنے اور دیگر الزامات میں سزائیں سنائی گئیں۔
اگر سید احمد شہید اور مولانا شاہ اسماعیل شہید کی تحریک کی کامیابی اور ناکامی پر بات کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی جماعت جو اپنی سیرت اور کردار کے لحاظ سے دور اولین کی سیرت و کرادر کا نمونہ تھی بظاہر ناکام رہی۔ مسلمان کی کامیابی اور ناکامی کا تصور بالکل الگ ہے۔ سید احمد شہید اور مولانا سید شاہ اسماعیل شہید ان کے اصحاب باصفا کی کوششوں سے مسلمانوں میں بدعات کا خاتمہ ہوا، اور آنے والے مجاہدین کی لیے راہیں متعین کیں۔ اللہ ان باصفا حضرات کی قربانیاں قبول فرمائے ۔