میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دفاعی اداروں کے خلاف حکمرانوں کا کھیل اورعالمی اسٹیبلشمنٹ۔۔۔

دفاعی اداروں کے خلاف حکمرانوں کا کھیل اورعالمی اسٹیبلشمنٹ۔۔۔

ویب ڈیسک
اتوار, ۷ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاناما کیس کے فیصلے کی ابتدا اطالوی نژاد امریکی ناول نگارماریو پزو Mario Puzoکے ناول ”گاڈ فادر“ کے جس جملے سے ہوئی تھی وہ بڑا معنی خیز ہے©”ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم ہوتا ہے“۔جس نوعیت اور سطح کا پاناما کیس تھا اس تناظر میں اس جملے کی افادیت وہی سمجھ سکتا ہے جسے عالمی ادب سے تھوڑا سا بھی علاقہ ہو،بلاشبہ جسٹس کھوسہ کے ذوق اور ذہانت کی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے اس معنی خیز جملے کی شکل میںدریا کو کوزے میں بند کردیا۔ وہ الگ بات ہے کہ اس حوالے سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ نون لیگ پاناما فیصلے سے گاڈ فادر سے متعلق ان سطور کوحذف کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نون لیگ اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے ،لیکن تاریخ کے اوراق سے اب ان سطور کو کون حذف کرسکے گا۔۔؟ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ معنی خیز جملہ ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر میں ضرور استعمال ہوا مگر درحقیقت یہ جملہ فرانسیسی ادیب، صحافی، نقاد اور ڈرامہ نگار ”ہونرے دی بالزاک Honoré de Balzac کا ہے جس نے زیادہ ترنپولین کے بعد کے بکھرے ہوئے فرانس کی معاشرتی صورتحال کو اپنا موضوع بنایاتھا۔یورپی ادب میں حقیقت پسندی realism کے بانیوں میں شمار ہونے والا یہ عظیم ادیب 1799ءمیں جنوبی فرانس کے علاقے ٹورز میں پیدا ہوا تھا، تاریخ، ادب ونقد کے موضوعات میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے باپ کے مجبور کرنے پرتین برس تک قانون کے شعبے میںبھی کام کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ ”لاقانونیت“ کے مفہوم سے اچھی طرح واقف تھا۔۔ ۔ اس کی متاثرکن تحریروں نے صرف ماریو پزو Mario Puzo کو ہی متاثر نہیں کیا تھا بلکہ ایمائل زولاÉmile Zola، چارلس ڈکنز Charles Dickens, ،گستاو فلوبرڈ Gustave Flaubert، جیک کیرریکJack Kerouac، ہنری جیمسHenry James، ایرک روہمرEric Rohmer، جیسے ادیب ہی نہیں بلکہ یورپین فلاسفر جس میں سب سے نمایاں نام فریڈرک اینگلزFriedrich Engels کا ہے شامل ہیں۔اس ساری تمہید کا مقصد ہے کہ یہ معنی خیز جملہ کسی عام آدمی کے منہ سے برجستہ نہیں نکلا تھا بلکہ حساسیت کی انتہا کو چھونے والے ایک ایسے عظیم ادیب نے تحریر کیا تھا جس نے جان بوجھ کر پیدا کی گئی انارکی کے بعد کے یورپ کو بادشاہت کے نظام سے نکلتے ہوئے اور جمہوریت کے نام پر دولت مندوںکے مافیاﺅں کو انسانی معاشروں کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی امور پر مسلط ہوتے دیکھا تھا۔
ملکی سیاست پر آنے سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعدنوّے کی دہائی میں جس وقت ”بڑے بش“ نے امریکی کانگریس میں کھڑے ہوکر دنیا کو ”نیو ورلڈ آرڈر“ کے مسلط کرنے کا اعلان کیا تھا، اس وقت سے ہی ایشیا ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ایسے مقامی ”گاڈ فادروں“ کی پذیرائی ہونے لگی۔ یہ مافیا خاندانوں کی شکل میں ہوتے ہیں جنہوں نے آگے چل کر جمہوریت کے نام پر اپنے اپنے ملکوں کے سیاسی گرم سرد پر مسلط ہونا تھا۔تیسری دنیا کے یہ گاڈ فادر اپنے اپنے ملکوں سے قومی دولت لوٹ کر مغرب میں اپنے مسکن مضبوط کرتے رہے لیکن اس سارے معاملے میں وہ یہ بھول گئے کہ یہ سب کچھ ”شاخ نازک پر آشیانہ بنانے“ کے مترادف ہے اور یہی دولت آئندہ ان پر دباﺅ کے لیے استعمال کی جائے گی۔۔۔ بہرحال یہ بات عالمی تناظر میں جدید تاریخ کے مافیاﺅں کے حوالے سے تھی اب ہم ملکی سیاست کی جانب رخ کرتے ہیں۔
بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال کا اسلام آباد آنا پھر وہاں سے اسے وی آئی پی پروٹوکول میں مری لے جایا جانا اور وزیر اعظم نواز شریف کا وہاں اس سے ”ملاقات“ کرنا قوم کے سامنے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے!! ایک ایسی قوم جو اس شعور سے بھی عاری ہے کہ کون اس کا سجن ہے اور کون دشمن۔۔۔جن کے ہاتھوں بار بار لٹتی ہے پھر انہیں ووٹ دینے لائن میں لگ جاتی ہے۔۔۔ افغانستان سے واپسی پر سجن جندال کو ایسا کونسا کاروباری معاملہ یاد آیا کہ وہ سیدھے کابل سے اسلام آباد پہنچے؟ افغانستان کا معاملہ اس لیے سمجھ میں آتا ہے کہ جناب کرزئی نے اپنے دور صدارت میں انتہائی خاموشی کے ساتھ افغانستان میں لوہے کے اربوں ٹن ذخائر کا ٹھیکہ اس بھارتی اسٹیل ٹائیکون کے حوالے کردیا تھا۔ یہ ٹھیکہ افغانستان کی سرکاری کمپنی افغان آئرن اینڈ اسٹیل کنسورشیم Afghan Iron & Steel Consortium (Afisco)کے ذریعے دیا گیا تھا ۔اس کنسورشیم کے سولہ فیصد حصص سجن جندال کے بھائی نووین جندال کی ملکیت ہیں جبکہ چار فیصد حصص سجن کے بہنوئی سندیپ جاجودیا کے پاس ہیں۔ اسٹیل کا کاروبار کرنے والے لوگوں کی نگاہیں ہمیشہ لوہے کے ذخائر والے علاقوں پر ہوتی ہیں یا پھر ایسے جنگ زدہ علاقے جہاں لاکھوں ٹن تباہ حال عسکری سامان موجود ہو، افغانستان ان دونوں حالتوں میں پورا اترتا ہے۔
جندال خاندان کے سربراہ اور سجن جندال کے والد اوم پرکاش بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں۔ سجن کا چھوٹا بھائی نووین جندال بھی کانگریس کے ٹکٹ پر بھارتی ریاست ہریانہ سے پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہے۔ جبکہ تیسرا بھائی پرتھوی راج بھی دیگر بھائیوں کی طرح اسی کاروبار سے منسلک ہے۔تقریبا 6بلین ڈالر کے اثاثے رکھنے والا یہ خاندان بھارتی سیاست کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی خاصا اثرورسوخ کا حامل ہے۔اس قسم کے خاندان بین الاقوامی معاملات میں اس لیے رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ کو افغانستان میں چونکہ بھارت کے پنجے گاڑنا مقصود ہے اس لیے بھارت جیسے ملک انہیں اپنی فرنٹ لائن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔سجن جندال کا مفاد افغانستان کے مقام بامیان سے خام لوہے کو براستہ کراچی بھارت کی مغربی اور جنوبی بندرگاہوں تک پہنچانا ہے جو روس کے راستے منتقل کیا جائے تو سینکڑوں گنا مہنگا پڑے۔تو اس سہولت کی قیمت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو وہ کیسے ادا کرے۔۔!! شایدبھارتی وزیر اعظم مودی کی لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف سے ”اچانک“ ملاقات کا اہتمام اسی بات کی ایک قیمت ہو؟ جس میں بھارت میں تعینات سابق پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ دونوں نے اس سلسلے میں گراﺅنڈ ورک کیا تھا۔۔۔یہ ملاقات 2015ءمیں ہوئی تھی۔ اب دوسال گزر جانے کے بعد بھی جندال کو افغانستان کے ایک ارب ٹن سے زیادہ لوہے کے ذخائر میں سے ایک چھٹانک لوہا بھی نہیں مل سکا ہے۔جبکہ بقول بھارتی صحافی برکھا دت جندال نے نیپال میں ہونے والی سارک کانفرنس کے دوران مودی کی نواز شریف سے خفیہ ملاقات بھی کروائی تھی۔۔۔ اس مرتبہ مری میں ہونے والی ملاقات کو خفیہ اس لیے نہیں کہا جائے گا کہ اس میں سجن جندال کی آمد میڈیا پر دکھا دی گئی لیکن کن معاملات پر جندال نے ملاقات کی یہ تاحال ”خفیہ“ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ آجکل جس قسم کے سیاسی بحران کا وزیر اعظم نواز شریف کو سامنا ہے اس میں سجن جندال کوئی کاروباری معاملہ طے کرنے تو آئے نہیں ہوں گے۔۔۔! دوسری صورت پیغام رسانی کی رہ جاتی ہے لیکن کس کا پیغام اور کس نوعیت کا پیغام؟ اور کیا اس ملاقات کے لیے اسلام آباد کا وزیر اعظم ہاﺅس غیر محفوظ تھا ؟ کہ یہ ”اہم ملاقات“ مری میں کرنا پڑی۔۔۔ بات کچھ بھی ہو اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف خاصے ہشاش بشاش ہوگئے اور اگلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ڈان لیکس کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ جاری کروا دی جسے پاک فوج نے نامکمل رپورٹ کہہ کر مسترد کردیا۔ جس دن یہ رپورٹ جاری ہوئی اسی دن وزیر اعظم نواز شریف نے اوکاڑہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ مخالفین کے کہنے پر استعفی نہیں دیں گے۔
یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب پاناما اسکینڈل کے متعلق فیصلہ آنے کے بعد ابھی جے آئی ٹی کی تشکیل بھی نہیں ہوسکی ہے ۔ پاناما لیکس سے متعلق جے آئی ٹی اور اب ڈان لیکس پر بحران سر اٹھاتا نظر آرہا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ یہ لڑائی لڑ سکیں گے؟ کیونکہ اس سے پہلے وہ اس قسم کی لڑائیوں میں خسارہ اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے جب اوکاڑہ کے جلسے میںیہ کہا کہ ”میں مخالفوں کے کہنے پر استعفی نہیں دوں گا“ تویکدم مجھے غلام اسحاق خان کے دور صدارت کے دوران جب نواز شریف وزیر اعظم تھے ان کا یہ جملہ یاد آیا کہ ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا“ لیکن پھر کیا ہوا تھا وہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔۔۔
آخر وہ یہ جنگ کس کی تھپکی کے سہارے لڑیں گے؟ اس سے پہلے کی تحریروں میں ملکی سیاست کے حوالے سے ہم عرض کرچکے ہیں کہ این آر او کے بعد جو نام نہاد جمہوری سیٹ اپ پاکستان میں قائم کیا گیا تھا وہ امریکی اور برطانوی بندوبست کے تحت تھا اور آج بھی امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی سر توڑ کوشش ہے کہ اس سیٹ اپ کو پاکستان پر مسلط رکھا جائے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ خطے میں افغانستان کی صورتحال ہے جو تقریباً امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں نکل چکی ہے۔ اس حوالے سے امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی دفاعی اداروں کوذمہ دار سمجھتی ہےں۔ اسی بات کی سزا دینے کے لیے پہلے بھارت کو افغانستان میں پیر جمانے کا موقع فراہم کیا گیا ، بھارت کو وسطی ایشیا سے گیس کی پائپ لائن بھارت تک دراز کرنے کے خواب دکھائے گئے ، سجن جندال جیسے کاروباری سیاستدانوں کو استعمال میں لاکر افغانستان میں لوہے کے ذخائر کا ٹھیکہ دلوایا گیا تاکہ بڑی تعداد میں بھارتی ورکروں کو افغانستان تعینات کیا جائے اور ان ورکروں کے کور میں بھارتی خفیہ ایجنسی راکے اہلکار بھی بڑی تعداد میںوہاں قدم جما سکیں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے اسے امریکا کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی سزا دے سکیں ۔ یہ تو خارجی سطح پر بندوبست تھا اس کے بعد داخلی طور پر اس بندوبست کو اس انداز میں دراز کیا گیا کہ یہاں ایسا سیاسی سیٹ اپ بنایا جائے جو کابل اور دہلی کے ساتھ پاکستان کے دفاعی اداروں کی مرضی کے برعکس معاشی ترقی اور تعلقات کے نام پر روابط مضبوط کرے ۔ اس سلسلے میں زرداری صاحب کو کابل کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جبکہ اپنے دور صدارت میں حسین حقانی جیسے مچھندر کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر تعینات کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا تاکہ سی آئی اے کے اہلکاروںکو بغیر کسی رکاوٹ کے ہزاروں ویزوں کا اجرا ہوسکے اور امریکہ کھل کر پاکستان میں اپنا کھیل دکھاسکے۔۔۔ جب میاں صاحب کی باری آئی تو دہلی سامنے تھا۔ اس تعلق کا ٹانکا جوڑنے کے لیے میاں صاحب کے لوہے کے کاروبار کو بھارتی سجن جندال کی اسٹیل کے کاروبار سے منسلک کردیا گیا ممکن ہے دونوں میں کاروباری سطح پر بھی معاملات چلے ہوں لیکن درحقیقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کے لیے عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی سیاسی مافیا کے بھارت کے ساتھ دوستی کے راستے ہموار کرانے کی کوششیں کیں۔اس سلسلے میں زرداری نواز سیاسی اتحاد جمہوریت کی بقا کے نام پر وجود میں لایا گیاتھا۔ زرداری صاحب نے سندھ حکومت ہاتھ میں رکھ کر” اپنے معاملات “ کا جو نیٹ ورک تشکیل دیا وہ اس قدر پیچیدہ اور خطرناک ثابت ہوا کہ وہ خود ہی اس میں پھنس کر رہ گئے ۔ دبئی کو ہیڈکوارٹر بناکر جو ”کارنامے“ انجام دیے وہ بھی گلے پڑ گئے۔ جن پر تکیہ کرکے زرداری صاحب نے اینٹوں سے اینٹیں بجانے کی بات کی تھی وہ کسی کام نہ آئے بلکہ خود اپنی اینٹ بجوا بیٹھے، ڈاکٹر عاصم کے بعد عزیر بلوچ کی دبئی سے گرفتاری، بھارتی اور ایرانی انٹیلی جنس کے لیے کام کرنے کا اعتراف، پھر تین ”دوستوں“ کا غائب ہوجانا ،اب صورتحال یہ ہے کہ گلے سے آواز ہی نہیں نکل رہی۔ سیاسی سر تال جاری رکھنے کے لیے خورشید شاہ کو آگے کررکھا ہے۔۔۔
صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح واشنگٹن اور لندن نے زرداری صاحب کو مایوس کیا یہی صورتحال میاں صاحب کے لیے بھی پیدا ہوجائے گی۔ عالمی صہیونی اسٹیبلشمینٹ کبھی کسی کی نہیں ہوتی انہیں اپنا کام نکلوانا ہوتا ہے اگر بندہ بیچ میں پھنس جائے تو اسے وہیں چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں۔۔۔ روس اور چین کی معاشی اور سیاسی پیش قدمیوں کی وجہ سے ایشیا کی صورتحال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے ، امریکی اور یورپی اسٹیبلشمینٹ ایشیا میں اپنا اثرورسوخ ہاتھوں سے پھسلتا محسوس کرتی ہیں۔ اسرائیل اور امریکا کی حکمران صہیونی لابی افغانستان سے کسی طور بھی امریکا اور بھارت کو نکلنے نہیں دینا چاہتی ، چاہے اس کی انہیں کتنی ہی قیمت ادا کرنا پڑے۔اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور اس کے جوہری اثاثے ہیں۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل تیزی کے ساتھ غلبے کے لیے باہر نکلنے والا ہے اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ میں پہلے قومیت کی بنیادوں پرلڑائی کرائی گئی اس کے بعد اس جنگ کو مسلک کی بنیاد پر چھڑوایا گیا اور اب وہاں اداروں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا کلائمیکس ہے، اس کے بعد اسرائیل کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی مگر اس کے ساتھ ہی اسے روس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا بھی خطرہ ہے، اس لیے منصوبے کے مطابق یہاں بھی شیعہ سنی فساد کی ناکام کوششیں کی گئیں، ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں پناہ دے کر پاکستان کے دفاعی اداروں کو ان کے ساتھ الجھانے کی کوشش کی گئی اور اب سیاسی بنیادوں پر سیاسی اور عسکری اداروں کو لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کے دفاع کے ضامن ادارے افغانستان کی صورتحال اور داخلی تنازعات میں الجھ کر رہ جائیں جبکہ خطے میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بھارت وطن عزیز پر مشرق اور مغرب کی جانب سے دانت تیز کررہا ہے۔اس صورتحال میں وطن عزیزکے دفاع کی خاطر وہ کچھ ہوسکتا ہے جس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکا ہو۔۔۔۔اس لیے میاں صاحب کو حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہئے کہ ”ہنوز دلی دور است“۔ ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں