حکومت کا چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
شیئر کریں
وفاقی حکومت نے انتخابات از خود نوٹس کے فیصلے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ عدالتی کارروائی پر سوالیہ نشان ہے، جو پٹیشن مسترد ہوگئی اس پر تین رکنی بینچ بنایا گیا، جب پٹیشن ہے ہی نہیں تو بنچ کیوں بنا اور فیصلہ کیوں آیا؟ جس فیصلے کو اکثریتی ججز نہ مانیں اس کو عوام کیسے مان لیں؟ سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں، یہ معاملہ الیکشن کا نہیں رہا ہے، بینچ فکسنگ کا معاملہ بن گیا ہے، آئینی بحران کا جنم اگر سپریم کورٹ سے ہو تو اس کے فیصلے پر کون اعتماد کرے گا؟ اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں کی جا سکتی ۔ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ آیا ہے، اس فیصلہ کے بعد اکثریت ججز کا فیصلہ مکمل ہو گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ عدالتی کارروائی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے تینوں برادر ججوں کے فیصلے سے اتفاق کیا اور اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، یہ پٹیشن پہلے ہی 4 تین کے فیصلے سے مسترد ہو چکی ہے، جو پٹیشن مسترد ہو گئی اس پر تین رکنی بنچ بنایا گیا، جب پٹیشن ہے ہی نہیں تو بینچ کیوں بنا اور فیصلہ کیوں آیا؟ سپریم کورٹ کے اکثریت کے 4 ججز نے کہا کہ فل کورٹ بنا دیں، سیاسی جماعتوں نے کہا اس معاملے پر فل کورٹ بنا دیں تاکہ عوام اس فیصلے کو تسلیم کر لے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں، یہ معاملہ الیکشن کا نہیں رہا ہے۔ بنچ فکسنگ کا معاملہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اس فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں، اس کیس کا ایک سیاسی پہلو اور اور ایک عدالتی پہلو ہے۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ سوال اٹھتے ہیں عدالتی سہولت کاری کیوں؟ تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن جو متنازع جج ہیں انہیں بٹھا دیا جاتا ہے، عدالتی اور آئینی تاریخ میں ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بحران کا جنم اگر سپریم کورٹ سے ہو تو اس کے فیصلے پر کون اعتماد کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ پھر فیصلہ دے دیا جاتا ہے اور حکومت پر مسلط کر دیا جاتا ہے، چیف جسٹس صاحب یہ بینچ کیسے تشکیل دے سکتے ہیں؟ سیاسی جماعتیں عدالت میں موجود تھیں لیکن ان جماعتوں کو نہیں سننا، جن کی پٹیشن تھی ان کو بلا بلا کر سنا اسد عمر کو بلایا کہ معیشت کی تفصیل بتائیں، کیوں ان 13 جماعتوں کو نہیں سنا گیا؟ سپریم کورٹ کی لاج رکھنے کے لیے سن لیتے، تیرہ جماعتوں کے وکلاء کی حاضری نہیں لگائی گئی، کیونکہ عمران خان نے کہہ دیا تو الیکشن کروانے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ خود 90 روز کی خلاف ورزی کر چکے ہیں، اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں کی جا سکتی، ۔جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ کے بعد چار ججز کے فیصلے مکمل ہو چکے ہیں۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ پنجاب میں اصول مکمل کیا گیا لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب جب پٹیشن ڈسمس ہوئی تو آپ نے بینچ کیسے بنایا؟ مریم اور نگزیب نے کہا کہ پارلیمنٹ نے بات کی کہ آپ ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں مداخلت کر رہے ہیں۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ اطہر من اللہ نے کہا کہ پٹیشنر کی نیت کو دیکھ کر سوموٹو لینا چاہیے، اطہر من اللہ نے کہا کہ اس سوموٹو نے عدالت کو تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ اس معاملے میں پٹیشنر گھڑی چور، ٹیریان کا والد تھا، آج عمران داری پر آئین کی فتح ہوئی ۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ چیف جسٹس کی حیثیت متنازع ہو چکی ہے اس لیے مستعفی ہو جائیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جس فیصلے کو اکثریتی ججز نہ مانیں اس کو عوام کیسے مان لیں؟ یہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ غیر آئینی و غیر قانونی ہے، ملک کی آئینی تاریخ میں ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ عمران خان کا خط آئینی چودھری شجاعت کا خط غیر آئینی، سائفر پر یہ سارا تماشا رچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں بلیک ڈکشنری کا سہارا لیکر نوازشریف کو ڈس کوالیفائی کیا گیا، ایسے فیصلے ملکی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں، جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوتی ہے تو انہیں جانور کہتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے تو بدمعاش اسلحہ لے کر عدالت کو ڈراتا ہے، یہ ٹیریان کے والد کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ جب سیاست دان ملک ٹھیک کر رہا ہوتا ہے تو اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے، یہ سازش اور کھلواڑ اب ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی الیکشن کا معاملہ نہیں ہے، الیکشن پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں۔