رولنگ کالعدم، عدم اعتماد برقرار، قومی اسمبلی بحال
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے 3 اپریل کی ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کابینہ کو بھی بحال کر دیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے نگراں حکومت کے قیام کے لیے صدر اور وزیراعظم کے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے پہلے کی صورتحال بحال کر دی۔ سپریم کورٹ نے جلدازجلد تحریک عدم اعتماد کو نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اسمبلی اجلاس کوغیرمعینہ مدت تک ملتوی نہ کیا جائے اسپیکرعدم اعتماد تحریک نمٹانے تک اجلاس ملتوی نہیں کرسکیں گے۔ عدالت نے تحریک عدم اعتماد پر 9 اپریل ہفتے کی صبح بجے 10 بجے ووٹنگ کرانے کا حکم دیا ہے،چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے، ۔عدالت نے متفقہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا، تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا کہ ہمارا فیصلہ متفقہ رائے سے ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے، آرٹیکل 63 کے نفاذپر عدالتی فیصلہ اثر انداز نہ ہوگا۔فیصلہ سنانے کے بعد ججز کمرہ عدالت سے چلے گئے،فیصلہ سنانے سے پہلے چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنی ہیں یا کسی ایک علاقے کی؟چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں ہونی ہیں جبکہ 6 سے 7 ماہ میں حلقہ بندیاں ہو سکیں گی۔انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ حلقہ بندیاں ہوں، فاٹا کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کی تمام حلقہ بندیاں بدلیں گی، فاٹا کی 12 نشستیں ختم ہو کر خیبر پختونخوا میں ضم ہو گئی ہیں۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے مکمل اقدامات کرے۔فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر حفاظتی اقدامات مزید سخت کردیے گئے اور پولیس کی اضافی نفری کو طلب کرلیا گیا جبکہ فواد چوہدری، فیصل جاوید، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنما فیصلہ سننے کے لیے عدالت عظمی پہنچے۔اس موقع پر وکلا اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی دیکھنے میں آئی اور ہاتھا پائی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے دوران ہوئی۔فیصلہ سنائے جانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر، سیکریٹری الیکشن کمیشن قانونی ٹیم کے ہمراہ طلب کیے جانے پر سپریم کورٹ پہنچے،اس سے قبل دالت اعظمی نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ پر سماعت کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے ساڑھے 7 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا، جو بعد میں تاخیر سے سنایا گیا ، دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمیں قومی مفاد کو بھی دیکھنا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے کہ رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا،چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سپیکرقومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیااورسابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے، ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، احمد اویس کا کہنا تھا کہ آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب کے حوالے سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے،آپ پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں، جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا کہنا تھا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے،کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے، چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹایاتو صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کئے درمیان میں ن لیگی وکیل رہنما اعظم تارڑ نے کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ صدر کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں، اس دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیاکہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اس سے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟ علی ظفر نے کہاکہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی،پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے،آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟علی ظفر نے موقف اپنایا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ اس دوران ایک کیس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہاکہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلہ کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے لیکن یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے،کہیں تو لائین کھیچنا پڑے گی ،صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیالیکن عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیاعدالت نے اسمبلی کا خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی،اس ایشو کو ایڈریس کریں۔علی ظفر نے کہاکہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔ الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آئوٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایاکہ سیاسی معاملے کا جواب بطور صدر کا وکیل نہیں دے سکتا۔صدر پاکستان کے وکیل علی ظفر کے دلائل ختم ہوئے تووزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بظاہر اس معاملے میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی،اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے توکیا حکومت الیکشن کا اعلان کردے ؟الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں،ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا یہ قومی مفاد ہے،۔ وکیل امتیازصدیقی نے کہاکہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں کی،عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کاروائی کا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟ وکیل امیتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے،امتیاز صدیقی نے موقف اپنایا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا،اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے،آرٹیکل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کومکمل تحفظ حاصل ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں،امتیاز صدیقی نے کہاکہ معذرت کیساتھ مائی لارڈ،7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیںسپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اورعدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں،امتیاز صدیقی نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے سوال کیاکہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہاکہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں، چیف جسٹس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا، وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔ متیازصدیقی نے کہا وزیراعظم نے کہا اگر بدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا، وزیراعظم نے کہا انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے لیکن وزیراعظم نے کہا ان کیخلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں، وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل ختم ہوئے تو اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میں علی ظفر کے دلائل بھی اپناؤں گا اور مزید اپنے دلائل بھی دونگا، نعیم بخاری نے کہاکہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال اٹھایاکہڈپٹی اسپیکر کے پاس رولنگ کا مواد کیا تھا،نعیم بخاری نے کہاکہ مجھے گزارشات کو فریز کرنے دیں،عدالت کے سوالات کا جواب دونگا، جسٹس مظہر نے کہاکہ ہم بھی آپکو سننے کیلئے بے تاب ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپ کافی فریش لگ رہے ہیں، بتائیں کہ کیا سپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟نعیم بخاری نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیاکہ کیا زیرالتوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے، نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے،اس لئے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیئے،۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس مظہر عالم نے سوال کیاکہ رولنگ پراسپیکر اسد قیصر کے دستخط ہیں۔نعیم بخاری نے کہاکہ جی وہ آج بھی سپیکر قومی اسمبلی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے،اس دن اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، موشن اور تحریک دونوں آپس میں رشتہ دار ہیں ، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 95 کاآئینی مینڈیٹ ہے، کیا ڈپٹی اسپیکر آئینی مینڈیٹ سے انحراف کر سکتا ہے،؟کیا ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد ہونے کا مطلب ووٹنگ کیلئے پیش ہونا نہیں؟ تحریک عدم اعتماد کے علاوہ پارلیمان کی کسی کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے مزید سوال کیاکہ کیا اسمبلی رولز کا سہارا لیکر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟ اس دوران نعیم بخاری نے وقفہ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا، نعیم بخاری کا کہنا تھاکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہونگے، چیف جسٹس نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی؟ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں، جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چائیے تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا،اس دوران نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، چیف جسٹس اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ اس پر نعیم بخاری نے کہاکہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کاروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی،جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی، رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں ،رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں،پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی سپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، ڈپٹی اسپیکر اجلاس مین موجود تھے، نعیم بخاری نے کہا کہجو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ممکن ہے کچھ ارکان سپیکر کی رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے ڈپٹی سپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو،ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے اختتام سے پہلے اسپیکر اسد قیصر کا نام پڑھا، جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری نے عدم اعتماد کی آئینی حیثیت پر رولنگ مانگی، ایوان میں عوام کے منتخب ارکان موجود تھے، ڈپٹی اسپیکر نے ان کے خلاف رولنگ دیدی، کیا عوامی نمائندوں کی مرضی کیخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں؟ نعیم بخاری نے کہاکہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیاکہ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟ نعیم بخاری نے کہاکہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیاکہ اگر اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کا کیا تھا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لا سکتے تھے،نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی، چیف جسٹس نے کہاکہ رولز کے مطابق پوائنٹ آف آرڈر پر دوسری سائیڈ کو بات کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے،آپشن کے باوجود بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا،نعیم بخاری نے پھر کہاکہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا، کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے نعیم بخاری سے سوال کیے کہ کیاآپ ایک آفیسر آف کورٹ کے طور پر نہیں سمجھتے کے آرٹیکل 95 مکمل ضابطہ نہیں؟کیا آپ نہیں سمجھتے کے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی آئینی خلاف ورزی ہے؟نعیم بخاری نے جواب دیا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے، نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کیا انہوں نے موقف اپنایا کہ28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی، چیف جسٹس نے سوال کیاکہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے ؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہاوس لیو گرانٹ کرتا ہے، سج دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ازراہ تفنن استفسار کیااٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپکا آخری کیس ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر آپکی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے، جسٹس جام خان نے کہاکہ پوری بات تو سن لیں،ہم توچاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں ،وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آ سکتا، چیف جسٹس نے کہالپ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے،تاہم پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنی نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی، اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔جسٹس مینب اختر نے کہاکہ اسپیکر ایوان کا نگران ہے،سپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے نہیں بیٹھتا، سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20% یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا، اٹارنی جنرل نے کہاکہاسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں تین سے سات دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، سات دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ممبران نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہئے تھی، وزیر اعظم کو سب پتا ہوتا ہے وہ جاتے ارکان سے پوچھتے وہ کیا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی،تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ اسپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا، تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا، اگر 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ ان کا کہنا تھاکہ ایوان کی مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہائوس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہونگے، ووٹنگ کے لئے 172 ارکان ہونے چاہیے،لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیئے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی،چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک منظور کرنے کی سپیکر نے رولنگ دیدی تو بات ختم ہوگئی، اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا، تین اپریل کو بھی وہی سپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپکو سننا چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی، دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور سپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے،دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ پولیس، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو الرٹ کر دیا گیامیں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا،میرا مقصدنئے انتخابات کا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے،جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائینگے،چیف جسٹس نے کہاکہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا،آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے،اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا، ۔ اس دوران اپوزیشن لیڈرشہباز شریف نے کہاکہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا،عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، سپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی، شہباز شریف نے کہاکہ ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے انکی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے، بطوراپوزیشن لیڈر چارٹڈ آف اکنامکس کی پیش کش کی، 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ ارکان کو فیصلہ کرنے دینا چاہئے،پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، شہباز شریف نے کہاکہ مطمئن ضمیر کیساتھ قبر میں جائوں گا،سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے، سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرینگے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی،شہباز شریف نے کہاکہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے، جسٹس جمال خان نے کہاکہ آئین کی مرمت ہم کر دینگے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟شہباز شریف نے کہاکہ پارلیمنٹ کا ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے،۔اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کرینگے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے، شہباز شریف نے کہاکہ عام آدمی تباہ ہوگیا اس کیلئے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کرینگے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ سب چاہتے ہیں اراکین اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب وزیراعظم بنیں،لیکن جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گے،؟ چیف جسٹس نے کہاکہ اپوزیشن کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو ہونے دیں، اٹارنی جنرل ہمیں معلوم ہے، وکیل ن لیگ مخدوم علی خان نے کہاکہ اٹارنی جنرل کی آخری باتیں دھمکی آمیز تھیں، کون کس کو نہیں چھوڑے گا، کس کو سرپرائز دے گا یہ نہیں کہنا چاہیے، مخدوم علی خان نے کہاکہ وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا،چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے،سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکے ہیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت سیاسی تقاریر پر نہ جائے،سیاست روز تبدیل ہوتی ہے، منحرف ارکان کے علاوہ اپوزیشن کے پاس 177 ارکان ہیں،اس دوران چیف جسٹس کے کہنے پر مخدوم علی خان نے اپوزیشن ارکان کی پارٹی وائز تفصیلات بتائیں، مخدوم علی خان نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر مہنگا اور روپے کی قدر کم ہو گئی، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تمام معاشی مسائل ہیں،مخدوم علی خان نے کہاکہیہ معاشی مسائل کس نے پیدا کیے پیں؟چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا ہم سوالات کے جواب دینے بیٹھے ہیں، آرٹیکل 184/3 میں کیس سن رہے ہیں، عوامی حقوق کا تحفظ کرینگے،مخدوم علی خان نے کہاکہ مجھے اندازہ تھا حکومت بلآخر انتخابات کی طرف جائے گی، جانتا تھا کہ سپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں، اس دوران چیف جسٹس نے ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کی تعریف بھی کی ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ حاجی سیف اللہ کیس امتیازی کیس ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ رولنگ ختم ہو اسمبلی بحال نہ ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے آپ اس نقطہ پرتیاری کرکے آئے ہیں مخدوم علی خان نے کہاکہ مجھے پتہ تھا یہ اس طرف آئینگے۔چیف جسٹس نے کہاکہآئین سے 58(2B) جمہوری انداز میں نکالا گیا تھا، مخدوم علی خان نے کہاکہ اس رولنگ کے بعد اقدامات کی توثیق کی تو ایک پیغام جائے گا ،یہ پیغام جائے گا کہ پلگ نکال دو تاکہ دوسرا نہ آ سکے، وکیل ن لیگ کا کہنا تھا کہ تین اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صوبائی حکومتیں رکھتے ہوئے انتخابات کیسے شفاف ہونگے؟ صدر نے سپیکر کی ملی بھگت سے سمری منظور کی، چیف جسٹس نے کہاکہ اپوزیشن پر بہت سنجیدہ الزامات عائد ہیں،اس لئے سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں،عدالت میرٹ پر جائے گی نہ ہی الزامات پر فیصلہ دے گی،شہباز شریف نے کہاکہ غداری کے الزام کیساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے؟ ہم اس الزام کیساتھ گھر والوں کا سامنا نہیں کر سکتے،چیف جسٹس نے کہاکہ غداری کا الزام جنہوں نے لگایا ہے وہ ثابت کریں، جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ رولنگ ختم ہوگئی تو الزام کیسے برقرار رہے گا؟ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل نے ججز کو اپنا موقف پیش کرنے کی استدعا کردی۔ تو چیف جسٹس نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے کہ پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، میاں صاحب وہ آپ سے ناراض رہتے ہیں ہاتھ نہیں ملاتے، جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ میاں صاحب چھوڑ دیں آپ میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا، شہباز شریف نے کہا کہ سازش کے ثبوت لے آئیں عدالت کی ہر سزا قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دونگا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے،سیاست میں سب کا احترام ہے۔عدالت کسی کو بے توقیری نہیں کرنے دے گی میرٹ پر نہیں جا رہے، ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے، سیاسی لوگ سپریم کورٹ کے احاطہ کو ناپاک نہ کریں، احاطہ عدالت میں سیاسی گفتگو ہوتی، ہم پر تنقید اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ قوم قیادت کیلئے ترس رہی ہے،۔مجھے کہا گیا باہر میڈیا ٹاک پر پابندی لگا دیں،لیکن میں نے عملے کو کہا سیاستدانوں سے کمرہ عدالت میں درخواست کروں گا، اس دوران رضا ربانی نے کہاکہ نئے انتخابات کو متنازع نہیں بنانا چاہتے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن اور اسٹبلشمنٹ دونوں متنازع ہوئے، ،ان حالات میں اصلاحات کے بغیر انتخابات کا فائدہ نہیں ہوگا، بعد ازاں عدالت نے قراردیا کہ کیس کا فیصلہ ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔جورات کو قریبا نو بجے سنایا گیا۔جس میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے۔