میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

ویب ڈیسک
منگل, ۷ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی گرفتاری ہے ۔ اگر عمران خان توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوجاتے ہیں، تو ملک کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ ملک میں ایک تماشا لگا ہوا ہے ، اور پی ڈی ایم اے کی حکومت جس طرح ملکی معاملات چلا رہی ہے ، اس سے پورے ملک میں بے چینی اور بد دلی پائی جارہی ہے ۔ پاکستان کی معیشت کو آکسیجن ٹینٹ میں رکھا ہوا ہے اور جان بوجھ کر آئی ایم ایف سے معاملات کو الجھایا جارہا ہے ۔
روز کی بنیاد پر ایک نیا تماشا شروع ہوتا ہے ، اور پھر اس پر شور شرابہ کیا جاتا ہے ، روزانہ درجنوں پریس کانفرنس ہوتی ہیں، براہ راست ٹی وی پر آکر الزامات لگائے جاتے ہیں، بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے ۔ شام کو ٹاک شو میں بھی ان ہی موضوعات پر بات ہوتی ہے ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ انانیت کی یہ جنگ اس ملک کو کہاں لے جارہی ہے ۔ اتوار کو بھی سارا دن یہی ڈرامہ جاری رہا۔ اسلام آباد کی پولیس لاہور عمران خان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے پہنچی، پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنی رہائش گاہ پر موجود نہیں ہیں اور اب ‘قانونی کارروائی کی راہ میں غلط بیانی سے کام لینے پر شبلی فراز کے خلاف کارروائی کی جائے گی’۔
اٹھائیس فروری کو توشہ خانہ کیس میں عدم پیشی پر ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ظفر اقبال نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے ۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت 74 کیسز کا سامنا ہے ، انسانی طور پر سب میں عدالت کے سامنے پیش ہونا ممکن نہیں۔’ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش میں یہ حد سے آگے بڑھے تو پورے پاکستان میں احتجاج کی کال دیں گے ‘۔
اس وقت ملکی معیشت جس طرح تباہ حال ہے ، اس کو بحال کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی، کل اسحاق ڈار نے جو پریس کانفنرس کی وہ ایک ناکام وزیر خزانہ کی صرف الزامات پر مبنی پریس کانفرنس تھی۔ ایک سال کا عرصہ موجودہ حکومت کو ہوگیا، لیکن وہ اب بھی معیشت کی بے حالی کا سارا الزام عمران خان کی بیڈ گورننس پر ڈال رہی ہے ۔ ان کے پاس کہنے کو صرف یہی رہ گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا، ایسا لگتا تھا کہ عمران خان پاکستان ڈبو دے گا۔”ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں پر اسحاق ڈار کے منہ سے کف نکل رہی تھی ، انھوں نے کہا کہ انہوں نے ڈیفالٹ ڈیفالٹ کی رٹ لگائی ہوئی ہے ، "پاکستان نہ ڈیفالٹ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی فرمایا ” کہ ان کے لانے والوں نے کہا اگر یہ رہ جاتے تو پاکستان کیلئے خطرے سے خالی نہ تھا، یہاں تک کہنا تھا کہ پاکستان خدانخواستہ ٹوٹ جاتا۔” اب یہ لانے والے موجودہ حکومت سے بھی تنگ ہیں، 1972 سے 1922 تک آرمی چیف بننے والے دس جرنیلوں میں سے پانچ کی تقرری نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم کی ہے ، ہمیشہ سینارٹی و اہلیت کو نظر انداز کرکے ہمیشہ اپنا بندہ” پونے کا معیار سامنے رکھا، اس کے باوجود وہ کسی ایک سے نباہ نہ کرسکے ، 2016 میں میاں نواز شریف نے اسی معیار کی بنیاد پر ساتویں نمبر والے قمر جاوید باجوہ کو نامزد کیا۔ جس نے انھیں پانامہ کیس میں کوئی رعایت نہ دی۔آج پھر مریم نواز کھلے عام الزامات لگا رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو بار بار سیاست میں کیوں گھسیٹا جارہا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ وہ ملک کو صحیح خطوط پر ڈال کر ملک کی معیشت بحال کردیں گے ، اب ان کی قابلیت اور اہلیت کہاں ہے ، انھیں تختیاں لگانے ، غیر ملکی دورے کرنے ، اور اجلاسوں کی صدارت کرنے اور جھوٹے دعوی کرنے کے علاوہ اور کیا کام ہے ۔ ملک میں مراعات یافتہ طبقہ کے الاؤنس، رعایت ختم کرتے ہوئے ، انھیں تکلیف ہوتی ہے ، دس بارہ لاکھ روپے پنشن پانے والوں سے انھیں ہمدردی ہے ۔ انھیں گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کس لیے دی گئی ہیں۔
اسحاق ڈار کب تک اس ملک کی معیشت سے کھیلتے رہیں گے ، ان کی قابلیت کیا ہے ، علاوہ” سمدھی” ہونے کے ، ماضی میں انھوں نے کون سے کارنامے انجام دیے ہیں، سوائے معیشت کی تباہی کے ۔ وفاقی کابینہ نے ملک میں معاشی بحران کے خاتمے کے لیے کفایت شعاری سے متعلق جو فیصلے کیے وہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے ساتھ ایک مذاق ہیں۔ جون 2024 تک نئی سرکاری گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد کرنے والے یہ بتائیں گے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد کتنی گاڑیاں خریدی گئی، اور کیوں خریدی گئیں۔ گاڑیوں کا الاؤنس وصول کرنے والے سرکاری افسران کو گاڑیاں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن کون سے قانون کے تحت انھیں یہ رعایت دی گئی تھی کہ وہ الاؤنس بھی لیں اور سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کریں۔وزراء بیرون ملک دوروں کے لیے جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام پر بھی پابندی ہو گی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک مشکل میں ہے تو یہ دورے کیوں کیے جارہے ہیں، اور ان سے اس ملک کے کون سے مسائل حل ہورہے ہیں۔جہاں اخراجات کم کرنے ہیں ، وہاں فیصلہ کرنے سے ان کے پر جلنے لگتے ہیں۔” یہاں وزیراعظم شہباز شریف اتنا ہی کہہ کر رہ گئے "کہ فوج کے غیر جنگی اخراجات میں کمی کے حوالے سے فوج سے بات ہوئی ہے وہ جلد خود اس کا اعلان کرے گی۔”ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کو کو مختصر کیے جانے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس بارے میں جلد خوش خبری سنائی جائے گی، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ کابینہ کم خرچ میں عوام کی خدمت کرے گی۔ وزیراعظم نے "توانائی بچت پلان”سرکاری تقریبات میں ون ڈش پالیسی "سرکاری اجلاسوں میں صرف چائے اور بسکٹس”سے حکومت سالانہ 200 ارب روپے کی بچت کر سکے گی۔ یہ سارے اقدامات نمائشی اور اس قوم سے مذاق ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار سے چمٹ کر عوام کی ہڈیوں کو بھنبھوڑ رہی ہے ، اور ان کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہی ہے ۔ یہ اس فقیر کی طرح سے ہیں، جسے حلوہ کھانے کا شوق تھا ، اور قسمت سے اسے بادشاہت مل گئی تھی۔ لیکن جب پڑوسی ملک کی فوج نے حملہ کیا تو اس فقیر نے پوری قوم کو حلوہ بنانے اور حلوہ کھانے پر لگا دیا۔ یہاں تک کہ دشمن فوج نے ملک پر قبضہ کرلیااور بادشاہ نے اپنی فقیری گدڑی اٹھائی اور یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ہمیں بادشاہت اور حکومت سے کیا کام۔ ملک پر مصیبت اور تباہی آنے پر یہ بھی پتلی گلی سے ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے ، بھگتنا تو اس ملک کے غریب عوام ہی کو ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں