امریکا میں چار بڑی نقل مکانیوں کا خطرہ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
چارلس ایم بلو
ٹیکساس میں موسم سرما میں آنے والے خوفناک طونان کے نتیجے میں ہونے والی انسانی جانوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے پتا چلتا ہے کہ موسمیاتی تباہی والے واقعات جلد ہی نہ صرف کم اہم ہو جائیں گے بلکہ نیو نارمل یعنی کووڈ کے بعد کے حالات کا حصہ بن جائیں گے۔ اس سے ہمیں اس بات کی بھی یاد دہانی ہو رہی ہے کہ کس طرح ایک شدید موسم نارمل حالات میں بہت سے لوگوں کو ان نئے مقامات کی طر ف نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دے گا جہاں موسم کی شدت زیادہ نہیں ہو گی۔ پلیٹزر سنٹر کے تعاون سے بننے والی نیویارک ٹائمز میگزین اور پرو پبلیکا کی مشترکہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے ’’پورے امریکا میں 162 ملین لوگ یعنی ہر دو میں سے ایک فرد کو اپنے موجودہ ماحول میں شدید گراوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جو درجہ حرارت میں اضافے اور پانی کی کمیابی کی صور ت میں ظاہر ہوگا۔ ان میں سے 93 ملین افراد کے لیے یہ تبدیلیاں شدید نوعیت کی ہوں گی اور ہمارے تجزیے کی روشنی میں 2070ء تک اگر کاربن کا اخراج اپنی ااخری حدود کو چھونے لگا تو کم از کم چار ملین امریکی شہری خود کو ایسے مقامات پر رہائش پذیر پائیں گے جو عام طور پر ایک مناسب معیارِ زندگی سے کم تر درجے کے ہوں گے‘‘۔ دنیا کے باقی ممالک کو تو چھوڑیں‘صرف امریکا میں آنے والے عشروں میں کئی ملین افراد کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑے گی جس کے نتیجے میں یہ ملک ثقافتی، معاشی اور سیاسی طور پر ایک نئے قالب میں ڈھل جائے گا۔ مگر یہ خطرہ صرف اسی ایک بڑی ہجرت سے ہی پیدا نہیں ہو گا۔ ماہرین کے خیال میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکا میں تین مزید اور بڑی نقل مکانیو ں کا خدشہ ہے۔ اول: دیگر ممالک سے ہونے والی نقل مکانی، دوم: نوجوانوں کی شہرو ں کی طرف نقل مکانی، سوم: شمال اور مغرب میں واقع شہروں سے سیاہ فاموں کی جنوب کی طرف نقل مکانی۔
پہلی نقل مکانی: 2015ء میں پیو ریسرچ سنٹر کے تحت ہونے والی ایک ا سٹڈی کے مطابق 2065ء تک امریکا کی کل آبادی میں تارکین وطن اور بچوں کی شرح 36 فیصد تک ہو جائے گی جو بیسویں صدی کے اختتام تک پائی جانے والی بلند ترین شرح کے برابر یا اس سے زیادہ ہو جائے گی۔ یہ حصہ 1965ء کی شرح (18 فیصد) سے دوگنا ہو جائے گا‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے ’’نئے تارکین وطن کی آمد، ان کے بچوں اور اس سے آگے ان کی اگلی نسل میں پوتوں اور نواسوں کی پیدائش کے بعد 1965ء میں امریکی آبادی (193 ملین) میں 55 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور آخری مردم شماری کے مطابق‘ آج امریکا کی کل آبادی 324 ملین افراد ہو گئی ہے‘‘۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 2065ء تک امریکا کی آبادی 441 ملین افراد ہو جائے گی اور تخمینے کے مطابق مستقبل میں نئے تارکین وطن کی آمد میں بھی 88 فیصد اضافہ ہو جائے گا‘‘۔ سفید فام اکثریت کی نقل مکانی اور جنوب مغربی ریاستوں میں ہسپانوی نژاد آبادی میں اضافے سے بھی سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ مزید برآں امریکا اس لیول تک پہنچ جائے گا جہاں ہسپانوی نڑاد آبادی سیاہ فاموں سے دو گنا ہو جائے گی اور ایشیائی نژاد آبادی بھی سیاہ فاموں سے بڑھ جائے گی۔ اس کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں اقلیتی گروپوں کا مفہوم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے بعد نوجوان نسل کی نقل مکانی ہو گی۔ 2014 میں NPR نے یہ رپورٹ دی تھی کہ امریکا کے چھوٹے قصبوں میں یہ کہانیاں عام سننے کو ملتی ہیں کہ یہاں کی نوجوان نسل جلد ہی چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کر جائے گی۔ ’’گزشتہ صدی کے اختتام اور نئے ہزاریے میں پیدا ہونے والی نسل کو امریکا کی آبادی میں ایک بڑی شفٹ دیکھنے کو ملے گی۔ ہماری تاریخ میں اسے بڑے شہروں کی چکا چوند میں گرفتار نسل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں اس ہزاریے کے ہندسے جیسے جیسے بڑھ رہے ہیں اس کا بڑے شہروں اور ان کے مضافات کی آبادی میں اضافے سے کوئی موازنہ نہیں بنتا‘‘۔ جیسا کہ بلومبرگ نے 2019ء میں رپورٹ دی تھی ’’ایک سٹڈی کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران ان نوجوانوں نے شہروں کی توسیع میں نہ صرف ایک ڈرائیونگ فورس کا کردار ادا کیا ہے بلکہ پرانی نسلوں کے مقابلے میں یہ نسل بڑے شہروں کے مرکزی اور مضافاتی علاقوں میں رہائش رکھنا پسند کر تی ہے‘‘۔ اس کے بعد سیاہ فام باشندوں کی شمالی اور وسطی مغربی علاقوں سے جنوب کے شہروں کی طرف ایک معکوسی ہجرت ہو گی۔ آخری مردم شماری کے بعد نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ’’مردم شماری کے اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی علاقوں میں رہنے والے سیاہ فاموں کی آبادی پچھلی نصف صدی میں اپنی بلند ترین سطح کو چھونے لگی ہے کیونکہ نوجوان اور زیادہ تعلیم یافتہ سیاہ فام نسل بہتر مواقع کی تلاش میں نارتھ ایسٹ اور مڈ ویسٹ کے پسماندگی کے شکار شہروں سے ہجرت کر گئی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں جنوبی علاقوں میں سیاہ فام آبادی میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا‘ یہ 1910ء کے بعد کے عرصے میں اپنی بلند ترین سطح پر ہے جب سیاہ فاموں کی شمالی علاقوں کی طرف نقل مکانی اپنے عروج پر تھی‘‘۔ میری توقع اور پیشگوئی کے مطابق اس معکوسی ہجرت کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں مزید شدت بھی آئے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں امریکا میں ان بڑی بڑی ہجرتوں کی وجہ سے کئی ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے جس کے بعد اس کے جغرافیے اور اقتدار کے ڈھانچے میں کافی شکست و ریخت ہو گی او رہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ا س کے بعد یہاں کیسا انقلاب آئے گا اور ہمارے ملک کا نقشہ کیا بن جائے گا۔ اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ ہم ایک نئے امریکا کو دیکھیں، ہنگامی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک بالکل ہی بدلا ہوا امریکا جس میںبڑی حد تک اقتدار کی نئے سرے سے تقسیم دیکھنے میں آئے گی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ آج جس امریکا کو ہم جانتے ہیں یہ جلد ہی ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ نقل مکانی کی تحریکیں ہمارے ملک کو مسلسل ایک نئی شکل میں ڈھال رہی ہیں اور مجھے یہ رجحان جلد ختم ہوتا نظر بھی نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔