میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان سے یومیہ لاکھوں ڈالروں کی افغانستان غیر قانونی اسمگلنگ کا انکشاف

پاکستان سے یومیہ لاکھوں ڈالروں کی افغانستان غیر قانونی اسمگلنگ کا انکشاف

ویب ڈیسک
منگل, ۷ فروری ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان سے یومیہ لاکھوں ڈالر غیرقانونی طریقے سے افغانستان اسمگل ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔میڈیا رپورٹ میں عالمی نشریاتی ادارے بلومبرگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مطابق معاشی عدم استحکام کا شکار پاکستان سے ہر روز لاکھوں ڈالر افغانستان اسمگل کیے جارہے ہیں جس سے افغانستان کی معیشت کو تقویت مل رہی ہے جبکہ پاکستانی معیشت کمزور ہو رہی ہے۔پاکستان سے ہر روز لاکھوں ڈالر غیرقانونی طریقے سے افغانستان اسمگل کیے جارہے ہیں جس سے افغانستان کی سکڑتی ہوئی معیشت کو کچھ حد تک سہارا مل رہا ہے باوجود اس کے کہ یورپ اور امریکہ نے طالبان کو غیرملکی بینکوں میں رکھے اربوں ڈالر کے ذرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی دینے سے انکار کردیا تھا۔تاہم پاکستان کے لیے یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ ڈالر کی اسمگلنگ سے تیزی سے بڑھتے معاشی بحران میں اضافہ ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل محمد ظفر پراچہ نے کہا کہ تاجر اور اسمگلرز ہر روز کم از کم 50 لاکھ ڈالر سرحد پار اسمگل کر رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر ہفتے افغانستان کی مرکزی بینک مارکیٹ میں کم از کم ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر ذخیرہ کرتی ہے۔غیرقانونی طور پر ڈالر کی اسمگلنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2021 میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کس طرح معاشی پابندیوں کو عبور کر رہے ہیں۔ڈالرزکی افغانستان اسمگلنگ سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر پر دبا ئوپیدا ہو رہا ہے جبکہ روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جس نے ملکی معیشت کو دیوالیہ کے دہانے پہنچا دیا ہے۔ کرنسی ڈیلر محمد ظفر پراچہ نے کہا کہ بغیر کسی شک کے کرنسی افغانستان اسمگل کی جارہی ہے اور یہ فوری منافع دینے والا کاروبار بن چکا ہے۔کراچی میں قائم الفا بیٹا کور سلوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خرم شہزاد نے کہا کہ افغانستان کو یومیہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس کا نصف پاکستان سے اسمگل کیا جا رہا ہے۔افغانستان کے مرکزی بینک دا افغانستان بینک کے ترجمان حسیب نوری کے مطابق ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بینک کے پاس زر مبادلہ میں بہت ہی کم ڈالر ہیں۔رپورٹ کے مطابق افغانستان کو گزشتہ سال سے ہر ہفتے 4 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم اقوام متحدہ سے موصول ہو رہی ہے اور جیسا کہ افغانستان گلوبل بینکنگ نظام سے منسلک نہیں ہے اس لیے اقوام متحدہ سے آنے والی امدادی رقم کابل میں نقد کی صورت میں دی جاتی ہے جس کو مقامی کرنسی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق فنڈ ایڈوائزر توریک فرہادی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ مارکیٹ میں ڈالر سپلائی کرکے مقامی کرنسی میں تبدیل کرتا ہے جس سے افغانی کرنسی کو سہارا ملتاہے ،لہٰذا افغان کرنسی کی طلب اقوام متحدہ کی طرف سے پیدا کی گئی جس میں دیگر ذرائع بشمول ڈالر اسمگلرز بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ڈالر کی ترسیل اور مقامی کرنسی کی طلب کی وجہ سے افغانی کرنسی فی ڈالر 89.96 تک آگئی ہے جو کہ دسمبر 2021 میں 124.18 فی ڈالر پر تھی۔ادھر اسی دور میں پاکستانی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے 37 فیصد تک کم ہوگئی ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری کے آخر تک پاکستانی کرنسی میں ایک دن میں تقریباً 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی جو کہ کم از کم دو دہائیوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے جس کی اہم وجہ حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے لیے نرمی دکھا کر ڈالر پر مصنوعی کنٹرول ختم کرنا ہے۔افغان کرنسی گزشتہ ایک سال میں دنیا کی بہترین کرنسی میں شمار ہے جبکہ پاکستانی کرنسی دنیا کی کمزور ترین معیشتوں میں شمار ہے۔افغانستان کی وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کے مطابق ڈالرز کی اسمگلنگ گزشتہ برس اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان نے پاکستان کو کوئلے کی برآمدادی ٹیکس میں اضافہ کیا تھا۔حکام نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے پاکستانی روپے کو افغانستان میں قانونی ٹینڈر کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی سے بھی اس کی کرنسی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ فیصلہ برآمد کنندگان کو ڈالر میں تجارت کرنے اور امریکی کرنسی کو ملک میں واپس لانے پر مجبور کرتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں