عمران خان کانتیجہ آگیا؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
پاکستان کی سیاست کا تجزیہ کرنے کے بعد جو تصویر سامنے آتی ہے اس کے مطابق اگر 8فروری2024 کے عام انتخابات میں بڑی دھاندلی نہیں ہوتی ،انتخابات چوری نہیں ہوتے موجودہ حالات میں مغربی اور جاپانی معیار کے انتخابی عمل کی نہ صرف توقع کی جا سکتی ہے بلکہ یہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے۔ البتہ ان انتخابات کا انعقاد بھارت اور بنگلہ دیش سے کچھ کم معیار کے مطابق بھی ہوجائے، اس کے نتیجے میں عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی ۔مختلف اداروں کی جانب سے ر ائے عامہ کے حاصل کردہ اعدادوشمار میں بھی پی ٹی آئی کامیاب نظر آتی ہے ۔پاکستانی میڈیا کے بیشتر مبصّرین بھی اس سے متفق ہیں کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت ہے اور عوام کی خواہشات کا احترام کیا گیا تو پی ٹی آئی ہی کامیاب ہوگی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک کی ایک اہم جماعت مسلم لیگ ن کا مسلسل زوال ہے ووٹرز کی بڑی تعداد کا اس کے خلاف غصّہ بھی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 20ماہ کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کے بھاری بل اور صحت کی سہولتوں میں کمی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگا ر کھل کر اس بات کا اظہا ر کرتے ہیں انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور ان کے کے انتخابات میں حصہ لینے پر بڑی رکاوٹ ہوگی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض مبصّرین خوشی سے دھاندلی کا تجزیہ کرتے ہیں اور رائے عامہ کی تضحیک کرتے ہیں ۔حالانکہ جمہوریت رائے عامہ کے احترام کے بغیر بے معنی ہوجاتی ہے۔ ٹی وی اور اخبارات میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھینے جانے کی تصاویراور خبریںسب کے سامنے آئیں اس کے بعد پی ٹی آئی کے تقریباً تمام نامور رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدّد کے الزامات بھی سامنے آئے جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ پی ٹی آئی کے لیے شدید رکاوٹیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت کئی اہم رہنما اور بے شمار کارکن جیلو ںمیں بند ہیں۔ ان کا انتخابی نشان بلّا واپس لے کر ان کی جماعت تحلیل کردی گئی ہے۔ یہ جمہوری طرزعمل کی نفی ہے اس طرح شفافیت ممکن نہیں ۔دنیا میں ترقی کرنے والی قوموں میں مشترک عوامل قانون کی بالادستی، انصاف، اخلاقیات،شفافیت اور میرٹ کا نظام ہے ۔میڈیا اس کے معیار کی خامیوں کی نشاندہی کرتاہے لیکن اگر بے ایمانی کو برائی تصّور نہ کیا جائے اور اس کی پزیرائی کی جانے لگے تو معاشرہ زوال پزیر ہو کر تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے خلاف آپریشن جاری ہے وہ کوئی اجتماع بھی نہیں کرسکتی، جھنڈا بھی نہیں اٹھا سکتی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے لیے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔نواز شریف کی لندن سے آمد ایک بادشاہ کی طرح ہوئی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے اعلان کردیا کہ انتخابات کے بعد نوازشریف وزارت عظمٰی کا حلف اٹھائیں گے۔ اس بات کو تسلیم کر لیاجائے اورایک لمحے کے لیے تصور کرلیا جائے کہ8 فرور ی کے انتخابات کے نتا ئج مسلم لیگ ن کی خواہشات کے مطابق ہونگے جیسا کہ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ ان کی اوپر بات ہوچکی ہے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی نہیں ہوگی، ان کا انتخابی نشان بلّا بھی نہیں ہوگا اور ان کے امیدوار آزاد حیثیت سے مختلف نشانات کے تحت انتخاب لڑیں گے جس میں چارپائی،پنجرہ،بکری، اخبار، پیاز،ریڈیو،صوفہ ،چمچہ،ٹیبل،جوتا اور اسکروڈرائیور وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ۔مسلم لیگ کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ ان کی اوپر بات ہوچکی ہے، اس کے ممکنہ ا نتخابی نتائج کچھ اس طرح ہونگے کہ مسلم لیگ ن ایک سو تیس سے زائد نشستیں لے کر پہلے نمبر پر آسکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر پی پی کو 45 سے 55 نشستوں تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔ آزاد امید وار 60 نشستیں حاصل کرتے ہیں جس کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں پر مشتمل ہوگی۔ ایم کیوایم 10 جماعت اسلامی 6 اور بقیہ جے یو آئی اور دیگر کے حصے میں آتی ہیں۔ ایسی صورت میں سرکاری بیان کے مطابق کو ئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔ صرف اتنا ہوگا کہ جہانگیر ترین کا ہیلی کاپٹر آزاد امیدواروں کو سفری سہولیات فراہم کرے گا۔ نصف کے قریب اراکین کو سوار کر کے محفوظ مقام پر لے جائے گا۔10 نواز شریف اپنے کیمپ میں لے کر آجائیںگے او ر پانچ آصف زرداری کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔ ا س طرح مخصوص نشستوں کی بڑی اکثریت مسلم لیگ ن کے حصے میں آئے گی۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر استحکام پاکستان پارٹی ہوگی۔ اس طرح مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی مل کر بھاری اکثریت کی حکومت قائم کرلیں گے۔ اگر مسلم لیگ ن نے یہ معرکہ سر کرلیا۔ ایسی کیفیت میں حکومت کے عہدیداروں کی ملکی اور عالمی سطح پر کوئی پزیرائی نہیں ہوگی۔ الیکشن کی یہ چوری انہیں بھوت بن کر ڈراتی رہے گی لوگ بھی انہیں دھاندلی زدہ اور الیکشن چور ہی تصور کریں گے عوام میں مزید غصّہ اور نفرت کے جذبات پیدا ہونگے۔ مسلم لیگ ن اورملک کے کرتا دھرتا جس منصوبے پر عمل پیرا ہیں ،اس سے ملک میں انتہاپسندی میں اضافہ ہوگا اور بعض مذہبی انتہاپسند قوتّیں ان حالات سے فائدہ اٹھاکر انتخابات میں زیادہ طاقتور بن کر سامنے آسکتی ہیں یا انتخابات کے بعد مزید بحران پیدا کرسکتی ہیں۔ گزشتہ بیس ماہ میںملک سیاسی اور معاشی عدم استحکا م کی جانب گامزن ہے۔ سرمایہ داروں اور تاجروں کا اعتمادختم ہوچکا ہے۔ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہورہا ہے۔ ملک کے اکا برین اور سیاست دان اس گرداب سے نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تلا ش کرنے کے بجا ئے اپنے مخالفین کو نیچا دکھا نے یا انہیں کچلنے میں مصروف ہیں۔پاکستان کے نوجوانوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے ان کو ایک خوشحال اور مستحکم معاشرہ فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں اور توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر جبر کے ذریعے انہیں دبائو میں رکھا گیاتو مستقبل میں اس کے خوفناک نتیجہ نکل سکتا ہے جس سے نہ صرف ملک بلکہ خطے کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں عوامی نفرت کا شکار مسلم لیگ ن کواپنے وجود کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے ۔اس صورت میں بھی وہ موجودہ کیفیت پر قابو پانے میں ناکام ہوگی۔ اس بات کا خطرہ بڑھ جائے گا کہ وہ اقتدارحاصل کرنے کے بعد اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اقتدار پر مزید گرفت حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرسکتی ہے جس سے ملک کی دیگر جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں بے یقینی اور عدم استحکام کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔ آنے والے انتخابات کے نتائج پر خو د مسلم لیگ ن کو تما دعوئوں کے باوجود یقین نہیں ہے۔ عمران خان کی جماعت حالات کا بھرپور سیاسی مقابلہ کر رہی ہے۔ ہر لمحہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی انتخابی میدان میں ہار کر فاتح کہلائیں گے اور جیتنے والے جیت کر بھی پردہ نشین ہو جائیں گے۔ عوام کے سامنے آنے سے گریز کریں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس معرکے میں عوام کس طرح اپنا مستقبل طے کرتے ہیں۔ ان کو ایک بہتر پاکستان کی خواہش ہے جس میں ان کی رائے کو تسلیم کیا جائے، وہ آزادانہ منصفانہ انتخابات چاہتے ہیںکسی کو جبراً مسلّط کر نا ان کی امنگوں کا قتل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔