میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
علامہ اقبال کایقین ِکامل

علامہ اقبال کایقین ِکامل

ویب ڈیسک
اتوار, ۷ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
برصغیرکی تقسیم جیسی زمینی حقیقت کے بعداب تاریخ کوجھٹلانے یاان حقیقی خاکوں میں جھوٹ وبدنیتی کارنگ بھرکرتاریخی واقعات کی شکل بگاڑکرنئی نسل کوگمراہ کرکے اقبال سے بد ظن کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے چاندپرتھوکاواپس اپنے منہ پرگرتاہے۔76سال گزرنے کے بعدایک مرتبہ پھراقبال پرنہروکے اس بے جاالزام کوکیوں دہرایاجارہاہے کہ ”اقبال اپنی زندگی کے آخری دورمیں سوشلزم کے زیرِاثر تصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے”۔کیاان الزامات سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں کہ دوبارہ ایسااکھنڈبھارت قائم ہو جائے جہاں ہر روزکشمیراورگجرات جیسی قیامتیں مسلمانوں پرڈھائی جائیں!اقبال جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کاخواب دیکھا،ان کواس الزام میں آخرکیوں ملوث کیاجا رہا ہے؟اورایک ہی وقت میں بھارت اورپاکستان میں ایسابے ڈھنگا راگ کیوں سنائی دے رہاہے؟دونوں ملکوں کے انتخابات سے قبل تواترسے اس جھوٹ کوپھیلانے کی کیاوجہ ہے کہ سرحدپاراوریہاں کے ٹی وی پربیٹھے دانشوروں کی سڑاندبھی بھڑک اٹھتی ہے۔آئیے تاریخ کے جھروکوں سے حقائق کی دنیامیں جھانکتے ہیں۔
پنڈت جی اپنی کتاب”ڈسکوری آف انڈیا”جوانہوں نے1944میں قلعہ احمدنگرکے زنداں میں بیٹھ کرلکھی تھی،اس میں انہوں نے بطورشاعراورمفکراقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگراقبال کوخراجِ تحسین پیش کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ایک شاعر، عالم اور فلسفی تھے اورپرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے”۔پنڈت جی مزیدلکھتے ہیں کہ”اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ انہوں نے اس تجویزکی لغویت اوران خطرات کومحسوس کرلیاتھاجواس تجویزمیں مضمرہیں”۔ ایڈورڈتھامسن نے لکھاہے کہ” ایک ملاقات کے دوران اقبال نے ان سے یہ کہاکہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدرکی حیثیت سے پاکستان کی حمایت کی تھی مگران کو یقین تھاکہ یہ تجویزمجموعی طورپرہندوستان اورخصوصامسلمانوں کیلئے مضرہے۔شائدانہوں نے اپناخیال بدل دیا تھا یا پہلے اس مسئلے پرزیادہ غورنہیں کیاتھاکیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔ان کاعام نظریہ زندگی پاکستان یاتقسیمِ ہند کے اس تصورکے ساتھ جوبعدمیں پیداہوا،ہم آہنگ نہیں تھا۔آخری عمرمیں اقبال کارحجان اشتراکیت کی طرف بڑھتاگیا۔سوویت یونین کی زبردست کامیابی نے ان کوبہت متاثرکیااوران کی شاعری کارخ بدل گیا”۔
پنڈت نہروکایہ الزام سراسرغلط،لاعلمی بلکہ بدنیتی پرمبنی ہے۔جن لوگوں نے اقبال کی شاعری،فلسفہ اورسیاست کاسرسری سے بھی کم مطالعہ کیاہے،وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ جاگیرداری نظام کااقبال سے بڑادشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ نہروسے سب سے بڑاتاریخی سہویہ ہواکہ وہ بھول گئے کہ ان کی کتاب سے تین برس پہلے قائداعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہوچکے تھے،یہ انگریزی کتاب یقینانہروکی نظرسے گزرچکی ہوگی۔اس کتاب میں شامل28مئی 1937کاوہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں نہروکی”بے خداسوشلزم”کوبھی زیرِبحث لایاگیاہے اوربتایاگیاہے کہ مسلمان تورہے ایک طرف،خودہندومعاشرہ بھی”بے خداسوشلزم”کوہرگزقبول نہیں کرے گا۔پنڈت جی کی سوشلزم کوردکرتے وقت اقبال نے قائد اعظم کوبتایاہے کہ اگراسلامی شریعت کی دورِحاضرکے معاشی نظریات کی روشنی میں ازسرِنوتفسیرکی جائے تومسلمان عوام کی روٹی روزگارکامسئلہ بہترطورپرحل ہوسکتاہے۔مسلمان کوغربت کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون سازاسمبلی ہواوریہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خودمختارمملکت میں ہی قائم کی جاسکتی ہے۔اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکارپکارکرکہہ رہے ہیں کہ:
اول:اقبال،نہروکی”بے خداسوشلزم”پراسلام کے اقتصادی نظام کوترجیح دیتے ہیں۔
دوم:اسلام کے اقتصادی نظام کوعہدِجدیدکے سیاق وسباق میں نافذکرنے کیلئے جداگانہ مسلمان مملکت کاقیام ضروری ہے۔
سوم:اپنی وفات سے فقط چندماہ قبل وہ قائداعظم کویہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ قیامِ پاکستان کوکل ہندمسلم لیگ کاسیاسی پروگرام بنالیں۔
چہارم:اس خط کے آخر میں وہ قائداعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیاوہ وقت نہیں آپہنچاجب ہمیں کھل کرقیامِ پاکستا ن کواپنی منزل قراردے دیناچاہئے؟
پنڈت جی دانستہ طورپراقبال کی وفات سے تین ماہ پیشترمیاں افتخارالدین کے ہمراہ جاویدمنزل میں علامہ اقبال سے جوملاقات کی تھی، اس ملاقات کی خوشگواریادوں کایہ واقعہ بیان کرناکیوں مناسب نہیں سمجھا،لیکن اسے ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ”اقبال کے آخری دوسال”میں بیان کردیاہے۔محترم بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
”پنڈت نہرواس زمانے میں زورشورسے سوشلزم کاپروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے،انڈین نیشنل کانگرس کے دواجلاسوں کے وہ صدررہ چکے تھے اوردونوں مرتبہ اپنے خطباتِ صدارت میں انہوں نے کہاتھاکہ ہندوستان کے تمام مصائب کاعلاج سوشلزم ہے لیکن کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہروکامعاون یا ہم خیال نہیں تھابلکہ سردارپٹیل،راج گوپال اچاریہ اورستیہ مورتی نے توعلی الاعلان پنڈت نہروکے اس عقیدے سے اختلاف کااظہارکیاتھا۔دورانِ ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے پنڈت نہروسے پوچھاکہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟ پنڈت جی نے جواب دیا کہ،نصف درجن کے قریب۔ ڈاکٹرصاحب نے فرمایا”تعجب ہے،خودآپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے،ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کوکانگرس میں شامل ہونے کامشورہ دوں،توکیامیں دس کروڑمسلمانوں کوچھ آدمیوں کی خاطرآگ میں جھونک دوں؟”۔اس پرپنڈت جی خاموش ہوگئے”۔
پنڈت جی نے اسی ملاقات میں پیش آنے والے ایک اہم ناگوارواقعہ کواپنی قوم سے چھپاگئے،ہاں البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کردیاہے۔”ابھی ان دوعظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگوجاری تھی کہ یکایک میاں افتخارالدین بیچ میں بول اٹھے کہ ڈاکٹرصاحب!آپ مسلمانوں کے لیڈرکیوں نہیں بن جاتے؟ مسلمان مسٹرجناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں،اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تونتیجہ بہترنکلے گا۔ڈاکٹرصاحب لیٹے ہوئے تھے،یہ سنتے ہی غصے میں آگئے اوراٹھ کربیٹھ گئے اورانگریزی میں فرمایا:”تواچھا،یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلاپھسلاکرمسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑاکرناچاہتے ہیں،میں آپ کوبتادینا چاہتا ہوں کہ مسٹرجناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈرہیں اورمیں توان کامعمولی سپاہی ہوں”۔اس کے بعدڈاکٹرصاحب بالکل خاموش ہوگئے اورکمرے میں تکدرآمیزسکوت طاری ہوگیا۔پنڈت نہرونے فورامحسو س کرلیاکہ میاں افتخارکے دخل درمعقولات نے ڈاکٹرصاحب کوناراض کردیاہے اوراب مزیدگفتگو جاری رکھنابے سودہے،چنانچہ وہ اجازت لیکر رخصت ہوگئے۔
حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کوتوآسانی سے فراموش کردیامگرایڈورڈتھامسن کی گپ شپ کوناقابلِ تردید تاریخی صداقت کادرجہ دے دیاجنہیں خودان کے ساتھی متعصب قراردے چکے ہیں۔ایڈورڈتھامسن آکسفورڈیونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استادتھے اورتاریخ ہندسے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔وہ دومرتبہ برطانیہ کے اخبار مانچسٹر گارڈین کے نامہ نگا رکے روپ میں بھی برٹش انڈیاآئے تھے۔گاندھی،رابندرناتھ ٹیگور،راج گوپال اچاری،سرادرپٹیل اورنہروکے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے،وہاں کانگرس کی پرجوش وکالت کاکوئی موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔جس روایت کاسہارالیکرپنڈت جی نے اقبال پرالزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈتھامسن اورعلامہ اقبال کی زبانی گفتگوپرمبنی ہے۔ ایڈورڈ تھامسن کایہ بیان قائداعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالاخطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہروملاقات کے مندرجہ بالااحوال ومقامات کی بنیادپرصریحاًجھوٹ ثابت ہوتاہے۔اقبال آخردم تک اپنے تصورِ پاکستان کوقیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گردیکھنے کی تمنامیں سرشاررہے۔قائداعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اوراسلامیانِ ہندکویہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمدعلی جناح کی طویل زندگی کی دعائیں مانگو،صرف جناح ہی قوم کی کشتی کوساحل ِمرادتک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے کیوں محوہوگئی تھیں یاانہوں نے ان ناخوشگوارباتوں کواپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردیدسمجھ کراپنی کتاب میں درج کرناکیوں مناسب نہیں سمجھا؟
نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرِکارواں کیلئے
اس کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ علامہ اقبال ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ میرے نبیۖ کایہ مبارک فرمان ہے کہ تم میں بہتروہ شخص ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔اسی لیے نظریاتی اختلاف کے باوجودعلامہ اقبال اورنہروکے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے۔نہرونے1933میں لندن کی گول میزکانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرزِفکروعمل کوتنقیدکانشانہ بنایاتھا۔ گاندھی جی کے اس رویہ کی حمائت میں نہروکی لب کشائی پراقبال حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگرنہروشریک نہیں تھے ۔کانگرس کی نمائندگی گاندھی جی نے کی تھی۔گاندھی جی نے واپسی پرکہاکہ انہوں نے ذاتی طورپر مسلمانوں کے تمام مطالبات کوقبول کرلیاتھامگرسیاسی رجعت پسندی کی بناپر مسلمانوں نے کانفرنس کوناکام بنادیا۔نہرونے گاندھی جی کی باتوں میں آکرمسلمان مندوبین کے خلاف ایک انتہائی سخت سیاسی بیان داغ دیاچنانچہ علامہ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردیدمیں نہروکوجوخط تحریر کیااس میں علامہ کااخلاق ملاحظہ فرمائیں:
”میں پنڈت جواہر لال نہروکے خلوص اورصاف گوئی کی ہمیشہ سے قدرکرتارہاہوں۔مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جوتازہ ترین بیان انہوں نے دیا ہے اس سے خلوص ٹپکتا ہے اوریہ چیزآج کل کے ہندوستانیوں میں کمیاب ہے لیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ پچھلے تین سالوں میں جوگول میزکانفرنسیں لندن میں منعقدہوئی ہیں،ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق پنڈت جی کی تحقیق کی بنیادکسی تعصب پرمبنی ہے”۔اس خوش گمانی کے اظہارکے بعدعلامہ اقبال نے اصل حالات کوبے نقاب کرتے ہوئے بتایاکہ ”گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات کوذاتی طورپرماننے کاعندیہ تودیاتھامگرساتھ ہی یہ بھی واضح کردیاتھاکہ وہ اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کوتسلیم کرلے گی،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیاتھاکہ کانگرس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیار دینے کیلئے کبھی بھی رضامند نہیں ہوگی، گویاعملاگاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کوردکردیاتھا۔گاندھی جی کی دوسری غیرمنصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمائت ترک کردیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمائت سے دستبرداری سے انکارکرکے نسل پرست گاندھی جی کو ناراض کردیاتھا”۔چنانچہ اپنے اس خط میں انہوں نے یہ سوال اٹھایاکہ:
”اپنے زبانِ زدِعام سوشلسٹ خیالات کے پیشِ نظرپنڈت جواہرلال نہرواس انسانیت کش شرط کی کیسے حمائت کریں گے؟کم ازکم انہیں یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ مسلمانوں کوسیاسی معاملات میں رجعت پسندی کاالزام دیں۔اس صورت میں میں وہ لوگ جوہندوں کے فرقہ پرستانہ مقاصدکواچھی طرح سمجھتے ہیں،اس نتیجے پرپہنچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندومہاسبھاکی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں”۔
مسلمانوں کے خلاف نہروکادوسراالزام یہ تھاکہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا:
”اگرقومیت سے ان کی مرادیہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کوحیاتاتی معنوں میں ملاجلاکرایک کردیاجائے توپھرمیں ہی اس نظریہ قومیت سے انکارکامجرم ہوں۔میں پنڈت نہرو سے ایک سیدھاساسوال کرناچاہتاہوں،جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑکی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کوجنہیں وہ اپنی بقاکیلئے ضروری سمجھتی ہے،نہ مان لے اورنہ ہی ثالث کافیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحدقومیت کی ایسے رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کااپناہی فائدہ ہے،ہندوستان کامسئلہ کیسے حل ہوسکتاہے؟اس سے صرف دوصورتیں نکلتی ہیں،یا تو اکثریت والی ہندوستانی قوم کویہ مانناپڑے گاکہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی یاپھرملک کومذہبی،تاریخی اورتمدنی حالات کے پیشِ نظراس طرح تقسیم کرناہوگاکہ موجودہ شکل میں انتخابات اورفرقہ وارانہ مسئلہ کاسوال ہی نہ رہے”۔جواب میں دیاگیاعلامہ اقبال کایہ بیان یقینی طورپرنہروکی نظروں سے گزراہوگا،اس بیان میں روزِاول تاآخراقبال کاترقی پسند، وسیع النظراورانسان دوست مسلک نمایاں ہے۔یہ بیان تصورِپاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ایسے میں نہروکا یہ کہناکہ1930کے بعداقبال اپنے تصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے،دیانت داری پرمبنی نظر نہیں آتابلکہ تاریخی حقیقت پر تعصب کی چادرڈالنے کے مترادف ہے۔آئیے مستند تاریخی حوالوں سے کچھ اورپوچھتے ہیں:جب نہرونے”ماڈرن ریویوکلکتہ”میں دنیائے اسلام کی صورتحال پرتین مضامین میں وطنیت اورلادینیت کے فروغ کاخیرمقدم کیا تھاتواس کے جواب میں اقبال نے بھی”ماڈرن ریویوکلکتہ”ہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کوراست فکری میں بدلنے کاسامان کیا۔اپنے طویل مضمون کے آغازمیں اقبال نے برملاکہا:
”میں اس بات کوپنڈت جی اورقارئین سے پوشیدہ نہیں رکھناچاہتاکہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کاایک دردناک ہیجان پیداکردیاہے۔جس انداز میں انہوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کاپتہ چلتاہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنامیرے لئے دشوارہے۔وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہندکے مذہبی اورسیاسی استحکام پسندنہیں کرتے۔ ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے اس بات کوگوارانہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساسِ خود مختاری پیدا ہو”۔
قارئین!ذراغورفرمائیں کہ اقبال کایہ تجزیہ کہ”پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے”وقت نے بہت جلد سچ ثابت کردکھایا،جب پنڈت جی کے دل میں برصغیر کی زندگی کے ٹھوس حقائق کااحساس جاگ اٹھاتومولاناابوالکلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کوقبول کرنے کامشورہ دینے لگے۔مولانا آزاداپنی تصنیف”انڈیا ونز فریڈم” میں رقمطرازہیں:
”کچھ دنوں کے بعدجواہرلال مجھ سے دوبارہ ملنے آئے۔انہوں نے ایک طویل تمہیدکے ساتھ شروعات کی جس میں انہوں نے زور دیا کہ ہمیں خواہش مندانہ سوچ میں مبتلانہیں ہوناچاہئے بلکہ حقیقت کاسامناکرناچاہئے۔بالآخروہ اس بات پرآئے اور مجھ سے تقسیم کی مخالفت ترک کرنے کوکہا”۔
اسلامیانِ ہندنے1946کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے نہرواورگاندھی کے سیاسی خواب پرستوں کوزندگی کے جن حقائق کا احساس دلایاتھا،اقبال نے برسوں پہلے نہروکوان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ”سیاسی تدبرکاتقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرارکرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کران سے پنجہ آزما ہواجائے”۔اپنے زیرِنظرمضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پردوٹوک اندازمیں اظہارِخیال کیاتھا۔اقبال نے اسلامیانِ ہندکے سیاسی مسلک پران الفاظ میں روشنی ڈالی تھی:”اگرقومیت کے معنی حب الوطنی اورناموس وطن کیلئے جان تک قربان کردینے کے ہیں توایسی قومیت مسلمانوں کے ایمان کاجزو ہے۔اس قومیت کااسلام سے اس وقت تصادم ہوتا ہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصوربن جاتی ہے اوراتحادانسانی کابنیادی اصول ہونے کادعویٰ کرتی ہے اوریہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظرمیں چلاجائے اورقومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصرکی حیثیت سے باقی نہ رہے،جداگانہ مسلمان قومیت کاسوال صرف ان ممالک میں پیداہوتاہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورجہاں قومیت کایہ تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کومٹادیں۔جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیداکرلیتاہے کیونکہ یہاں اسلام اورقومیت عملاًایک ہی چیزہے۔میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اسلامیانِ ہندکسی ایسی سیاسی تصوریت کاشکارنہیں بنیں گے جوان کی تہذیبی وحدت کاخاتمہ کردے گی،اگران کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوجائے توہم اعتمادکرسکتے ہیں کہ وہ مذہب اورحب الوطنی میں ہم آہنگی پیداکرلیں گے”۔
علامہ اقبال کایقین ِکامل بالکل درست نکلا،اسلامیانِ ہندنے بالآخرمتحدہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی تصورکوغلط ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا۔ ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوگئی اوریوں پاکستان میں اسلام سے عشق اوروطن سے محبت میں کوئی تضادباقی نہ رہا۔اب ہمارادین اسلام ہے اورہمارا وطن دارلسلام ہے اوردوسری طرف آپ نہروکی صداقت کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ ساری دنیاکے سامنے انہوں نے تحریری طورپراس بات کااعتراف کیاکہ وہ کشمیریوں کوحق خودارادیت دیں گے لیکن خود ہی اپنی تحریرسے منحرف ہوگئے اوراس وعدہ خلافی نے ان کی ساری شخصیت کابھرم طشت ازبام کردیاہے!علامہ کایہ شعرکتناحسبِ حال ہے:
اپنے بھی خفامجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِہلاہل کوکبھی کہہ نہ سکا قند


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں