امریکا ،ایران تعلق اور خطے میں نیاکھیل
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
کئی عشروں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات معمول ہیں لیکن بدھ تین جنوری کا دن ایران کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوا ہے۔ یہ رواں برس کے آغازپر دہشت گردی کی ہونے والی ایسی واردات ہے جس میں 103افراد جاں بحق جبکہ 150 زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں نے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب ایرانی شہر کرمان میں پاسدارانِ انقلاب کے مرحوم جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی تھی اور جنرل کے مقبرے میں شہریوں کی کثیر تعداد جمع تھی۔ قبرستان کے داخلی دروازے پر بارودسے بھرے بیگ رکھے گئے اور دھماکوں میںبے گناہ اور معصوم شہریوں کوموت کے گھاٹ اُتار دیا گیاجس پر پورے ملک کی فضا سوگوارہے ۔بلاشبہ یہ خوف و ہراس پھیلانے کی ایسی سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد ایران کو غیر مستحکم کرنا ،انتشار و افراتفری پھیلانا اور اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں۔ دہشت گردی کے اِس واقعے کی پاکستان،سعودی عرب ،چین ،روس ،ترکی سمیت کئی ممالک اور عالمی رہنمائوں نے شدید مذمت کی ہے مگر تاحال امریکی انتظامیہ کی طر ف سے مذمت میں کوئی ایک لفظ تک نہیں بولا گیا جس کا بظاہر یہ پیغام لیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کی اِس واردات کے پسِ پردہ ممکن ہے اُسی کے حمایت یافتہ گروہ ہوں۔ کیونکہ ایران میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کوحاصل امریکی حمایت کسی سے پوشیدہ نہیں مگر ابہام نہیں اِس میں کہ امریکہ نے کئی عشروں سے ایران سے کبھی سختی نہیں کی بلکہ بعض اوقات نرمی کامظاہرہ کیا ہے اسی بناپر تفرقہ بڑھانے جیسی سازشوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی ایک واجبی سی تعلیم رکھنے والے ایک ایسے سخت گیر جنرل تھے جنھیں امریکا کے لیے مسلسل خطرہ تصور کیا جارہا تھا جنھیں جان سے مارنے کی امریکی خواہش کواُس وقت کامیابی ہوئی جب بغداد ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے اُنھیں تین جنوری2020کو امریکہ نے ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا۔ اسرائیل نے ا اِ س واقعہ کوامریکہ کا دفاعی اقدام قرار دیتے ہوئے تحسین کی مگر حالیہ واقعہ پر ابھی تک اُ س کی خاموش معنی خیز ہے؟ ایران نے اپنے جنرل کی شہادت پرنہ صرف شدید احتجاج کیا بلکہ بدلہ لینے کا بھی اعلان کر دیا جس پر خطے میں تشویش کی لہر پیداہونا فطری عمل تھا مگر کچھ فہمیدہ حلقوں کو یقین تھا کہ دونوں ممالک ہرگز مد ِ مقابل نہیں آئیں گے کیونکہ دونوں کا مفاد ایک دوسرے کی بقا میں ہے۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کو یقین دلا رکھاہے کہ انھیں اسرائیل سے زیادہ ایران سے خطرہ ہے تووہ بھلا کیوںکرایران کو کمزور کر سکتاہے؟ کمزور ایران اُس کے مفادات کے حصول کے لیے کارگر ہی نہیں۔ جنرل قسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایرانی اشتعال انگیزی پر امریکہ نے ناصرف خلاف توقع صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ ایران کی طرف سے میزائل حملے کی معلومات ملتے ہی عراق میں موجود اپنے اڈوں سے فوجی دیگر جگہوں پر منتقل کر لیے۔ اِس طرح ایرانی حکومت نے بدلہ لینے کے اعلان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا۔اپنے عوام کی نظروں میں سرخروہوگئی اور امریکہ کو کچھ خاص نقصان بھی نہ ہوا ۔یہاں تک کہ کسی فوجی کی ہلاکت تو درکنا ر کوئی ایک زخمی تک نہ ہوسکا ۔اسی بناپر نکتہ دان اِن میزائل حملوں کو دوستانہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی حکومت کا عرصہ سے منصوبہ ہے کہ مسلم ممالک کو مسلکی اختلافات میں الجھا کر کمزور کیا جائے۔ اِس طرح نہ صرف اُن کے وسائل ہتھیائے جا سکتے ہیں بلکہ جب چاہے کسی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ایران اور عراق آٹھ سالہ جنگ کو اسی سوچ کا نتیجہ کہہ سکتے ہیں۔ اب افغانستان کے ذریعے پاکستان اور ایران پر دبائو بڑھایا جارہا ہے جس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
مہساامینی کی پولیس تشدد سے ہلاکت کے بعدسے ایران مظاہروں اور احتجاج کی ایسی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے جس میں بڑی تعداد میں شہریوں کی اموات ہو چکیں۔ مظاہرین سے ایرانی حکومت نہ صرف سختی سے پیش آرہی ہے بلکہ جانی نقصان کے باوجود لباس کے معاملے میں کسی کو کسی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں جبکہ مظاہرین اِسے شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی حکمت ِعملی کاحصہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے احتجاج اور مظاہرے پُرامن نہیں رہے بلکہ پُرتشددہو چکے ہیں۔ اِس دوران درجنوں افراد جانوں سے محروم ہوگئے جبکہ کچھ کوپھانسی بھی دی جا چکی ہے مگر کسی طرف سے ابھی تک لچک کے کوئی آثارہویدا نہیں۔ یہ درست ہے کہ مظاہرین کی امریکہ اور مغربی ممالک پُشت پناہی کررہے ہیں مگر بات اتنی سادہ نہیں جیسی پیش کی جا رہی ہے بلکہ ایرانی جوہری پروگرام ہو یا پراکسی وار ،امریکہ اور مغربی ممالک نے ہمیشہ چشم پوشی کی ہے۔ اسرائیل بھی ایران کے خلاف کارروائی کا عندیہ تو دیتا رہتا ہے مگر عملی طورپرکبھی حرکت میں نہیں آیاجس سے ماہرین نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کمزور ایران کسی طورامریکہ ،مغربی ممالک اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ یمن کے حوثی ہوں ،شامی حکومت کی کارروائیاں ،یا غزہ اور لبنان کے جنگجو،سب کو ایران کی حمایت حاصل ہے مگر جنگجوئوں کے خلاف کارروائیاں تو کی جاتی ہیں لیکن ایران سے اِن کی حمایت اور وسائل فراہم کرنے کے منصوبوں پر نظر ثانی کا مطالبہ نہیں کیا جا تا ۔یہ نرمی اور چشم پوشی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ طاقتیںخطے کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ایران کو وسائل سے محروم نہیں کرنا چاہتیں ۔اسی لیے حملوں کے جواب میں ناصرف خاموش رہا جاتا ہے بلکہ ایران کی پراکسی وار سے بھی چشم پوشی کی جاتی ہے ۔
ایران و سعودیہ کے تعلقات بحال ہونے سے بھی کچھ طاقتوں کی ناخوشی عیاں حقیقت ہے مزیدیہ کہ تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ چینی کاوشوں سے ممکن ہوا۔ چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہویہ امریکی انتظامیہ کو کسی طور گوارہ نہیں۔ اسی لیے ڈھکے چُھپے لفظوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کی بجائے و اضح الفاظ کا چنائو کیا جاتا ہے مگر یہ تاثر لینا کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے مخالف ہیں کسی طور درست نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور اکثر اوقات دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورتیں بھی پورا کرتے رہتے ہیںجس میں کوئی ابہام نہیں ۔
ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنائی نے بم دھماکوں کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے سخت جواب دینے کا اعلان کیا ہے مگر تاحال کرمان واقعہ کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکوں کا امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے دعوئوں کو ہم مسترد کرتے ہیں ۔نیز واقعہ کے ذمہ داروں کا فوری تعین کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ انھوں نے اِس واقعہ کو ماضی سے ملتا جلتا قرار دیتے ہوئے داعش کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا جس سے ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ خطے میں ایک بار پھر ازسر نو مسلکی اختلافات کی بنیا دپر مسلم ممالک کوایک دوسرے کے مدِ مقابل لانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر ایسے واقعات علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ایسا خطرہ ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، وگرنہ اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ خطے میں مسلکی آگ بھڑکانے سے مسلم ممالک کمزور اور اُن کے وسائل ضائع ہوں گے۔ افغانستان کودہشت گردی کا منبع و مرکز بننے سے روکنے کے لیے پاکستان اور ایران کو دوطرفہ تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ شدت پسند عناصر مسلم ممالک کے وسائل کو ضائع نہ کر سکیں ۔اِ س میں پاک و ایران کا ہی بھلا نہیں مسلم اُمہ کی بھی مضبوطی ہے۔