کراچی میں کتنے آدمی ہیں؟
شیئر کریں
پہلی جماعت کے ایک بچے کو کئی روزسے ایک سے دس تک گنتی بھی صحیح طرح سے یاد نہیں ہو پارہی تھی ۔ بالآخر اُستانی نے تنگ آکر بچے سے پوچھا ’’ کیا آپ کے گھر میں کوئی ایسے شئے ہے ،جو تعداد میں دس ہوں؟‘‘۔بچے نے اثبات میں سرہلاتے ہوتے ہوئے فوراًہی کہا’’جی ہاں مس! ہمارے گھر میں مرغی کے دس عدد چوزے ہیں ‘‘ ۔اُستانی نے بچے کو پیار سے پچکارتے ہوئے کہا’’پھر تو مسئلہ ہی حل ہوگیا، آپ اپنے چوزوں کے نام گنتی پر رکھ لو ،اس طرح تمہیں ایک سے دس تک گنتی بہت آسانی سے یاد ہوجائے گی‘‘۔ بچے نے کہا’’جی اچھا!‘‘اور پلٹ کر واپس اپنی کرسی پرجابیٹھا۔ اگلے روز اُستانی نے اُس ہی بچے کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ایک سے دس تک گنتی سنانے کو کہا۔بچے نے بھی اُستانی کے حکم کے عین مطابق بھرپور اعتماد کے ساتھ فوراً ہی بلند آواز سے گنتی سنانا شروع کردی’’ایک، دو ،تین ،چار ،پانچ ،چھ ،نو اور دس ‘‘۔ بچہ جیسے ہی خاموش ہوا اُستانی نے غصے سے کہا’’سات اور آٹھ کہاںگئے‘‘۔ بچے نے منہ بسورتے ہوئے غمزدہ لہجے میں جواب دیا ’’مس! کل رات کو سات اور آٹھ کو بلی کھاگئی تھی ‘‘ ۔قارئین جس طرح پہلی جماعت کے بچہ کے دوعدد چوزوں کو بلی کھاگئی تھی۔ سیاسی حالات و واقعات دیکھ کر ہمیں بھی کچھ کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے حالیہ مردم شماری میں سے کراچی کی آبادی کو بھی کوئی ’’سیاسی بلی‘‘ کھا گئی ہے ۔بس اَب معلوم یہ کرنا ہے کہ وہ مردم خور ’’سیاسی بلی ‘‘تھی کس کی ؟۔جو مردم شماری میں کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو چٹ کرگئی ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کا اصرار ہے کہ وہ بلی سندھ حکومت کی پالی ہوئی ہے جس نے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو اپنا لقمہ تر بنالیا ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کا اصرار بلکہ الزام ہے کہ مردم شماری کرنے والے ادارہ شماریات کے اہلکاروں کی’’انتظامی بلی ‘‘ نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کی بھی بہت سی آبادی کو اپنی خوراک بنا لیاہے۔
حیران کن طور پر سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ محمد نعیم کا دعوی ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم سے کم دکھانے کے ’’سیاسی جرم ‘‘ میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی برابر کی شراکت دار ہے ۔ حافظ محمد نعیم کے مطابق تینوں جماعتوں کا سیاسی مفاد ہی اس با ت کو یقینی بنانے میں ہے کہ کسی طرح آئندہ کے بلدیاتی اور قومی انتخابات تک کراچی کی اصل آبادی کسی بھی صورت ظاہر نہ ہونے پائے کیونکہ اگر کراچی کی اصل آبادی سرکاری دستاویز میں ظاہر ہوجاتی ہے تو مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کو اپنی اپنی جگہ زبردست نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ بظاہر حافظ نعیم کا یہ سیاسی دعوی عجیب و غریب اور ناقابل یقین معلوم ہوتاہے۔لیکن اگر بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو ذرا سی بھی عقل و شعور رکھنے والے شخص کے لیے اُن کی بیان کردہ دلیل کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں بچتا ۔کیونکہ سچ تو واقعی یہ ہی ہے کہ کراچی کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات شہر کراچی کی آبادی کم دکھانے ہی سے وابستہ ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کراچی کی آباد ی واقعی ایک کروڑ کے بجائے تین کروڑ تک نکل آتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے لیے اگلے انتخابات میں اپنی انتخابی فتوحات کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اس لیے بھی کراچی کی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار تک ہی محدود رکھنا چاہے گی کہ کراچی کی آبادی بڑھنے سے وزیراعلیٰ سندھ بننے کے لیے درکار نمبر گیم اس قدر بگڑ سکتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ سندھ کے منصب تک پہنچنا مشکل سے مشکل تر ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔
مگر یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر! ایم کیو ایم پاکستان کیوں چاہے گی کراچی کی آباد ی جتنی حالیہ مردم شماری میں ظاہر ہورہی ہے بس اُتنی ہی رہے ؟۔دراصل ایم کیوایم پاکستان سمجھتی ہے کہ کراچی کے جو حلقے اس وقت بنے ہوئے اُن میں،سابقہ سیاسی تجربے کی بنیاد پر اگلے انتخابات لڑنا زیادہ سہل ہوگا ۔جبکہ فوری طور پر ازسرِ نو مردم شماری منعقد ہونے سے کراچی کی آبادی کئی گناتک بڑھ جاتی ہے تو پھر کراچی کے پرانے انتخابی حلقے برقرار نہیں رہ پائیں گے ۔سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ کثیر تعداد میں نئے اور مختصر انتخابی حلقے وجود میں آجانے سے جماعت اسلامی ،پاک سرزمین پارٹی اور تحریک لبیک جیسی سیاسی جماعتوں کے بھی باآسانی بہت سی انتخابی نشستیں جیتنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ شاید ہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم پاکستان ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ازسرنو مردم شماری کروانے میںغیر ضرور تساہل اور سیاسی لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں جبکہ جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کے لیئے کافی مدت سے سیاسی جدوجہد ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ یہ دونوں جماعتیں مستقبل قریب میں ملک گیر سیاسی تحریک چلانے کا نیک ارادہ بھی رکھتی ہیں ۔
اہلیان کراچی کے لیے کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ عرو س البلاد میں گزشتہ چالیس برسوں سے اپنی سیاست چمکانے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والی تمام سیاسی جماعتیں اہلِ کراچی کی بالکل درست گنتی بھی نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ شاید انہیں خوف لاحق ہے کہ اگر اہلیان کراچی تعداد میں زیادہ نکل آئے تو پھر انہیں مالی وسائل میں حصہ بھی زیادہ دینا پڑے گا اور اقتدار و اختیار میں سیاسی مناصب بھی زیادہ دینے پڑجائیں گے۔ سب سے بڑی ممکنہ سیاسی مصیبت تو یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ شہر کراچی پر اہلیانِ کراچی کا اپنا راج بھی قائم ہوسکتاہے۔ چونکہ اس طرح کی صورت حال اِس وقت کراچی شہر پر حکمرانی کرنے والوں کے اپنے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ۔لہٰذا غالب گمان یہ ہی ہے کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ ہے ،ہوسکتاہے کہ دو کروڑ ہویا یہ بھی امکان ہے کہ تین کروڑ ہو ۔بہرحال کراچی کی اصل آبادی چاہے جتنی بھی ہو مگر کروڑوں کی آبادی والے اس بدنصیب شہر میں قائد اور رہنما ایک بھی موجود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔