ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسران جعلی ادویہ سازاداروں کے سرپرست بن گئے
شیئر کریں
رپورٹ (باسط علی ) پاکستان میں جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والو ں کی کوئی کمی نہیں ۔ بدقسمتی سے دیگر دوسرے غیر قانونی کاموں کی طرح یہ کام بھی حکومتی اداروں کی ناک کے نیچے اور ان کی سر پرستی میں کیا جارہاہے۔ اگر چہ وزارتِ صحت نے جعلی ادویات بنانے اوران کی فروخت کی روک تھام کے لیے 18؍مئی 1976کو ہی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت ایک ادارہ قائم کر لیا تھا اور 2012میں اس قانون میں کچھ ترامیم بھی کی گئی تھیں، جس کا اولین مقصد ملک بھر میں ادویہ ساز اداروں، تھوک فروش، خوردہ فروش اور تقسیم کنندگان کی نگرانی کرنا تھا۔ لیکن دیگر بہت سے اداروں کی طرح اس ادارے کے کچھ بدعنوان افسران نے اپنے اختیاات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یوں ادویہ ساز اداروں کی نگرانی کے لیے قائم ادارہ ہی عملاً اپنے کچھ حریص اور بدعنوان افسران کے باعث جعلی ادویات اور اس کی منظم تقسیم کا سرپرست بن چکا ہے۔
عدنان رضوی تیرہ سال قبل جونیئر افسر کی حیثیت سے بھرتی ہوااور چند سالوں میں ارب پتی بن گیا، سیکریٹری صحت کے دفتر میں ہیر پھیر کے باعث عدنان رضوی کو ’’بریف کیس کھلاڑی ‘‘ کہا جاتا ہے
جعلی ادویہ ساز اداروں کی سرپرستی اور میڈیکل اسٹورز سے رشوت کی مد میں لاکھوں روپے لے کر انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت دینے والے ایسے ہی چند ضمیر فروش افسران میں ایک نام ریجنل ڈرگ انسپکٹر سندھ عدنان رضوی کا بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق خود کو سیکریٹری صحت عثمان چا چڑ اور وزیر صحت کا چہیتا بتانے والا عدنان رضوی اکثر ان شخصیات کے دفترمیں پا یا جاتا ہے۔ سیکریٹری صحت کادفترعملاً مذکورہ افسر کی منفعت بخش سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ عدنان رضوی سیکریٹری صحت کے دفتر کو اپنی حرص آلود سرگرمیوں کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جس کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ عدنان رضوی دوا ساز کمپنیوں کے مالکان کو فون کرکے سیکریٹری صحت کے دفتر میں بلاتا ہے اور انہیں دکھانے کے لیے ’’ بریف کیس‘‘ اندرلے جا کر سیکریٹری صحت کے پی اے اورر’’لین دین‘‘ میں عدنان رضوی کے دست راست نعیم خانزادہ کے حوالے کرکے باہر آجاتا ہے، اور کمپنی کے نمائندے کو یہ ظاہر کرتا ہے جیسے یہ ساری سرگرمیاں سیکریٹری صحت کی ایماء پر جاری ہیں۔ واضح رہے کہ ادویہ ساز اداروں میں اپنی اس ہیر پھیر کے باعث عدنان رضوی کو ’’بریف کیس کھلاڑی ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سیکریٹری صحت کے دفتر میں جاری ان سرگرمیوں کے حوالے سے یاتو وہ آگاہ نہیں یا پھر وہ دانستہ ان سرگرمیوں سے خود کو لاعلم ظاہر کیے بیٹھے ہیں۔ اگر سیکریٹری صحت عثمان چاچڑ ان سرگرمیوں میں ملوث نہیں تو پھر اُن کے دفتر میں ریجنل ڈرگ انسپکٹر کے منفعت بخش منصب پر براجمان ملک بھر میں بدعنوانی کے حوالے سے بدنام عدنان رضوی کی آزادانہ سرگرمیوں کا مطلب آخر کیا ہے؟
ریجنل ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی تیرہ سال قبل جونیئر افسر کی حیثیت سے بھرتی ہوا تھا۔ مگر اب وہ چند ہی سالوں میں ارب پتی بن چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھینس کالونی میں ممنوعہ انجکشن کی فروخت کا معاملہ ہو، یا کراچی اور اندورن سندھ میں جعلی ادویات کی تیاری اور خرید و فروخت، ہر کام اس کی سرپرستی میں ہورہا ہے ۔
ریجنل ڈرگ انسپکٹر سندھ عدنان رضوی خود کو سیکریٹری صحت عثمان چا چڑ اور وزیر صحت کا چہیتا بتاتا ہے،وہ سیکریٹری صحت کے دفتر کو اپنی حرص آلود سرگرمیوں کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے
جرأت کو مہیا کی جانے والی دستاویزات اور ثبوتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جعلی ادویات اور اس کی تقسیم میں ملوث تمام جعلسازوں سے عدنان رضوی کے براہِ راست اور کھلے روابط ہیں۔ ایک ریجنل ڈرگ انسپکٹر کا جعلی ادویہ ساز افراد کے ساتھ حریفانہ تعلق کے بجائے کھلے دوستانہ روابط کا مطلب پاکستان میں دولت کے ناجائز حصول کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے؟ اسی تعاون پر ہر جعلسازی کے کام میں ان افراد کو عدنان رضوی کی سرپرستی حاصل ہے اور انہی پیسوں کی بدولت عدنان رضوی اپنے اور اپنے گھر والوں کے نام پر اربوں روپے کی جائیدادیں بنا چکاہے۔(اس حوالے سے بہت جلد دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ایک مفصل رپورٹ شاملِ اشاعت کی جائے گی)۔
عدنان رضوی کا موقف دینے سے انکار
عدنان رضوی سے اس رپورٹ اور آئندہ اشاعتوں کے لیے نئے حقائق سے متعلق تفصیلی موقف جاننے کے لیے نمائندہ جرأت کی جانب سے پیشہ وارانہ ذمہ داری کے تحت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر موقف دینے سے انکار کردیا کہ سیکریٹری ہیلتھ نے اُنہیں میڈیا سے گفتگو کرنے سے منع کیا ہے، تاہم اگرآپ چاہیں تو بروز پیر مجھ سے میرے دفتر میں ملاقات کرسکتے ہیں۔ ہم وہاں بیٹھ کر بات کرلیں گے۔
عدنان رضوی کے مالیاتی مقاصد کے لیے اپنے اختیارات سے تجاوز کی داستانیں اکثر اس میدان میں گردش کرتی سامنے آتی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال گزشتہ ماہ اورنگی ٹاؤن ساڑھے گیارہ منصور نگر میں و اقع ایک مطب پر ہونے والی کارروائی ہے، جس میں عدنان رضوی نے اس علاقے کے ڈرگ انسپکٹر کے علم میں لائے بناچھاپہ مار کر کھانسی کے شربت اور دیگر ادویات کو سیل کردیا ، جب کہ قانون کی رُو سے علاقے کے ڈرگ انسپکٹر کو علم میں لائے بنا کارروائی نہیں کی جاسکتی، خود سیکریٹری صحت عثمان چاچڑ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مذکورہ ڈرگ انسپکٹر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مذکورہ علاقے میں تعینات ڈرگ انسپکٹر کو اس کارروائی سے لاعلم رکھا۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا مقصد بالا ہی بالا معاملات کو طے کرنا ہوتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدنان رضوی کی کرپشن کا سلسلہ یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ گزشتہ سال اس نے سپریم کورٹ سے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا کہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کراچی کے پاس انجکشن کی ٹیسٹنگ کی سہولت نہیں ہے، جب کہ محکمۂ صحت کے 13؍مئی2014کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن (SOCI (H) 904/2014) کے مطابق محکمۂ صحت سندھ نے سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو بھی انجکشن کی ٹیسٹنگ کا اختیار دیا ہوا ہے۔ اور یہ لیبارٹری گزشتہ چار سالوں سے پورے سندھ میں انجکشن کی ٹیسٹنگ کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عدنان رضوی نے سپریم کورٹ کو اس بات سے مکمل اندھیرے میں رکھا۔
عدنان رضوی نے اورنگی ٹاؤن ساڑھے گیارہ منصور نگر میں و اقع ایک مطب پر گزشتہ ماہ ہونے والی کارروائی میں اس علاقے کے ڈرگ انسپکٹر کے علم میں لائے بناچھاپہ مار کر کھانسی کے شربت اور دیگر ادویات کو سیل کردیا ، جب کہ قانون کی رُو سے علاقے کے ڈرگ انسپکٹر کو علم میں لائے بنا کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
سپریم کورٹ نے عدنان رضوی کی بات پر یقین کرتے ہوئے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کراچی ، سندھ کو مکمل فنکشنل بنانے کے احکامات جاری کردیے۔ محکمۂ صحت سندھ نے 20؍جولائی 2018کو ایک نوٹی فکیشن (HD(P&E) 6 (77)/2018جاری کیا جس میں عدنان رضوی کو چیئر مین ، ڈرگ انسپکٹر ساجد شیخ اور ڈرگ انسپکٹر نفیس الرحمان کو رکن نامز د کیا گیا۔ اس کمیٹی کی تشکیل میں بھی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عدنان رضوی کی ایما پر دو غیر سرکاری افراد ( ساجد شیخ، نفیس الرحمان) کو سرکاری ملازم اور ڈرگ انسپکٹر ظاہر کیا گیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن ، حیدرآباد نے 8؍مارچ 2018کو ایک نوٹی فکیشن (PSC-EXAM:S.S)2018/136) جاری کیا جس میں دیگرفارماسسٹ کی طرح ساجد شیخ ولد شیخ عبدالحافظ اور نفیس الرحمان قریشی ولدمقبول الرحمان قریشی کو ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر تقرر کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا تھا۔
عدنان رضوی نے فنڈز کی مد میں ملنے والی رقم ہڑپ کرنے کے چکر میں دیگر کئی سینئر ڈرگ انسپکٹرز کو نظر انداز کرتے ہوئے ان افراد کو کمیٹی میں شامل کروادیا جو اس وقت تک کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں تھے، جب کہ قواعد کے مطابق سرکاری افسر ہی ایسی کسی کمیٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ اپنی اس فاش غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے عدنان رضوی نے نوٹی فکیشن (HD(P&E) 6 (77)/2018 جاری ہونے کے چارماہ بعدیکم نومبر 2018 کو نوٹی فکیشن نمبر (SO.CI(H)SPSC/DRUG INSP/2018) کے ذریعے ان دونوں کے ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر تقرر نامے جاری کروائے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فنڈز کی مد میں ملنے والی رقم میں سے 12لاکھ روپے عدنان رضوی نے رکھے اوربقایا پیسے ایک ڈاکٹر کے ہاتھوں سیکریٹری صحت کو دے دیے گئے۔ حال ہی میں پنجاب کے ایک ڈرگ انسپکٹر نے اسی طرح بوگس کمیٹی بنا کر ساڑھے اٹھارہ کروڑ روپے کی کرپشن کی تھی جس پر نیب نے اس کے خلاف کارروائی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فراڈکی انکوائری نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن میں بھی بھیجی جاچکی ہے۔ بھینس کالونی میں کینسر کا سبب بننے والے ممنوعہ انجکشن اور دیگر ادویات کی فروخت کی اجازت دینے اور اقربا پروری کی نئی مثالیں قائم کرنے والے عدنان رضوی اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے دیگر رشوت خور افسران کے بارے میں چشم کشا حقائق کل ان ہی صفحات کی زینت بنیں گے۔