اسلامی ریاست جیسا انصاف کا ادارہ ہمارے ہاں میسر نہیں، چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر عدلیہ کا ادارہ ناکام رہا تو معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، جس معیار کے انصاف کا ادارہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے ۔چیف جسٹس نے لاہور انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے مواقع پر میں بات کرتا ہوں کہ قوم کیسے ترقی کرتی ہے ، میںتین بنیادی چیزیں دیکھتا ہوں جو قوم بناتی ہیں، جس میں پہلی تعلیم، دوسری بہترین لیڈرشپ اور تیسری چیز انصاف کی فراہمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے لیکن دکھ اور تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں اسلامی ریاست جیسا انصاف کا ادارہ میسر نہیں،ہمیں انگریز نے جو قانون دیا وہ ہمارے مذہب ،کلچر اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، اگر اس قانون کو ہم آہنگ کرنا ہے تو اسے اپ ڈیٹ کرنا لازمی ہے،اللہ تعالیٰ نے جو حقوق تفویض کیے اگر ان کا تحفظ نہیں ہو گا تو معاشرہ کبھی توازن قائم نہیں رکھ سکتا ،تعلیم کے ذریعے قومیں بنتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک میں تعلیم کے شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے ا سکولوں میں گیا تو وہاں پر پہلے اسکول ہی نہیں اور جہاںا سکول ہیں وہاں چار دیوار، واش روم، پینے کا پانی اور اساتذہ ہی نہیں ،کیا اسے نظام تعلیم کہتے ہیں؟ا سکولوں میں وڈیروں کی بھینسیں، گائے بندھی ہوئی ہیں او ربھوسا بھرا ہوا ہے ۔ سوچتا رہتا ہوں کہ قومیں کیسے بنتی ہیں، کیسے ترقی یافتہ معاشرے بنتے ہیں، تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا،عالمی برادری میں با وقار قوم اور معاشرہ بننے کیلئے اخلاص کی ضرورت ہے، کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد تعلیم پر ہے، تعلیم کے شعبے کو نظرانداز کیے جانے پر مایوسی ہے۔اپیل ہے کہ تعلیم اور صحت کو پیسہ کمانے یا کاروبار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔انہوںنے کہا کہ کسی ملک کی دیانتدار قیادت ہی اسے ا وپر لیکر جاتی ہے ۔ کسی قوم کے پاس دیانتدار اور اپ رائٹ لیڈر ہے تو معاشرے اور ریاست کو زوال سے کمال کی جانب لے جاتا ہے ۔ دنیا میں بہترین ریاست واقعتا مدینہ کی ریاست تھی اس میں کیا کیا خوبی تھی کیا ہم میں بھی وہ خوبیاں ہیں ۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا ، جو وہ اپنے لیے پسند کرتے تھے وہی دوسرے کے لیے پسند کرتے تھے جو دوسروں کی ذمہ داریاں تھیں سب سے پہلے اس کا اپنے اوپر اطلاق کرتے تھے ،کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی بہترین لیڈر شپ ہے جو با کردار ہو ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر ، وکیل ، جج یا مزدور ہے اسے جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں انہیں ایمانداری سے سر انجام دے ۔ ہمیں پاکستان سے عشق کرنا ہے ،محبت کرنی ہے ۔ جو ہمارا حق ہے ہم نے اس سے بڑھ کر کر نا ہے اور قوم کو دینا ہے ۔ ہمیں جو اوپر والے نے عنایت کیا ہے ہم نے اس میں سے دینا ہے کیا میرا یہ حق تھا کہ میں چیف جسٹس آف پاکستان بنوں ، یہاں جو ارب پتی ہیں بیشک ان کی محنت ہے لیکن یہ اوپر والے کی دین ہے ۔ اگر ہمارے پاس علم ہے تو اسے بانٹیں ، ملک سے وفاداری کریں دیکھیں پھر ترقی کی منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں اگر ہم جنون کے ساتھ کریں گے تو ترقی کی منازل آسان تر ہو جائیں گی اور یہ حوصلے کی بات ہے ۔