میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ کو خود امریکی بھی مسخرہ قرار دیتے ہیں

ٹرمپ کو خود امریکی بھی مسخرہ قرار دیتے ہیں

منتظم
اتوار, ۷ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ یعنی بدی جن کی خصلت بن گئی ہو ان کو بدی کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ پر اس محاورے کا اطلاق پوری طرح ہوتا ہے۔ یہ وہ صدر ہیں جن کو خود امریکی بھی مسخرہ قرار دیتے ہیں لیکن امت مسلمہ کے لیے یہ مسخرہ خطرناک ترین ہے۔ بات صرف پاکستان کی نہیں، مسٹرٹرمپ پوری امت مسلمہ کے دشمن ہیں۔ ویسے تو ان کے پیشرو بھی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں رہے لیکن ٹرمپ نے تمام حدیں پار کر دی ہیں اور خود اعتراف کیا ہے کہ ان کے پیش رو بزدل تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ بزدل نہیں تھے بلکہ منافقت کا نقاب چڑھا رکھا تھا اور مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہاتھ دستانوں میں چھپا رکھے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ماضی بھی جارحیت اور غصے میں پاگل ہو جانے سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے پیشرو بش جونیر نے اپنے خطاب میں صلیبی جنگ کا حوالہ دیا تھا جس میں پوری عیسائی دنیا کو شکست فاش ہوئی تھی۔ بش نے تو اس پر معذرت کرکے منافقت کا مظاہرہ کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کھلم کھلا صلیبی جنگ پر کمربستہ ہیں۔ قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان فلسطینیوں یا کسی ایک ملک کے خلاف نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے خلاف ہے۔ لیکن ٹرمپ کی چالاکی ہے کہ اس نے کچھ مسلم ممالک کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔

گزشتہ دنوں ٹرمپ نے کھل کر سعودی عرب کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جو سعودی عرب کا دشمن ہے وہ امریکا کا دشمن ہے۔ یہ ایک طرح سے ایران کو انتباہ تھا، لیکن اسرائیل کے پشت پناہ امریکا کا کسی مسلم ملک سے اظہار یکجہتی کرنا بلکہ پشت پناہی کا اعلان کرنا خود اس مسلم ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے اختلافات بہت پرانے ہیں ،لیکن اس تنازع میں امریکا کا کودپڑنا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے اور امریکا اپنے پرانے بدلے بھی چکانا چاہتا ہے اور ایک مسلم ملک کو بحران میں مبتلا کرنا اصل مقصد ہے۔ کاش! ایسے میں مسلم عرب ممالک عجم و عرب جھگڑا ایک طرف رکھ کر امت کے نام پر متحد ہو جائیں ورنہ یہ کوئی راز نہیں کہ ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک امریکا اور اسرائیل کی زد میں آئیں گے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اسرائیل کا دعویٰ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ یہودیوں کا وطن ہے۔

امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آچکا ہے اور پاکستانی حکمرانوں نے امریکی حملے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے تاہم حکمرانوں نے امریکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور یقینی طور پر پوری قوم اس عزم میں شریک ہے۔ گزشتہ جمعرات کو امریکا نے اور آگے بڑھ کر پاکستان کی سیکورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی کے ساتھ پاکستان کو ان ممالک میں شامل کر لیا جہاں مذہبی آزادی نہیں ہے۔ فی الحال تو واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے تاہم دیگر ممالک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تو مذہبی آزادیاں پامال کر ہی رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر امریکا کی اس فہرست میں نہ بھارت شامل ہے نہ اسرائیل۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ممالک امریکا کے دوست ہیں۔ لیکن ان دونوں ممالک میں کھلم کھلا مذہبی آزادیاں پامال ہو رہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے لیے امریکا کے چشمے مختلف ہیں بھارت نے اپنے مسلمان شہریوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور بہانے سے ان کی ہر قسم کی آزادی سلب کررہاہے۔ہندوؤں کی ماتا گائے کو کاٹنے کے جھوٹے الزامات لگا کر کئی مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ مندروں سے افواہ پھیلائی گئی کہ فلاں مسلمان کے ریفریجریٹر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے اور پھر دہشت گرد ہندوؤں نے اس مسلمان کو بے رحمی سے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا حالانکہ وہ سرکاری ملازم تھا ایسے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں صرف مذہبی منافرت کی بنا پر بھارتی شہری مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔

تاریخی بابری مسجد محض مذہبی منصب کی وجہ سے مسمار کی گئی اور آئے دن مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا اعلان سامنے آتا ہے۔ اب بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے عائلی قوانین میں بھی مداخلت کر دی ہے۔ مسلمان ہی کیا ہندو انتہا پسند تو خود ہندودلتوں، ہریجنوں کے خلاف کئی صدیوں سے مذہبی منافرت کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں جس کی تفصیلات انتہائی خوف ناک ہیں۔ کیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے؟ اور امریکی لے پالک اسرائیل کی تو کیا بات کی جائے کہ اسے ہر جرم معاف ہے ورنہ مذہبی آزادیوں کا اس سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں۔ پاکستان پر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے تنقید سے شبہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے قادیانیوں کا ہاتھ ہے جو اس بہانے سے دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کر لیتے ہیں حالانکہ سابق وزیراعظم نواز شریف تو قادیانیوں کو اپنا بھائی قرار دے چکے ہیں یہ اور بات کی قادیانی اپنے سوا دوسروں کو مسلمان ہی نہیں مانتے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی طرح سے امریکا کے لیے نرم گوشہ رکھنا قومی جرم ہوگا۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں