پارٹی الیکشن آئینی تقاضا اور ضرورتیں
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
عجلت میں سہی تحریکِ انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس کے مطابق چیئرمینی کامنصب بیرسٹر گوہر علی خان کے حصے میں آیاہے یادرہے کہ پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق چیئرمین ہی اختیارات کااصل مرکز ہوتا ہے۔ یاسمین راشد پنجاب ،علی امین خیبرپختونخوا، منیراحمد بلوچ بلوچستان جبکہ حلیم عادل شیخ سندھ کے صوبائی صدورمنتخب ہوگئے ہیں۔ مزید قابل ِ ذکربات یہ کہ عمر ایوب خان کو نامعلوم مقام پر ہونے کے باوجودجماعت کا مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا۔نتائج کا اعلان پارٹی انتخابات کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے پشاور میں بنے پولنگ سینٹر سے کیا۔پارٹی چیئرمین بننے کے بعد پہلے خطاب میں بیرسٹرگوہر نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ اپنی گاڑیاں واپس نہ کریں بلکہ ہمارے رہنما رہا کریں۔ بظاہرانٹراپارٹی انتخابی عمل بلے کانشان بچانے کی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اِس کے باوجود انفرادیت یہ ہے کہ جماعت اِسلامی کے بعد تحریک ِ انصاف ملک کی واحدسیاسی جماعت کے طورپر سامنے آئی ہے جس نے موروثی سیاست کا خاتمہ کیاہے۔ موجودہ حالات جیسا وقت جب ن لیگ پر آیا تو بھائی ،بیٹی اور بھتیجے کے حصے میں پارٹی کے اہم ترین عہدے آگئے۔ اب تحریکِ انصاف کو بھی چاہے مجبوراً جماعت کے چیئرمین کو سائیڈ لائن کرنے جیساکڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے مگر مواقع کے باوجودبیوی ،بہن یا کسی اور رشتے دار کو آگے نہیں لایا گیا بلکہ چیئرمین جیسے اہم منصب پر قانونی موشگافیوں کے ماہر آگے لایاگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیانئے چیئرمین کے انتخاب سے تحریکِ انصاف پر ابتلا کا کڑا وقت نرم ہو سکتا ہے؟ اگربیرسٹر گوہرعتاب کا شکار جماعت کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں توانٹراپارٹی الیکشن کی چال بھی بے معنی ہوکررہ جائے گی۔ علاوہ ازیں یہ خیال کرنا کہ جماعت کے اہم منصب کے ساتھ ووٹ بینک بھی حصے میں آگیا ہے ٹھیک نہیں ہو گا۔ سچ یہی ہے کہ ووٹ بینک آج بھی عمران خان کا ہے کوئی نومنتخب عہدیدار ایسی کوشش کرتا ہے تو اکبر ایس بابر کی طرح جماعت کی ناپسندیدہ ترین شخصیت بن کررہ جائے گا۔
تحریک ِا نصاف کے الیکشن کو سلیکشن قراردیتے ہوئے سابقہ دیرینہ ناراض ساتھی اکبر ایس بابر نے چیلنج کرنے کا اعلان کیاہے حالانکہ اُنھیں فارن فنڈنگ کیس اُچھالنے اور جماعت کو بدنام کرنے کی مُہم کی پاداش میں کئی برس قبل جماعت سے نکال باہرکر دیا گیاتھا اور اب اُن کا جماعت کی سرگرمیوں سے کوئی لینادینا نہیں کیونکہ پی ٹی آئی میں اُنھیں مخالفین کا مُہرہ تصورکیا جاتاہے لیکن حیران کُن طور پر وہ جماعتی الیکشن میں گُھسنے کے لیے کوشاں دکھائی دیے جس سے ایسے تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ اُن کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں جس پر وہ حرکت میں آتے ہیں۔ تحریک ِ انصاف کے پارٹی الیکشن پر دیگر سیاسی جماعتوں کے تبصرے باعثِ تعجب ہیں ۔ن لیگ کی مریم اورنگزیب کہتی ہیں ووٹر تھے نہ پریزائیڈنگ آفیسر ،بس دھاندلا ہواہے جبکہ تحریک ِاستحکام جیسی گم نام جماعت کی فردوس عاشق اعوان اورپی پی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور تحریکِ انصاف سے الگ دھڑا بنانے والے پرویز خٹک بھی تنقید میں پیش پیش ہیں جن کا پی ٹی آئی سے تعلق ہی نہیں وہ کیوں پریشان ہیں؟بظاہرایساتاثر ہے کہ اکثرسیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے خائف اور اُسے انتخابی اکھاڑے سے باہر کرنے کی آرزومند ہیں۔ مبادا دوبادہ اہم حیثیت نہ حاصل کر لے، اسی لیے پارٹی الیکشن پرسبھی جماعتیں ناخوش ہیں کیونکہ بلے کا نشان ملنے کا امکان پیداہو گیا ہے۔ ایک مقبول جماعت سے خائف سیاسی جماعتوں کا صحت مندانہ مقابلے سے گھبراناہرگزمناسب نہیں ۔ یہ طرزِ عمل اختلافِ رائے کو برداشت کرنے جیسے جمہوری وصف کے منافی ہے کسی کو برداشت نہ کرنااور خاتمے کی کوشش حیوانی جبلت ہے ، اسی بناپر اِس رویے کو جمہوریت پسند حلقے ناپسندیدہ تصورکرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی قیادت سے پہاڑ سی غلطیاں ہوئیں نہ صرف اِداروں سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کی بلکہ مقبولیت کاگھوڑا دوڑاتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفے دینے اوراپنی ہی صوبائی حکومتیں ختم کرنے جیسے بلنڈر کیے گئے۔ اسی بناپر آج اِس مقبول جماعت کے لیے اپناسیاسی وجود برقرار رکھنادوبھر ہے۔ خیر اِس سسکتی و تڑپتی جماعت پر کوئی کیونکر ترس کھائے جب یہ خود گڑھے میں گرنے پر بضدہے ۔حالات وواقعات کا تقاضا ہے کہ جماعت کی قیات کسی نرم مزاج ایسے شخص کو سونپی جائے جو نہ صرف موجودہ گرداب سے نکال سکے بلکہ اِداروں کی ناپسندیدگی کاتاثرختم کرے۔ اگر بیرسٹر گوہر جماعت کی مذکورہ بالا ضرورتیںپوری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو جلد بدیر تحریکِ انصاف دوبارہ سیاسی منظرنامے پر اہم حیثیت حاصل کر سکتی ہے لیکن اِداروں سے ٹکرائو کی پالیسی برقرار رکھنے سے سے نہ صرف شیرازہ ہمیشہ کے لیے بکھر جانے کا امکان ہے بلکہ پارٹی کے بانی اوراصل چیئرمین عمران خان کے لیے ازسر نودوبارہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے راستے بھی بند ہوسکتے ہیں۔
انٹراپارٹی الیکشن آئینی تقاضا ہے جسے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بمشکل اور بادل نخواستہ پورا کرتی ہیں یہ بالکل ایسا ہی ہے جس طرح اراکینِ پارلیمنٹ کو مخصوص عرصے میں اثاثوں بارے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اِس دوران زیورات،گھر،گاڑی اور دیگر جائیدادوں کی جو مالیت بتائی جاتی وہ جانے کِس سیارے پررائج ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ملک کے کسی حصے میں ایسے ریٹ کہیں نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ آئینی تقاضا پوراکرنے کی رسم کے سوا کچھ نہیں ہوتا لیکن دھول جھونکنے کے لیے جھوٹ بولنے کی یہ ایسی رسم بن چکی ہے جس کی تمام جماعتیں پاسداری کرتی ہیں۔ ماضی میں تحریکِ انصاف نے بھی جماعت میں اُسی طرح انتخابات کرائے جس طرح دیگرسیاسی جماعتیں کراتی ہیں مگر ضابطے میںکمی کی نشاندہی صرف تحریکِ انصاف کے الیکشن پر ہوئی ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ایک بارپھر انتخابی عمل کی رسم ادا کردی گئی ہے اگر ملک کی بڑی جماعتوں کو دیکھا جائے تو کسی بھی جماعت میں صدر یا اہم عہدیداروں کے مقابلے پرکوئی سیاسی کارکن آنے کی ہمت نہیں کرتا ۔اسی بناپر تحریکِ انصاف کا انتخابی عمل حیران کُن نہیں اسی لیے تو کچھ عہدیدار سامنے آئے بغیر نامعلوم مقام پر ہوکربھی منتخب ہو گئے ۔ خواجہ آصف نے ماضی میں پی پی کا حصہ رہنے والے بیرسٹر گوہر پرتنقید کی ہے مگر وہ جانے یہ کیوں بھول گئے کہ رانا ثنا اللہ بھی ماضی میں پی پی کے سخت گیر جیالے رہے اور شریف قیادت پرسیاسی جملے بازی کے ساتھ خاندان کے افرادپر بھی نامناسب تنقید کرتے رہے ہیں مگر آج کل آلِ شریف کااِس حدتک اہم حصہ ہیں کہ نہ صرف شریف خاندان کی آنکھ کا تارا ہیں بلکہ جماعت میں بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اِس لیے پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین کا انتخاب اچنبھے کی بات نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر کیا پی ٹی آئی کی ضرورتیں پوری کرپاتے ہیں اگر ایسا معجزہ ہو گیا توہی یہ جماعت سیاسی وجود برقرار رکھ پائے گی، وگرنہ نئے چیئرمین بھی پی ٹی آئی کے لیے ایک اور عثمان بزدار ثابت ہو ں گے۔