میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کانگریس کی ہار میں انڈیا کی جیت ہے!

کانگریس کی ہار میں انڈیا کی جیت ہے!

ویب ڈیسک
بدھ, ۶ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

 

چار صوبائی انتخابات کے نتائج شاہد ہیں کہ کمل نے ہاتھ کو بلڈوزر سے کچل دیا۔ تلنگانہ میں کا نگریس کا مقابلہ بی جے پی نہیں بلکہ بی آر ایس سے تھا ۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ جنوبی ہندوستان کے باہر کانگریس اپنے بل بوتے پر بی جے پی شکست دینے سے قاصر ہے ۔ ہماچل پردیش کو استثناء کے زمرے میں رکھنا پڑے گا۔ ان نتائج میں کانگریس کے لیے عبرت کے کئی پیغامات ہیں۔ سب سے اہم سبق تو اسے بی جے پی سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کسی صورت مایوس نہیں ہوتی ۔ چھتیس گڑھ میں جہاں کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا وہاں بھی مودی اور شاہ نے اپنی ساری طاقت جھونک دی اور عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان لوگوں کی محنت اور کاوش نے کانگریس کے جبڑے سے اقتدارکو چھین لیا ۔ تلنگانہ بھی وہ اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد کو دو سے بڑھاکر آٹھ پر لے گئی اور مدھیہ پردیش و راجستھان میں بہت بڑی جیت درج کرائی ۔ اس طرح کے نتائج بر آمد کرنے کے لیے بڑا حوصلہ اور کڑی محنت درکار ہوتی ہے ۔ بی جے پی کے اس مظاہرے نے کانگریس کے چودہ طبق روشن کردیے۔
کرناٹک کی جیت کے نشے میں چور کانگریس کے لیے یہ نیند سے بیدار ہونے کا الارم ہے ۔ کانگریس نے اگر اس انتخابی شکست کا حقیقت پسندانہ احتساب و جائزہ لے کر اصلاحِ حال کی کوشش کی تو آئندہ قومی انتخاب میں اس کا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی مرتبہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے ریاستی انتخاب میں شکست کے باوجود بی جے پی نے راجستھان کی سبھی سیٹوں پر کامیابی درج کرائی تھی اس لیے وہ اس سے بہتر کارکردگی تو کرنے سے رہی ۔ ایم پی میں کمل ناتھ وزیر اعلیٰ تھے اس کے باوجود چھندواڑہ میں اپنے بیٹے کے علاوہ کسی کو کامیاب نہیں کرسکے تھے اور چھتیس گڑھ سے بھی کانگریس کے صرف دو امیدوار جیت کر ایوان پارلیمان میں گئے تھے ۔ اس طرح ان ریاستوں میں جیت کے باوجود بی جے پی کا تین سیٹوں سے زیادہ کا فائدہ نہیں ہوسکتا مگر کانگریس اگر عقل سے کام لے تو اپنے ارکان پارلیمان میں مزید اضافہ کرسکتی ہے ۔ اس کے لیے اسے کئی محاذ پر بڑے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے ۔
ان نتائج کا اہم سبق یہ ہے کہ کانگریس اپنے بل بوتے پر زیادہ سے نشستیں جیت کر قد اونچا کرنے کے بجائے ‘انڈیا’ نامی محاذ کو اہمیت دے۔ کانگریس نے اس محاذ کو ہلکے میں لے کر اپنی مٹی پلید کرائی ہے ۔ بی جے پی کے خلاف اس متبادل کی جب پٹنہ میں پہلی نشست ہوئی تو عوام میں اس کا بہت مثبت پیغام گیا۔ اس کے بعد بنگلورو میں نام رکھا گیا تو اور بھی جوش بڑھا ۔ ممبئی کی نشست نے تو بی جے پی کو پریشان کردیا اور اس نے بوکھلا کرایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ۔ اس سفر کا اگلا پڑاو مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال تھا ۔ وہ اجلاس اگر منعقد ہوجاتا تو یقیناً ریاست کے لوگوں کو اچھا پیغام جاتا لیکن اس دوران کمل ناتھ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر میدان مارلیں گے ۔ اس بیجا اعتماد کے سبب بھوپال کا اجلاس ٹھنڈے بستے میں چلا گیا اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کانگریس نے اپنے امیدواروں کے تقرر کی خاطر ایک پیشہ ور ایجنسی کی مدد لی اور اس نے سائنٹفک طریقہ پرحلقہ وار جائزہ لے کر امیدواروں کے نام سجھائے ۔ اس فہرست کے مطابق تلنگانہ میں امیدوار کھڑے کیے گئے جہاں کانگریس کو کامیابی ملی مگر کمل ناتھ نے اسے کوڑے دان کی نذر کردیا اور اپنے خاص لوگوں میں ٹکٹ تقسیم کردیے ۔ خوش فہمی کا یہ عالم تھا کہ نتائج سے قبل یہ بھی طے کردیا گیا کہ کسے کون سی وزارت ملے گی مگر نتیجہ نکلا تو پتہ چلا کمل ناتھ کے چہیتے غلام اپنے آقا کو لے ڈوبے ۔ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پارٹی کارکنان سے کہہ دیا کہ وہ دگ وجئے سنگھ کا کرتا پھاڑ دیں ۔ اس کے جواب میں رائے دہندگان نے کمل ناتھ کا پاجامہ تار تار کر دیا۔ اتر پردیش سے متصل مدھیہ پردیش کے علاقوں میں سماجوادی پارٹی کے اثرات ہیں اور ماضی میں اس کے چار امیدوار کامیاب ہوچکے ہیں ۔
اس بار اکھلیش یادو نے صرف پانچ نشستوں کا مطالبہ کیا ۔ ان سے اگر بات چیت کی جاتی تو بعید نہیں کہ وہ تین یا چار پر راضی ہوجاتے مگر کمل ناتھ کمال حقارت سے کہہ دیا”اکھلیش وکھلیش کو چھوڑو”۔
کمل ناتھ کی یہ حقارت اخبارات میں آگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سماجوادی نے نہ صرف ان علاقوں میں کانگریس کو ہرایا جہاں ان کا امیدوار تھا بلکہ دیگر حلقوں میں جو تھوڑے بہت پسماندہ ووٹرس سے انہیں بھی دورکردیا ۔ اس لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کا کارڈ بے اثر ہوگیا۔ کانگریس اس کا کوئی فائدہ تونہیں اٹھاسکی کیونکہ ایک بڑے پسماندہ رہنما کے ساتھ اس کا سلوک آمیز تھا مگر نام نہاد اعلیٰ ذات کے ووٹرز ضرور اس سے دور ہوکر بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے ۔ کمل ناتھ نے کانگریس کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ کی سی کردی ۔ راہل گاندھی ذاتی طور سے کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کے مقابلے راجیش پائلٹ اور جیوتردیتیہ سے زیادہ قریب ہیں مگر کانگریس کی روایت کے مطابق ان کی بزرگی کوڈھونا پڑتا تھا ۔ ان نتائج کے بعد کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کو سبکدوش کر کے مارگ درشک منڈل میں بھیج دینے سے تنظیم کو مضبوط ہوجائے گی ۔ یہ لوگ اب پارٹی پر بوجھ بن چکے ہیں اور ان سے نجات حاصل کرلینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
کانگریس کے ان رہنماوں نے انڈیا نامی محاذ کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا کہ نتیش کمار سے جب اس سے متعلق پوچھا گیا تو وہ بولے کانگریس فی الحال الیکشن لڑنے میں مصروف ہے اور جب اسے فرصت ملے گی تو بات آگے بڑھے گی۔ نتیش کمار نے مدھیہ پردیش میں خود اپنی پارٹی کے دس امیدواروں کو ٹکٹ دے کر کانگریس کا نقصان کیا۔ اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔ کانگریس نے جب خود اپنے عمل سے یہ کہہ دیا کہ انڈیا نامی محاذ کو صوبائی انتخاب سے کولینا دینا نہیں ہے تو وہ اپنے امیدوار کھڑا کرنے میں آزاد ہوگئے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کانگریس کی اس شکست سے بی جے پی جس قدر خوش ہے اس سے زیادہ مسرت انڈیا محاذ کے اندر شامل علاقائی جماعتوں کو ہے کیونکہ اگر تقدیر سے کانگریس جیت جاتی تو اس کی دلچسپی ‘انڈیا’ محاذ سے بالکل ہی ختم ہوجاتی اور وہ اپنی من مانی ان پر تھوپنے لگتی ۔اس طرح بعید نہیں کہ یہ متبادل ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کمل ناتھ اور اشوک گہلوت اس کو مضبوط کرنے کے بجائے منتشر کردیتے لیکن اب راہل گاندھی ان کی سننے کے لیے مجبور نہیں ہیں۔
راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ریاستی اسمبلی انتخاب میں شکست کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ "میں کہتا رہا ہوں کہ عوام سب سے اہم ہیں۔ اسمبلی انتخاب کا نتیجہ حیرت انگیز ہے ۔ کانگریس امید کر رہی تھی کہ عوام کا مینڈیٹ اس کے حق میں ہوگا۔ لیکن ہم ریزلٹ کو عاجزی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ ہم نئی حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے لیے کام کرے گی۔ یہ اچھا بیان ہے لیکن اس کے بعد انہیں پارٹی کی کمان نئی نسل کے حوالے کرکے عملی سیاست سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے ۔ کمل ناتھ نے بھی کہا کہ وہ انتخابات میں خامیوں کا جائزہ لیں گے اور ہارنے و جیتنے والے امیدواروں کے ساتھ بات چیت کریں گے ۔ یہ گفتگو اگر وہ انتخابی مہم کے دوران کرتے تو اچھا تھا۔ اب ان کی اور پارٹی کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ خود سیاست چھوڑ دیں ورنہ راہل انہیں گھر بھیج دیں گے ۔
تلنگانہ کے اندر اپنے حلیف بی آر ایس کی ناکامی کے باوجود اتحادالمسلمین کا قلعہ محفوظ رہا اور وہ اپنی روایتی ساتوں نشستوں پر کامیاب ہوئی اس لیے خصوصی مبارکباد کی مستحق ہے ۔ ایم آئی ایم جس طرح تلنگانہ میں اپنے حلقۂ اثر پر توجہ دے کر کامیابی درج کراتی ہے یہی حکمت عملی اسے ملک بھر میں اختیار کرنی چاہیے ۔ تلنگانہ میں کاما ریڈی ایک ایسا حلقۂ انتخاب تھا جہاں وزیر اعلیٰ کے سی آر اور ان کو چیلنج کرنے والے کانگریس کے صوبائی صدر ریونتھ ریڈی آمنے سامنے تھے ۔ ان کی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی کے مقامی امیدوار وینکٹا رمناریڈی نے دونوں کو شکست دے دی۔ ویسے وہ دونوں بالترتیب گجویل اور کوڈنگل سے کامیاب ہو کر اسمبلی میں آگئے ۔ سبھی سیاسی گھاٹ کا پانی پی کر کانگریس میں آنے والے جیونتھ ریڈی وزارت اعلیٰ کے سب سے طاقتور دعویدار ہیں۔ انہوں نے نتائج کے بعد کہا کہ پارٹی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کی بحالی پر عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی ان کی امنگوں پر پورا اترے گی۔
جیونتھ نے بی آر ایس رہنما کے ٹی آر کی مبارکباد کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں سی پی آئی اور تلنگانہ جن سمیتی سے تعاون کی اپیل کینیز پرگتی بھون کا نام بدل کر باباصاحب امبیڈکر پرجا بھون رکھنے کا اعلان کردیا۔اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ بی جے پی کو جنوبی ہندوستان سے نکال باہر کرنے کی خاطر کانگریس کی دیگر جماعتوں کو ساتھ لینے کی حکمت عملی کام آئی ۔ شمالی ہند میں اس کی کمی نے مسائل پیدا کیے ۔ راہل گاندھی نے تلنگانہ کے سبھی کارکنان کو ان کی محنت اور حمایت کا دل سے شکریہ ادا کرنے سے قبل مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے نتائج کو عاجزی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”نظریات کی جنگ جاری رہے گی۔” مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں یہ بات ثابت ہوگئی نرم ہندوتو کانگریس کے کسی کام نہیں آتا۔ نظریاتی جنگ میں کامیابی کے لیے ملک ارجن کھڑگے کو پارٹی کے اندر تطہیر کی خاطر جرأتمندانہ فیصلے کرکے فاسد رہنماوں کو پارٹی سے نکال پھینکنا ہوگا ورنہ وہ خود اپنے ساتھ حزب اختلاف کے محاذ انڈیا کو لے ڈوبیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں