ایرانی سائنس دان کا قتل
شیئر کریں
(مہمان کالم)
باربرا سلیون
جب اسرائیل نے 2010-12ء کے عرصے میں ایران کے نصف درجن سے زائد ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کروا دیا تو اس قتل عام کے حامیوں کا موقف تھا کہ اس سے ایران کے جوہری پروگرام میں سست روی آجائے گی کیونکہ امریکا کی سفارتکاری اس مسئلے پر زیادہ پیش رفت دکھانے سے قاصرنظر آرہی تھی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی محسن فخری زادہ کا قتل ایک بالکل مختلف تناظر میں ہوا ہے۔ ایران دوبارہ بھاری مقدا رمیں یورینیم افزودہ کر رہا ہے مگر یہ اس سطح کا نہیں ہے کہ اس سے ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکیں۔ ایران کے ان اقدامات کی وجہ ٹرمپ کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ انخلا ہے۔ا س معاہدے کا بنیادی مقصد ایران کو جنوری 2031ء تک اس طرح کا یورینیم افزدوہ کرنے سے روکنا ہے جس سے ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکیں۔ ایران نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اگر جو بائیڈن کی حکومت اس معاہدے کی پاسداری او رصدرٹرمپ کی طرف سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں ہٹانے کااعلان کرتی ہے تو وہ بھی اس معاہدے پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔
اب محسن فخری زادہ کا قتل کیوں ہوا ہے؟ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر ہر وہ اقدام کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں جس سے نومنتخب صدر جو بائیڈن ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے کسی قسم کی سفارتی کوشش نہ کر سکیں۔ اسرائیل اور امریکی حکومت کو خدشہ ہے کہ جو بائیڈن کی حکومت فوری طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے تیارہو جائے گی جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو سنبھلنے کا موقع مل جائے گا اور پھر مشرق وسطیٰ میں اس کے اثر ورسوخ کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔فخری زادہ کے قتل سے یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں رہے گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور وہ کر بھی نہیں سکتی مگر اب تک شائع ہونے والی کئی رپورٹس کے مطابق اور جس طریقے سے فخری زادہ کوقتل کیا گیا ہے‘ تمام اشارے موساد کے ایجنٹوں کی طر ف جاتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ حکومت کو اس سازش کا پیشگی علم نہ ہومگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو حالیہ دنوں میں اسرائیل میں ہی تھے اور امریکی حکومت نے ابھی تک اس قتل کی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے ماسٹر مائنڈ محسن فخری زادہ کے قتل سے ایران کی ایٹمی صلاحیت پر کوئی ضرب نہیں لگے گی‘ جو اب کافی آگے بڑھ چکی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایران ایک ایسے پروگرام پر عمل پیرا تھا جس کا مقصد ایٹمی ہتھیار لے جانے والے وار ہیڈ زبنانا تھا جسے آج سے سترہ سال پہلے ا س وقت روک دیا گیا تھا جب سی آئی اے اور ایران کے اپوزیشن گروپ نے ا س کا پتا چلا لیا تھا۔ موجودہ قتل سے مشتعل ہو کر شاید ایران دوبارہ ایٹمی ہتھیار وں کی طر ف نہ لوٹے،مگر اس سے امریکا اور ایران کے درمیان مخاصمت میں اضافہ ضرور ہوجائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتکاری کا عمل مزید مشکل ہو جائے گا۔اس قتل سے ایران کے سخت گیر حلقوں کے دبائو کی وجہ سے دوبارہ سفارتکاری کی طر ف لوٹنا مشکل ہو جائے گا۔یہ حلقے جون میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے پہلے ایرانی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ایرانی قیادت نے اس قتل پر سخت مگر ایک محتاط رد عمل ظاہرکیا ہے۔صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران اپنے انداز میں اور کسی مناسب وقت پر اس قتل کا جواب دے گا۔انہوں نے اسرائیل پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس وحشیانہ قتل سے پتا چل رہا ہے کہ ہمارے دشمن ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ایک ایسادور جب وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کا دبائو ڈالنے کا زمانہ اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے اور عالمی صورت حال بھی یکسر تبدیل ہو رہی ہے۔
اس بیان سے اس امر کی عکاسی ہو رہی ہے کہ ایران اسرائیل سے کسی اور شکل میں ا س قتل کا بدلہ لے گا۔ ایران حماس یا فلسطین کی کسی جہادی تنظیم کے لیے اپنی حمایت میں اضافہ کر سکتا ہے۔اس کی کوشش ہوگی کہ اسرائیل مستقبل میں بھی ایرانی پروپیگنڈے میں چھوٹے شیطان کے طور پر برقرار رہے اور اسرائیل کے سافٹ ٹارگٹس مثلاً سیاح، اسٹوڈنٹس اور بیرونِ ملک مقیم اسرائیلی شہریوں کی زندگی خطرے میں رہے۔ اسرائیل کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے امریکی بھی محفوظ نہیں ہو ں گے کیونکہ مبینہ طور پر ٹرمپ حکومت جنوری میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث ہے۔ اس قدر کشیدہ صورتحال میں جو بائیڈن کی نئی حکومت کو سنگین چیلنج درپیش ہوں گے۔جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بارے میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر وہ اور ان کی ٹیم زیادہ سے زیادہ میڈیا کے ذریعے ایران کو پیغام ہی بھیج سکتے ہیں کہ وہ 20 جنوری کو ان کے حلف اٹھانے تک صبر و تحمل سے کا م لے اور اسرائیل سے کہیں گے کہ وہ مزید کسی سبوتاڑ کارروائی سے باز رہے۔
درایں اثنا یورپی ممالک‘ جن کے ایران کے ساتھ سفارتی روابط قائم ہیں اور وہ ابھی تک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل ہیں‘ جو بائیڈن کے حلف اٹھانے تک اس خلا کو پْر کر نے کی کو شش کریں گے۔برطانیا، فرانس اور جرمنی کو فوری طور پر ایسا کمیشن بنانا چاہئے جو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے نفاذ کی مانیٹرنگ کرے۔ ان کے وزرائے خارجہ کو فوری طور پر یہ کہتے ہوئے ایرانی سائنسدان کے قتل کی مذمت کرنی چاہئے کہ یہ عالمی قوانین کی رو سے ایک غیر قانونی اقدام ہے جس سے جوہری عدم پھیلائو کی تحریک کو نقصان پہنچے گا۔ یورپی یونین کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے اعلیٰ نمائندے کے ترجمان پہلے ہی اس قتل کو مجرمانہ کارروائی قرار دے چکے ہیں۔ کئی ایک وجوہات کی بنا پرایران کا ایٹمی پروگرام سست روی کا شکاررہا ہے۔یہ 1950ء میں آئزن ہاور کی حکومت کے ’’ایٹم فار پیس‘‘ نعرے کے تناظرمیں ملنے والے علمی تحفے سے شروع ہو ا تھا۔ایک عشرہ بعد جانسن حکومت نے ایران کو پہلی دفعہ ایک چھوٹا نیوکلیئر ریسرچ ری ایکٹر دیا تھا۔ ایران کے جوہری پروگرام کو شروع ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ بیت چکے ہیں اور ا س دوران بھارت،پاکستان اور شمالی کوریا نے ایٹم بم بھی بنا لئے ہیں مگر ایران ابھی تک ایسا نہیں کر سکا۔ا س کے پاس ابھی تک محض ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے جو کام کر رہا ہے۔ اگر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ایران اپنی موجودہ پالیسی ترک کر کے دوبارہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا اعلان کر دیتا ہے تو یہ کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ اس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی ریس دوبارہ شروع ہو جائے گی اور پورا مشرق وسطیٰ مفلوج ہو کررہ جائے گا اور تنازعات میں الجھ جائے گا او ریہاں کے نوجوان دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ کر پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔