میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چاپلوسی کی تمنا۔۔ (علی عمران جونیئر)

چاپلوسی کی تمنا۔۔ (علی عمران جونیئر)

ویب ڈیسک
جمعه, ۶ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

دوستو،گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو بڑی وائرل ہوئی جس میں کچھ طلبا و طالبات فلک شگاف نعرے لگارہے تھے کہ۔۔سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔۔ ڈھول بھی بجائے جارہے تھے، تالیاں بھی پیٹی جارہی تھیں،اس کے بعد ایشیا سرخ اور سبز کی بحث چل پڑی۔۔ہمارے خیال میں یہ نعرہ مستانہ کہ۔۔سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔۔ بالکل ہی فضول سا ہے، آج کل کے ماڈرن زمانے میں سرفروشی والی کہانیاں بہت پرانی ہوچکیں۔۔اب سرفروشی کی جگہ ’’چاپلوسی‘‘ نے لے لی ہے۔۔ اب اپنے گھروں کی مثال ہی دیکھ لیں۔۔جو بچہ والدین کی خدمت کرتا نظر آئے گا وہی والدین کا لاڈ پیار اور ساری توجہ سمیٹے گا،جب کہ اس بچے کے دیگر بہن بھائی آپس میں سرگوشیاں کرتے نظر آئیں گے کہ ۔۔اسے تو اماں ،ابا کی چاپلوسی سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔ بیٹا اگر بیوی سے کھلے عام محبت کا اظہار کردے تو سگی ماں اسے بیوی کا غلام یا بیوی کی چاپلوسی کرنے والا قرار دے ڈالتی ہے۔۔اسی طرح اسکول و کالجز میں جو طالب علم اساتذہ کا تابعدار ہو اسے چاپلوس کہاجاتاہے، دفاتر میں جو باس کی ہاں میں ہاں ملائے اسے بھی چاپلوسی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔۔ بس تو پھر یقین مان لیجئے کہ ہمیں اب اپنا نعرہ بدلنے کی ضرورت ہے۔۔ سرفروشی پر تو ’’تعزیرات‘‘ لگ سکتی ہے۔۔
اب ذرا چاپلوسی کے مختلف زاویوں پر بھی بات کرلیتے ہیں۔۔دو مظلوم شوہروں کے درمیان اپنی بیوی کی تعریف کرنے کا مقابلہ ہوا توپانچ منٹ میں نتیجہ نکل گیا۔۔۔لیکن جب ایک دوسرے کی بیوی کی تعریف کرنے کا مقابلہ ہوا تو تین گھنٹے تک بھی مقابلہ جاری رہا۔۔اور آخر میں ٹائی کا فیصلہ کردیاگیا۔۔۔بیوی نے بڑے رومانٹک موڈ میں اپنے شوہر سے سوال پوچھا۔۔فرض کرو، تمہاری ایک کروڑ کی لاٹری لگ جائے اور اسی دن مجھے کوئی اغوا کرلے اور ایک کروڑ تاوان مانگ لے تو تم کیا کروگے۔۔شوہر نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ یہ ناممکن ہے ایک دن میں دو لاٹریاں کیسے لگ سکتی ہیں؟؟۔۔ایک روز باباجی نے اپنی آپ بیتی کے کچھ پرانے واقعات میں سے ایک قصہ ہمیں سنایا۔۔کہنے لگے۔۔میں دفتر میں مصروف تھا کہ گھر سے بیگم کا موبائل پر فون آگیا۔۔میں سمجھ گیا کہ واپسی میں کچھ خریدتے ہوئے گھر جانا پڑے گا۔بہرحال کال اٹینڈ تو کرنی تھی۔ میں نے کال ریسیو کرکے کہا،جی فرمائیں۔انہوں نے کچھ گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا،آپ کہاں ہیں؟۔۔میں نے جواب دیا،اور کہاں ہونا ہے۔ آفس میں کام کر رہا ہوں۔ کیوں۔ خیریت تو ہے نہ؟ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہیں؟۔۔وہ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے بولیں، نہیں نہیں۔ کوئی خاص بات نہیں۔ وہ ہماری پڑوسن ہے ناں ۔ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ تو بس ایسے ہی آپ کو فون کر لیا۔ کوئی شک وک نہیں کر رہی آپ پر۔ قسم سے۔ بس۔ ایسے ہی بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا۔ چلیں آپ کام کریں۔
ایک شخص ایک سرکاری دفتر میں کلرک تھا۔ ایک دن اس کا باس اس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔چوہدری، تیرے پاس سو روپے کا کھلا ہے؟۔۔چوہدری خوش مزاجی سے بولا۔کیوں نہیں، موتیاں والیو۔ ابھی دیتا ہوں۔۔افسر اس انداز تخاطب سے گرمی کھا گیا، کہنے لگا۔چوہدری۔۔ یہ ایک دفتر ہے کسی دکان کا تھڑا نہیں جو اس طرح سے اپنے افسر کو مخاطب کررہے ہو۔ تم مجھے سر جی کہہ کر بلایا کرو۔ میں دوبارہ سو روپے کا کھلا مانگتا ہوں اور تم سر جی کہہ کر بات کرنا۔۔ سمجھے!!!۔۔چوہدری ڈانٹ کھا کر سہم گیا، کہنے لگا۔ٹھیک ہے سر جی۔۔۔ مانگو!!!افسر نے چوہدری سے کھلا مانگا۔ چوہدری نے ایک لمحے کو سوچا اور بولا۔سر جی! یہ سرکاری دفتر ہے۔۔ کوئی کریانے کی دکان نہیں جہاں آپ کھلا لینے آئے ہو۔۔اسی لیے باباجی فرماتے ہیں کہ اخلاقیات سکھانے والے کو یہ علم ہونا چاہیئے کہ جس قسم کا اخلاق وہ سکھارہا ہے وہ اس پر بھی نافذ ہوسکتا ہے۔ ۔ اب ہمارے ٹی وی چینلز کی اخلاقیات کا حال دیکھیں۔۔ ٹی وی پر ڈرامہ چل رہا تھا،ولن شراب پی رہا ہے، نیچے پٹی چل رہی ہے کہ شراب پینا حرام ہے۔۔کچھ دیر کے بعد ڈرامے کا ایک کردار سگریٹ پیتا نظر آیا، نیچے پٹی چلی، خبردار سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے۔۔ڈرامہ آگے چلتا ہے۔ایک عورت خاوند سے چھپ کر افئیر چلا رہی ہے،پٹی نہیں چلتی کہ خاوندکو دھوکہ دینا گناہ ہے۔۔ایک مرد دوسرے کی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے،پٹی نہیں چلتی کہ دوسرے مسلمان کی عزت تم پر حرام ہے۔۔۔کردار جھوٹ بولتے ہیں،پٹی نہیں چلتی کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے۔۔۔شادی میں مرد و عورت لپٹ کر ناچ رہے ہیں،پٹی خاموش ہے۔
بغیر نکاح کے ایک عورت ہفتوں سے دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے،پٹی خاموش ہے۔۔ایک ارب پتی شو ہر دوسری عورت سے تعلقات رکھتا ہے،پٹی خاموش ہے۔۔ہیرو دکھ میں سگریٹ پی رہا ہے۔پٹی چلتی ہے، سگریٹ پینا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ہمارے معاشرے کو سگریٹ سے شراب نوشی سے خطرہ ہے۔باقی سب جائز ہے۔
ایک خاوند نے اپنی بیوی سے پوچھا، اگر کسی کا کوئی پروجیکٹ فیل ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے؟ بیوی نے کہا، اسے فوراً اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی کر کے نئے پروجیکٹ پر کام شروع کر دینا چاہیئے۔ خاوند نے پھر اپنی بیوی سے پوچھا، اور اگر کسی کا کوئی پروجیکٹ کامیاب ہو جائے تو؟ بیوی نے کہا، اسے اس پروجیکٹ پر واجبی سی توجہ رکھ کر مزید ایسے کئی پروجیکٹ شروع کر دینے چاہئیں۔ خاوند نے بیوی سے پوچھا، اگر ہم فرض کریں کہ ہماری شادی ایک پروجیکٹ تھا تو تمہارا کیا خیال ہے، ہمارا یہ پروجیکٹ کامیاب رہا ہے یا ناکام؟؟۔۔ سنا ہے بیوی نے تو اپنا جواب بتا دیا تھا مگر خاوند ابھی تک اپنی رائے دینے کے قابل نہیں ہو سکا۔۔شادی کاذکر چل پڑا ہے تو،دس ہزار کی شیروانی، پانچ ہزار کی گھڑی، بیس ہزار کی انگوٹھی،اوڈی میں سواری،لاکھوں روپے کا کھانا،پھر بھی دلہا کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میرا نکاح مولانا صاحب بالکل فری میں پڑھائیں۔۔ہمارے معاشرے میں شادیوں کی کئی اقسام ہیں۔۔نمبر ایک لومیرج، یعنی پسند والی شادی۔۔دوسری وہ جو ارینج میرج کہلاتی ہے یعنی ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کرلو۔۔تیسری قسم ہوتی ہے،جہاںآپ کو ٹھیک لگے والی شادی۔۔پھر نمبر آتا ہے،ہماری عزت کا سوال ہے والی شادی۔۔جس کے بعد تمہاری عمر نکلتی جارہی ہے والی شادی۔۔اور آخر میں ایموشنل شادی،مرنے سے پہلے اپنے پوتے، پوتی کی خوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں والی شادی۔۔ آپ کون سی والی شادی کے موڈ میں ہیں؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔چھوٹی، انگوٹھی والی، درمیانی اور شہادت کی انگلی، یہ چاروں ہر وقت اکٹھی، انگوٹھا سب سے الگ اور تنہا، وہ اکٹھی رہ کر بھی کمزور، یہ اکیلا ہو کر بھی موثر۔یقین نہیں آتا تو انگوٹھے کے بغیر چار انگلیوں سے ایک بٹن بند کر کے دکھا دیں یا ایک لفظ لکھ کر دکھا دیں۔اکیلے رہیں تو معاشرے کے لیے مفید مل کر رہیں تو بھی لوگوں کے لیے منفعت بنیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں