میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قرآن اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح

خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قرآن اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح

منتظم
بدھ, ۶ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(پہلی قسط)
قرآن کی تین آیتیں وراثت کی تقسیم کی تفصیل بتاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔‘‘ تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور (صرف) والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تماری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینًا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔’’(سورۃ النساء آیت11)جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے جو چھوڑ جائیں ایک چوتھائی تمہارا ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو پس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائی یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جو ہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اوروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ پاک کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے (سورۃ النساء آیت 12)وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں۔ کہہ اللہ تمہیں کلالہ (والدین اور اولاد کے بغیر) کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی مرد مر جائے جس کی اولاد نہ ہو مگر اسکی ایک بہن ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور (اگر بہن پہلے مرے تو) وہ (مرد) خود اسکا وارث ہو گا اگر اسکی بہن کی اولاد نہ ہو۔ اور اگر وہ دو عورتیں ہوں تو ان کے لیے ترکے کا دو تہائی ہوگا۔ اور اگر بھائی بہنوں میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کی مانند ہو گا۔ اللہ تم پر واضح کرتا ہے تا کہ تم بھٹک نہ جاؤ، اور اللہ ہر بات کو جانتا ہے۔ (النسا 176) قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر(دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ۔بہنوں کو میراث سے محروم کرنا حرام ہے۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور ان کو جو میراث سے حصہ ملتا ہے وہ لڑکوں کا آپس میں تقسیم کرلینا (جیسا کہ اکثر یہی ہوتا ہے) یہ سخت حرام ہے، بہنوں پر ظلم ہے اور قانون خدا وندی سے بغاوت ہے اگر کسی فرد یا جماعت یا پنچائت یا ملک کے احکام اپنے مروجہ قانون کے مطابق لڑکوں ہی میں مرنے والوں کی میراث تقسیم کردیں اور لڑکیوں کو محروم کردیں تو اس طرح سے لڑکوں کے لیے شرعا بہنوں کا حصہ لینا حلال نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے حصہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے یعنی لڑکوں کا حصہ علیحدہ سے بتایا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کا حصہ بتاتے ہوئے لڑکوں کا حصہ بتایا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں جب انگریزوں کا تسلط تھا اور انہیں کا قانون رائج تھا اس زمانہ میں ایک مسلمان انگریز مجسٹریٹ کے یہاں اپنے باپ کی میراث تقسیم کرانے کے لیے گیا اور اس سے کہا کہ آپ انگریزی قانون کے مطابق تقسیم کردیں۔ مجسٹریٹ نے کہا چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اس لیے میں اسی طرح تقسیم کردوں گا جیسے آپ کہہ رہے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے قرآن کے مطابق کیوں تقسیم نہیں کراتے؟ قرآن میں تو آدھی سطر سے بھی کم میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کا حصہ بیان فرمادیا ہے آپ قرآن کے لفظ للذکر کو تو ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن مثل حظ الانثیین ماننے کو تیار نہیں۔ یہ قرآن ماننے کا کون سا طریقہ ہےَ ؟ مسلمان صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
بعض لوگ بہنوں کا حصہ یوں کہہ کر دبا لیتے ہیں کہ وہ لیتی ہی نہیں یا انہوں نے معاف کردیا ہے۔ اگر واقعی سچے دل سے معاف کردیں تو وہ معاف ہوجاتا ہے لیکن اگر انہوں نے اوپر کے دل سے معاف کردیا تو اس سے معاف نہیں ہوگا۔ اگر بہنوں کو بتادے کہ تمہارا اتنا اتنا حصہ ہے، اتنے اتنے ہزار روپے تمہارے حصے میں آرہے ہیں اور باغ میں تمہارا اتنا حصہ ہے اور مکان، جائیداد میں اور زرعی زمین میں اتنا اتنا حصہ ہے، وہ سمجھ لیں کہ ہم اپنے اپنے حصے میں صاحب اختیار ہیں۔ معاف نہ کریں تو ہمارے بھائی ضرور ہمارا حصہ ہم کو دے دیں گے اس کے باوجود معاف کردیں تو یہ معافی معتبر ہوگی اگر انہوں نے یہ سمجھ کر اوپر کے دل سے معاف کردیا کہ ملنا تو ہے ہی نہیں۔ بھائیوں کا دل بھی کیوں برا کیا، اگر شوہر سے مخالفت ہوگئی یا اس کی موت ہوگئی تو ان بھائیوں کے پاس آنا پڑے گا۔ اس وقت بھائی برا مانیں گے اور بھابیان طعنہ دیں گی اس لیے مجبوراًزبانی طور پر معاف ہی کردیں۔ ایسی معافی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ معافی طیب نفس سے اور اندر کی خوشی سے نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرما شرمی معاف کر دیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو یوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہوتی، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گنہگار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں، ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بے وجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بے طرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے، حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔ سورہ نساء کے اول رکوع میں شروع سے آخر تک یہی احکام ہیں، یتامی کے اموال کی نگہداشت رکھنے، ان کے مال کو اپنا مال نہ بنا لینے، ان کے وراثت میں ملے ہوئے اموال سے ان کو حصہ دینے کا حکم فرمایا اور بڑا ہو جانے کے ڈر سے ان کا مال اڑا دینے میں جلدی کرنا، یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے مہر کم کر دینا، یا ان کے مال پر قبضہ کر لینا وغیرہ ان سب امور کی ممانت فرمائی۔آخر میں فرمایا کہ ناحق یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ کے انگارے بھرنا ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں موت کے بعد اس طرح کے لوگوں کے پیٹوں میں آگ بھری جائے گی، لفظ یاکلون استعمال فرمایا ہے اور یتیم کا مال کھانے پر وعید سنائی گئی ہے، لیکن یتیم کے مال کا ہر استعمال کھانے پینے میں ہو یا برتنے میں، سب حرام اور باعث عتاب و عذاب ہے، کیونکہ محاورے میں کسی کا مال ناحق کھا لینا ہر استعمال کو شامل ہوتا ہے۔رشتے داروں کی وراثت کامال کھانا گناہ کبیرہ ہے۔جو لوگ یتیم کی وراثت کھا رہے ہیں اللہ پاک فرماتا ہے کہ وہ آگ کے انگارئے کھارئے ہیں۔ خاص طور پر بیٹیوں کو اُن کی وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ وراثت کا مال نہ دینے کا گناہ اُتنا ہی ہے جتنا چوری یا ڈاکہ مار کر مال کھانا ہے۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے۔کسی مسلمان کا مال اُس کی مکمل دلی خوشی کے بغیر کھانا حرام ہے۔ بہنوں سے وراثت معاف کروالی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔مال تھوڑا ہے یا زیادہ وراثت لازمی جاری ہوتی ہے۔ جس طرح رشتے داروں پر رحم کھانے کا ثواب بھی زیادہ ہے اِسی طرح رشتے داروں کا مال کھانے کا گناہ بھی بہت زیادہ ہے۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں