میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دھرنا ختم کرنے میں تاخیر کی وجوہات

دھرنا ختم کرنے میں تاخیر کی وجوہات

منتظم
بدھ, ۶ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

گزشتہ ہفتے صرف فیض آباد دھرنے کے خلاف حکومتی کے باعث نہ صرف راولپنڈی اسلام آبادمیں بلکہ پورے ملک میں صورت حال سنگین نظرآئی پر زاہد حامد کے مستعفی ہونے سے بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہوگیا ہے اور ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں وگرنہ صورتحال ایسی لگ رہی تھی جیسے پاکستان بھی عرب ممالک کی طرح بدترین خلفشار کا شکار ہے کیونکہ فرقہ وارنہ تقسیم کے بادل گہرے ہو رہے تھے اورسویلین حکومت کی نا اہلی وکمزوری میں کوئی کلام نہ رہا تھا حکومت کاعوام میں مقبولیت اور احترام کا بھرم دھول کی طرح تحلیل ہو گیا تھا تحریکِ لبیک سے معاہدہ میں گارنٹر کے طور پر فوجی آفیسر کا نام درج ہے جس سے عیاں ہوتا ہے اقتدار پر فائز شخصیات کس قدر نا قابل اعتبار ہو چکی ہیں تبھی تو بات کرتے اور معاہدہ پر بطور ضامن فو جی آفیسر کو اہمیت دی گئی ہے جو فوج کے بارے میں عوام میں موجود احترام کا مظہر ہے جمہوریت کا راگ آلاپ کرملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے اپنے کردار کی بدولت عوام میں کتنے بے توقیر ہو چکے ہیں اور کیا وہ بھی عسکری قیادت کی طرح عزت و احترام حاصل کر سکیں گے ؟خاصہ مشکل سوال ہے۔
بالغ نظر رہنما وہ ہوتا ہے جو بحران میں دلیرانہ اور بروقت فیصلے کرے لیکن موجودہ قیادت نے ایسا طرزِ عمل اپنایا ہے جیسے وہ فیصلہ سازی کا اختیار ہی نہیں رکھتی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی خود ایک سے زائد بار دُہرا چکے ہیں کہ اُن کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف ہیں جب ملک کا چیف ایگزیکٹو خودکواِ تنا کمزور اور بے بس باور کرائے اور اپنے عہدے کے بارے بے یقینی کی کیفیت میں ہو وہ بحرانی کیفیت میں سود مند فیصلے کرے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں جب پاکستان بیرونی و اندرونی سازشوں کا شکار ہے اِ س کا کیا نواز شریف کو ادراک نہ تھا؟ اگر اُنھیں معلوم تھا تو موجودہ وزیرِ اعظم کو آگے لانے کا غلط فیصلہ کیوں کیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں ایل این جی کیس کی وجہ سے چناؤ کیا تاکہ کرپشن کا میگا کیس بے نقاب نہ ہو؟یہ بات دل مانتا ہے کیونکہ کچھ ایسی ہی واردات اسحاق ڈار کو بیمار ظاہر کرکے ڈالی گئی ہے جس سے پرویز مشرف دور میں دیئے گئے منی لانڈرنگ کے اقبالی بیان پر کاروائی میں تاخیر ہوسکتی ہے دوئم اسحاق ڈار سا کمزور شخص گھبرا کرمزید کوئی گُل افشانی نہ کر ے اگر سوچ یہی ہے تو اِس سے عیاں ہو تا ہے نواز شریف آج بھی اپنی اور اپنے اہِل خانہ کو فوقیت دیتے ہیں ملک و قوم کی اُن کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ایسی سوچ کسی طوربھی رہنما کے شایان شان نہیں ۔
پارٹی سربراہ بننے کے لیے ترمیم لاتے ہوئے مسلم لیگ نے خاصی عجلت و سُرعت کا مظاہرہ کیا جس کی منظوری دیتے ہوئے قانون ساز اِداروں کے ممبران نے روبوٹ کی مانند طرزِ عمل اپنایا اسی دوران ہی حکمران قیادت نے ختم نبوتؑ کے حلف نامے کو محض اقرار نامے میں تبدیل کر دیا جس پر عمران خان نے اِس لیے چُپ سادھ لی کیونکہ اُن کے کیس بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت تھے تبھی انھوں نے خاموشی میں عافیت جانی کیونکہ نا اہلی کی صورت میں وہ بھی جماعت کی سربراہی اپنے پاس رکھنے کے قابل رہتے مگر کچھ اپوزیشن رہنماؤں نے حکومتی چال کو بے نقاب کر دیا جس سے ملک کے اکثریتی بریلوی مسلک میں ہیجان نے جنم لیا ابتدا میں حکومت نے ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی سے انکار کر دیا جب پورے ملک میں مظاہر ے،جلسے جلوس شروع ہوگئے تو خرابی کو درست کرنے کی بات شروع کر دی اور نئی ترمیم کی منظوری کرا لی مگرتب تک بہت تاخیر ہو چکی تھی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا جا چکا تھابریلوی مسلک کے علمائے دین کی اپیل پر بپھرے لوگ جوق درجوق دھرنے میں شامل ہو رہے تھے حلف نامے کی بحالی ترمیم پاس ہونے پر حکومت کی دورُخی واضح ہوگئی اسی لیے مزاکرات ناکامی سے دوچار ہوتے رہے کیونکہ حکومت اپنا اعتبار کھو بیٹھی تھی۔
احسن اقبال کے تین گھنٹوں میں فیض آباد خالی کرانے کے دعوے بھی محض بڑ ثابت ہوئے۔ عدالتی فیصلوں کی آڑ لے کے چڑھائی کرنے سے دھرنے پورے ملک میں پھیل گے ایک فیض آباد چوک خالی کراتے کراتے پورا ملک بند کرانے کی غلطی کو بھلا کون سراہتا پولیس پہلے ہی ماڈل ٹاؤن واقعہ کی وجہ سے شریف خاندان سے شاکی ہے اسی لیے وہ احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بچاؤ کی سبیل کرنا نہیں بھولتی یہی وجہ ہے بے دلی سے ایکشن ہوا تاکہ کوئی جان نہ جائے وزیرِ داخلہ نے یہ کہہ کر کہ ایکشن سے لا علم تھے بلکہ انتظامیہ نے خود ایکشن کا فیصلہ کیا ہے نے پولیس کے شک کو مزید پُختہ کیا ۔ اب مجھے نہیں لگتا کوئی پولیس آفیسر دلیری کا مظاہرہ کرکے خوار ی اُٹھائے ۔ناہلی کے عدالتی فیصلے کو نہ مان کر بے توقیری کی رسمِ بدکو پُختہ شریفیہ قیادت نے کیا ہے اسی لیے دھرنے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں عجلت کو لوگوں نے شک کی نگاہ سے دیکھا۔
راجہ ظفر الحق کمیٹی کا انکوائری رپورٹ کے مطابق کاروائی کرکے ہفتوں کی خواری سے بچنا ممکن تھا لیکن زاہد حامد کا استعفٰی حکومت نے اپنی عزت کا مسلہ بنا کر خواری اُٹھانے کا فیصلہ کیا جس سے حکومت کی رَٹ متاثر ہوئی اور فیصلہ سازی کی قوت سے محرومی کا پول کھلا اب زاہد حامد جا چکے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کوئی بھی حکومت پر کسی حوالے سے اعتبار کرنے کو تیار نہیں بات کرتے اور معاہدہ لکھتے ہوئے بھی فوجی آفیسر کو گارنٹر لیا جاتا ہے کیا اِس رویے کو جمہورت اور ووٹ کا تقدس بحال کر نے کی سوچ کہہ سکتے ہیں ؟
واقفانِ حال یہ کہتے ہیں امریکہ میں نواز شریف نے اپنا لبرل اور روشن خیال تشخص اُجاگر کرنے کے لیے ایک فرم کی خدمات لی ہیں جنھوں نے اسلامی ملک میں کچھ ایسا کام کرنے کا مشورہ دیا تاکہ دو قومی نظریہ کی بنا پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک سے ایسا پیغام عالمی دنیا کو جائے کہ یہ ملک اپنی اساس سے ہٹ رہا ہے اسی لیے ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کیا گیا اور پھیلنے والے انتشار کو ختم کرنے میں دیر کی تاکہ ساری دنیا شریفیہ کارنامے سے آگاہ ہوجائے مانسہرہ جلسہ میں خطاب کے دوران نااہل شریف نے اسی لیے کہا کہ نواز شریف نظریہ کا نام ہے یعنی اب اسلامی نہیں لبرل اورسیکولر نواز شریف ۔ اگر یہ بات سچ ہے تو دنیا کو جو پیغام دینا مقصود تھا وہ مقصد حل ہو گیا ہے۔ اب زاہد حامد جائے یا انوشہ رحمٰن حکومت ہر فیصلہ قبول کر تی جا ئے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کہہ سکتی ہے ملک کے مزہبی جنونیوں کا راستہ وہی روک سکتی ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جائے گا اور نواز شریف سب کے چہیتے بن جائیں گے مگر مجھے نہیں لگتا ملک کی اکثریت کی پسند کے منافی کام کر کے بیرونی سہارے پر شریفیہ اقتدار قائم رہ سکتا ہے کیونکہ ملک میں جو فضا بن گئی ہے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ شکست کی کُنجی بن سکتا ہے۔ ٹی وی چینلوں کی بندش کا غیر زمہ دارانہ اور احمقانہ فیصلہ کرکے حکومت نے عام آدمی کو بد ظن کیا ہے پھر کون اعتماد کرے گا ؟اب تو عین ممکن ہے حکومتی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں