کیا کے الیکٹرک کا کوئی سیاسی ایجنڈہ بھی ہے ؟ ( حصہ اول )
شیئر کریں
سید عامر نجیب
کے الیکٹرک انتظامیہ کا ایجنڈا کیا صرف کاروبار ہے ؟ یہ سوال میرے ذہن میں کثرت کے ساتھ ہونے والی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ طے شدہ اوقات میں لوڈ شیڈنگ کے تو لوگ اس طرح عادی ہو چکے ہیں جیسے فرعون نے بنی اسرائیل کو غلامی کی عادت ڈال دی تھی ۔ لیکن طے شدہ اوقات کے علاوہ ہونے والی لوڈ شیڈنگ اچھے خاصے نارمل آدمی کے مزاج کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے ۔ دن بھر ملازمت یا کاروبار کی تھکا دینے والی مصروفیت کے بعد لوگ اطمینان اور سکون کے لیے گھروں کا رخ کرتے ہیں اور آپ یقین کریں چھوٹے کمروں اور تنگ فلیٹوں میں بجلی نہ ہو تو گرمی کے دنوں میں گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے ‘مرد گھر سے باہر رہنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں جسکی وجہ سے بیوی بچوں اور دیگر گھر والوں کو ضروری توجہ نہیں دے پاتے ۔ ہر ایک چڑ چڑا ہوجاتا ہے ، باہمی تعلقات میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ لڑائی جھگڑے اور منہ ماری عام بات بن جاتی ہے اور اگر لوڈ شیڈنگ رات کو سونے نہ دے تو اس کے اثرات ملازمت اور کاروبار پر پڑتے ہیں ۔ معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت اور خلاف اخلاق رویوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور سماج ترقی کے لیے سازگار ماحول سے محروم ہوجا تا ہے ۔
کے الیکٹرک کے ایجنڈے کے بارے میں یہ سوال پیدا ہونے کی وجہ کیا تھی ؟ کیونکہ لوڈ شیڈنگ کو کے الیکٹرک کی کاروباری مجبوری بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کے الیکٹرک کو کراچی کی ضروریات کے مطابق بجلی دستیاب نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے جن علاقوں میں زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کر کے کے الیکٹرک اپنے نقصانات کا ازالہ کر نے کی کوشش کرتی ہو ۔ ممکنہ طور پر یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ غریبوں کے بجلی کے بل کو انکی استطاعت کے مطابق لانے کے لیے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہو ۔ حُسن ظن کے کئی اور جواز ہو سکتے تھے لیکن ان سب اسباب کو مان بھی لیا جائے تو بھی مقررہ اوقات کے علاوہ کی جانے والی لوڈ شیڈنگ کا کونسا جواز قابل قبول ہو سکتا ہے ؟ کہا جا تا ہے کہ اچانک شارٹ فال ہو گیا یا کوئی بڑی خرابی پیدا ہو گئی لیکن ادھر سوال یہ ہے کہ اس ایمرجنسی کو مینیج کرنے کے لیے ” کے الیکٹرک “ اپنے ان لاڈلے صارفین کو تکلیف کیوں نہیں دیتی جنھیں لوڈ شیڈنگ کی اصطلاح سے واقفیت ہی نہیں اور وہ دیانتدار لوگوں کے ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بجلی چوری بقول ” کے الیکٹرک “ کے دس فیصد سے زائد نہیں ہوتی ۔
نہ جانے کون اللہ سے بے خوف اور ظالم لوگ ” کے الیکٹرک “ کی پالیسیاں بنا رہے ہیں ۔صبح سات بجے سے رات 7 بجے تک کھمبوں میں تار کھینچنے یا دوسرے کاموں کا عذر کر کے وسیع علاقوں کی لائٹ بند کردی جاتی ہے ۔ 7 بجے لائٹ آتی ہے اور 8 بجے مقررہ اوقات کی فرض لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دو ، ڈھائی یا تین گھنٹوں کے لیے پھر سے چلی جاتی ہے ۔ ہنگامی صورتحال کا بھی تمام بوجھ غریب آبادیوں پر ڈالا جاتا ہے اور مقررہ اوقات کی لوڈ شیڈنگ سے تو غریبوں کو نجات ویسے ہی نہیں ہے ۔ متوسط اور امیر طبقہ جو جنریٹر ، UPS اور ایمرجنسی پنکھے اور لائٹوں کو با آسانی افورڈ کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ۔اور جہاں لائٹ چلی جائے تو روشنی کرنے کے لیے موم بتیاں جلائی جاتی ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ ، یہ وہ طبقہ ہے جو بمشکل تمام اپنے بجلی کے بل بھر رہا ہے ۔” کے الیکٹرک “ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ انھیں لو ڈ شیڈنگ کی اذیت کیوں دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے لوڈ شیڈنگ والے علاقوں میں سب ہی بجلی چوری تو نہیں کر رہے ، ہزاروں کی تعداد میں ایسے صارفین ہیں جو ایمانداری سے بجلی استعمال کرتے ہیں اور بر وقت بلوں کی ادائیگی بھی کرتے ہیں ایسے صارفین کو ” کے الیکٹرک “ نیک خواہشات کے علاوہ کیا دے رہی ہے ۔
کاروبار کی آڑ میں سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانا بر صغیر کے لیے کوئی نئی بات نہیں ۔ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں کاروبار کی اجازت لے کر داخل ہوئی تھی اور نہ صرف بر صغیر پر قبضہ کرلیا بلکہ یہاں بسنے والے لوگوں کو غلام بھی بنا لیا ۔ بالخصوص اسلامی ممالک کے لیے نجکاری کی پالیسی بہت خطرناک ہے بالخصوص ان اداروں کی جنکا عوام کے ساتھ ہر وقت کا ساتھ ہے ۔ سرمایہ کار اگر سیاسی ایجنڈا لے کر چلیں تو ریاست کو غیر موثر کرنا ، بے بس کرنا ، بلیک میل کرنا ، ملک میں عدم استحکام اور افرا تفری پھیلانا ، عوام میں مایوسی اور بد دلی پیدا کرنا ، فحاشی و بے حیائی پھیلانا ، اسلامی اقدار کا مذاق بنانا یہاں تک کہ پارلیمنٹ سے خلاف اسلام قانون سازی کرالینا یہ سب ممکن ہے ۔اس لیے محکمے اور ادارے ریاست کے اپنے اختیار میں ہوں تو ملکی مفادات بھی محفوظ رہتے ہیں ۔ ( جاری ہے )
٭٭