میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے ساتھ یہ امریکی رویہ قطعاً مناسب نہیں

پاکستان کے ساتھ یہ امریکی رویہ قطعاً مناسب نہیں

ویب ڈیسک
پیر, ۶ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کرم ایجنسی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے کامیاب اپریشن اور اسکے ردعمل میں دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے تین وارداتوں میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے دی گئی قربانیوں کے باوجود پاکستان کے لیے امریکی لہجے میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے گزشتہ روز پھر تحکمانہ لہجے میں پاکستان کے لیے ’’ہدایت نامہ‘‘ جاری کیا ہے کہ وہ حقانی گروپ اور طالبان سے اپنا تعلق ختم کرے اور اپنے روشن مستقبل کا سوچے۔ انہوں نے امریکی سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے اجلاس میں ری پبلکن سینیٹر جان براسو کے پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان چاہتا ہے‘ اسے دہشت گردوں کی معلومات فراہم کی جائیں تو وہ ان کیخلاف کارروائی کریگا۔ اس تناظر میں ہم پاکستان کو ایک موقع اور دینا چاہتے ہیں جس کے لیے پاکستان کو مخصوص خفیہ معلومات فراہم کی جائیں گی۔ تاہم انہوں نے اپنے دورہ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ اسے ملک میں وسیع پیمانے پر استحکام لانے کا آغاز کرنا ہوگا جس کے لیے اسکی سرزمین پر دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے اس الزام کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروپ ماضی میں خطے میں مستحکم ہوئے۔ ان کے بقول اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرکے اپنے طویل المدتی استحکام اور روشن مستقبل کے بارے میں سوچے۔ انہوں نے باور کرایا کہ امریکا اور اتحادیوں کو خطرات تک دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رہے گی۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ امریکا کی ہمارے ساتھ کبھی بے لوث دوستی نہیں ہو سکتی‘ اسے صرف اپنے مفادات سے سروکار ہے اور اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر وہ دوسروں کی سلامتی سے کھیلنا اپنا حق گردانتا ہے۔ اس تناظر میں امریکا کی طوطاچشمی ایک ضرب المثل بن چکی ہے اس لیے اس کا کسی دوست سے پلک جھپکتے میں آنکھیں پھیر لینا ہرگز بعیداز قیاس نہیں۔ پاکستان تو دہشت گردی کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود بے شمار مواقع پر اس کی طوطا چشمی بھگت چکا ہے‘ اس حوالے سے امریکی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں کوئی فرق نہیں‘ صرف پالیسیوں پر عملدرآمد کے طریقہ کار میں فرق ہوتا ہے چنانچہ ڈیموکریٹس کے دور حکومت میں پاکستان کو امریکا کی جانب سے ڈومور کے تقاضوں میں زیادہ سخت لب و لہجے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا اور اسی بنیاد پر پاکستان امریکا تعلقات میں ڈیموکریٹس کے دور میں کبھی اتنی کشیدگی کی فضا پیدا نہیں ہوئی جتنی اب ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پاکستان انتہائی سخت امریکی لب و لہجہ بھگت رہا ہے۔
مسلم دشمنی میں انتہاء پسندانہ سوچ رکھنے کے ناطے چونکہ ٹرمپ کی ایسی ہی انتہاء پسندانہ سوچ رکھنے والے پاکستان کے دیرینہ دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا استوار ہوئی اس لیے ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی پالیسی کی ترجیحات بھی یکسر تبدیل ہوگئیں۔ ٹرمپ نے اس خطے میں اپنے مفادات کے حوالے سے مودی کی سرپرستی کی ٹھانی جنہیں انہوں نے اپنی پاک افغان پالیسی میں فوقیت دی اور انہیں دہشت گردی کی جنگ میں افغانستان ہی نہیں‘ پاکستان کی بھی نگرانی سونپ دی تو پاکستان کا اس پر سخت تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر تھا کیونکہ بھارت پہلے ہی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف تھا اور اسکے پھیلائے گئے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں جاری تھیں جس کا بھارتی حاضر سروس جاسوس کلبھوشن اعتراف بھی کرچکا تھا چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت کو اس خطے میں تھانیداری کا کردار سونپنے سے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو مزید خطرہ لاحق ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ نے خود بھی پاکستان کے بارے میں انتہائی سخت لب و لہجہ اختیار کرلیا اور اس پر حقانی گروپ اور دوسری کالعدم طالبان تنظیموں کیخلاف سخت کارروائی کے لیے دبائو بڑھایا جانے لگا چنانچہ پاکستان امریکا تعلقات میں کشیدگی اور دراڑیں پیدا ہونا فطری امر تھا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کی معاونت حاصل کیے بغیر امریکا افغانستان میں امن و امان کی بحالی سے متعلق اپنے ایجنڈے کی کبھی تکمیل نہیں کر سکتا جبکہ سی پیک کو اپریشنل کرنے کے لیے پرامن ماحول کی ضرورت ہے تو دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن آپریشن پاکستان کی اپنی بھی مجبوری بن چکا ہے جس کے لیے اسے امریکا یا کسی اور سے ڈکٹیشن لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی بنیاد پر پاکستان پہلے ہی اپنی سرزمین پر اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبر4 کے تحت دہشت گردوں کی سرکوبی میں مصروف ہے جس میں اسے اب تک نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان پر بداعتمادی کا اظہار اور بطور خاص حقانی نیٹ ورک کیخلاف اپریشن کا تقاضا کسی مخصوص ایجنڈے کے تابع ہی ہو سکتا ہے۔ جو بادی النظر میں پاکستان کے دشمن بھارت کو خوش کرنے کے لیے واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے طے کیا گیا ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء سے متعلق نئی پالیسی سامنے آئی اور ٹرمپ کے علاوہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس‘ وزیر خارجہ ٹلرسن‘ نائب صدر پنس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ کی جانب سے بھی پاکستان کے لیے تحکمانہ لہجہ اور ڈومور کے تقاضے شروع کیے گئے۔ پاکستان کے لیے پیدا کی گئی کشیدگی اسی فضا میں جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہوا‘ بھارتی وزیراعظم مودی نے نیویارک کا دورہ کیا اور پھر امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے بھارت اور افغانستان کے دورے کیے۔ ان تمام مواقع پر پاکستان کے ساتھ بھارتی لب و لہجے میں ہی بات کی گئی جبکہ بھارت خود بھی کنٹرول لائن اور افغان سرحد پر پاکستان کی سلامتی کیخلاف گھنائونی سازشوں میں مصروف تھا۔ چنانچہ اس امریکی پالیسی پر پاکستان کے پاس بھی اسے سخت لب و لہجے میں جواب دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
اس حوالے سے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے پاکستان کے موقف اور مفادات کی احسن انداز میں ترجمانی کی جنہوں نے امریکا جا کر واشنگٹن انتظامیہ کو باور کرایا کہ اب ہمارے پاس ڈومور کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب ڈومور امریکا کو کرنا پڑیگا اور ہماری جانب سے اب ’’نومور‘‘ ہوگا۔ انہوں نے امریکا کو باور کرایا کہ اسکی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی معلومات فراہم کی جائیں تو پاکستان ان کیخلاف سخت کارروائی کریگا۔ اسی بنیاد پر امریکا کی جانب سے طالبان کی قید میں موجود ایک امریکی خاتون‘ اسکے کینیڈین شوہر اور بچوں کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئیں تو پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے کرم ایجنسی میں فوری اپریشن کرکے تمام مغویان کو طالبان کی قید سے بازیاب کرالیا جبکہ اس آپریشن میں متعدد دہشت گرد مارے بھی گئے۔ پاکستان کے اس موثر اپریشن پر ٹرمپ اور دوسرے امریکی حکام نے بظاہر اطمینان کا اظہار کیا مگر انکے تحکمانہ لہجے میں کوئی کمی نہ آئی اور گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن دورہ اسلام آباد پر آئے تو پاکستان کے لیے ڈومور کے تقاضوں کے انبار لگاگئے اور ساتھ ہی بھارت کو پاکستان کی نگرانی کی ذمہ داری سونپنے کی بھی تصدیق کردی۔ پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کو تسلسل کے ساتھ باور کرایا جارہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کا کردار کسی قابل قبول نہیں کیونکہ بھارت اس کردار کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے لیے بروئے کار لائے گا۔ اگر بھارتی کردار پر پاکستان کے تحفظات کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اپنی پاک افغان پالیسی میں تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں تو ہمارے نزدیک امریکا اور بھارت میں کوئی فرق نہیں۔ ہمیں بہرصورت اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے تقاضے نبھانے ہیں جس کے لیے ملک کی مسلح افواج ہمہ وقت تیار و چوکس ہیں۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونے کی کوئی خوش فہمی نہیں اس لیے عالمی فورمز اور امریکا کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پاکستان کے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا جائیگا۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو بجا طور پر باور کرایا ہے کہ امریکی پالیسی افغانستان میں ہزیمت اٹھانے والے جرنیلوں نے بنائی ہے جن کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے امریکا ہم پر الزامات لگا رہا ہے۔ خواجہ آصف کے بقول انہوں نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ وہ خالی خولی باتیں نہ کرے بلکہ ہمیں قابل عمل معلومات فراہم کرے۔ اب بیرونی طاقتوں کے مفادات کے تحت پالیسیاں نہیں بنیں گی بلکہ تمام پالیسیاں پاکستان کی سالمیت‘ خودمختاری اور مفادات کو مدنظر رکھ کر تشکیل دی جائیں گی۔بلاشبہ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پاکستان نے اپنے قومی مفادات اور سلامتی کے تقاضوں کی نبیاد پر جاندار پالیسیاں طے کی ہیں جن پر کاربند رہنا اب زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہماری یہ پالیسیاں برقرار رہیں تو امریکا بالآخر اپنی تحکمانہ پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیگا۔ خودمختار اور خوددار زندہ قومیں اپنی پالیسیوں میں ملکی اور قومی سلامتی کو بہرصورت مقدم رکھتی ہیں۔ ہمیں آج دنیا کو اپنے زندہ قوم ہونے کا ہی ثبوت فراہم کرنا ہے۔ (تجزیہ )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں