میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طالبان تحریک اور حکومت  (جلال نُورزئی) قسط نمبر:2

طالبان تحریک اور حکومت (جلال نُورزئی) قسط نمبر:2

ویب ڈیسک
اتوار, ۶ اکتوبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

قسط نمبر:2

جنیوا معاہدہ افغانستان کے اندر طوائف الملوکی ،جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ بنا۔بدیہی طور پر افغانستان کی بڑی جماعتوں کی گرفت ملک بھر میں پھیلے اپنی مقامی تنظیموں اور کمانڈروں پر کمزور پڑ گئیں۔ برہان الدین ربانی شمال کی قوتوں اور کمیونسٹ دور کی باقیات کے ساتھ تخت کابل پر متمکن ضرور تھے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ کابل سمیت کسی منطقہ پر کسی کی رٹ قائم نہ رہی ۔ صوبوں اور اضلاع کی سطح پر درجنوں را ج دھانیاں قائم ہوئیں۔ جنگی کمانڈروں نے جگہ جگہ زنجیریں لگا کر محصول گویا جبری ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا۔ٹیکس تمام قومی شاہراہوں ،صوبوں اور اضلاع میں داخل ہوتے وقت لیا جاتا۔کسی کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہ رہی ۔صرف جنوبی صوبے قندہار میں سو کے قریب کمانڈر الگ الگ علاقوں میںاپنی عملداری قائم کیے ہوئے تھے۔ جو من میں آتا کر بیٹھتے۔ کسی میںان کے سامنے کھڑے ہونے یا فریاد کی مجال نہ تھی۔چور اُچکے ان جتھوں میں شامل ہو گئے تھے ۔ یہ ساری غارت گری و لاقانونیت، مجاہدین کی جدوجہد، اخلاص اور قربانیوں پر بد نما داغ بن گئی تھی۔ شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں لوگ راتوں کو اجتماعی پہرا دیتے کہ کوئی گروہ لوٹ مار کے لیے گھروں اور محلوں میں داخل نہ ہو۔ قندہار واضح طور پر ،کمانڈر عبدالعلیم ،امیر لالئی ،عطا محمدسر کاتب ، ملا نقیب اللہ اور گل آغا شیر زئی پر تقسیم تھا۔گل آغا شیر زئی کے پاس صوبے کی گورنری بھی تھی۔ یہ وہی گل آغا شیر زئی ہے جس نے افغان طالبان کے خلاف امریکیوں اور ان کے حامیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔قندہار ایئر پورٹ حاجی احمد نامی کمانڈر کے تصرف میں تھا۔ لوٹ مار کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد جہادی تنظیموں میں کردار و حیثیت کے حامل نہ تھی۔

بعض جہادی تنظیموں کا نام غلط طور پر استعمال کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ خواتین کی عزتوں کی پامالی کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے ۔دارالخلافہ کابل میں شمال کے جنگجو ایسے کئی واقعات کے مرتکب ہوئے ۔قندہار ہرات قومی شاہراہ پر مسافر گاڑیوں سے عورتوں کے ُاتارے جانے کے چند ایک واقعات پیش آئے۔کئی پاک دامن خواتین جنسی زیاد تیوں کا نشانہ بنیں۔مزاحمت کرتیں تو جان سے مار دی جاتیں،داد رسی کی امید کسی کو نہ تھی ۔بعض خواتین کی لاشیں برآمد ہوئیںجنہیں جنسی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔گویا بد امنی ، لاقانونیت او ر طوائف الملوکی کے اس بد ترین دور میںعاجز و مقہور عوام نجات دہندہ کی دعائیں کرتے۔روسی حملہ آور افواج کے انخلاکے بعد قریباً پانچ سال افغان عوام ظلم و فساد کی چکی میں پستے ر ہیں۔ افغانستان کے صوبہ قندہار کے باسی بلخصوص پنجوائی اور میوند اضلاع کے لوگ افغان جہاد کے اُن نیک سیرت افراد کو اس صورتحال کی جانب توجہ دلاتے، جنہوں نے بال بچوں کی کفالت ، مدارس و مساجد تک خود کو محدود کر رکھا تھا۔’’میوند‘‘ قندہار کا وہ مقام ہے جہاں کی بہادر پشتون افغان لڑکی’’ ملالہ ‘‘نے 27 جولائی 1880ء کی دوسری انگریز افغان جنگ میں پژ مردہ افغان حریت پسندوں میںمقاومت و استقامت کی روح پھونک دی تھی۔ملالہ خود بھی قابض انگریز کے ہاتھوں شہید ہوئیں ۔ میوند کی ملا لہ پشتون مزاحمتی تاریخ میں ایک زندہ و تابندہ حوالہ ہے ۔چنانچہ گوشہ نشین ، پاک دامن، قومی و دینی جذبے سے سرشار چند علماء و طلباء نے معاشرے کی اصلاح کا قصد کر لیا۔جنگ کے ان تجربہ کار سپا ہیوں کے درمیان صلاح و مشورے اورتدابیر سوچے جانی لگیں۔ مجاہدین خود بھی اس بگڑی صورتحال پر رنجیدہ و مغموم تھے۔ سر دست 35 علماء و طلباء کی ایک مختصر جماعت بن گئی۔ ان کے سامنے اول اول بڑا مسئلہ قیادت کا تھا۔ ایک متقی پرہیز گار عالم دین مولوی عبدالصمد جس نے روسی افواج کے خلاف عملی جہاد میں حصہ لیا تھا ، اس منصب و بارگراں کے لیے منتخب کیے گئے ۔مگر اس نابغہ روز گار مجاہد نے اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے سے معذرت کر لی۔

البتہ تحریک میں پوری طرح شریک رہے ۔ما بعد ملا محمد عمر مجاہد کے شانوں پر یہ بھاری بوجھ لادا گیا۔ ملا محمد عمر کو ملک گیر شہرت حاصل نہ تھی۔ البتہ قندہار میں ان کی شناخت ایک شجیع، دیانتدار، تقویٰ دار اور درویش مجاہد کی تھی۔ملا عمر کے والد غلام نبی ،دادا محمد رسول اور پر دادا باز محمد بھی عالم دین تھے ۔ چناں چہ بالآ خر سال 1994 ء کی ماہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ضلع میوند کے گائوں’’سنگیسار‘‘کی سپین (سفید) مسجد سے تحریک کا اعلان ہوا۔ مالی ذرائع قطعی نہ تھے ۔درویشوں نے تحریک کے لیے کردار اور اچھی صفات کو معیار بنایا۔ آپس میں اتنی رقم جمع کر لی کہ اگر کسی مخالف کو معلوم ہوتا تو ان پر بے اختیار ہنس پڑتے۔گویا اس طرح تحریک کو حرکت ملی۔ ایک پرانی موٹر سائیکل کسی خیر خواہ نے دی تھی ۔ بعد ازاں میوند کے علاقے ’’کشکی نخود‘‘ کے ایک صاحب حیثیت شخص حاجی بشر نورزئی نے تحریک کے لیے ہینو اور پک اپ گاڑی مہیا کردی ۔ جس نے تیل سمیت گاڑی کی تمام اخراجات اپنے ذمے لے رکھے تھے۔حاجی بشرکئی سال سے امریکی جیل میں قید ہیں۔بظاہر الزام منشیات کے کاروبار کا ہے لیکن ان کا اصل جرم طالبان کی مالی امداد کرنا ہے ۔نیٹو اور امریکی حملے کے دوران جب بڑی نامور افغان شخصیات اور پاکستانی بکھرے اور نڈھال طالبان اور عرب باشندوں کو ڈالروں کے عیوض پکڑتے ، امریکیوں کو ان کی نشاندہی کرتے۔ وہیں حاجی بشر جیسے لوگ طالبان اور عرب باشندوں کی محفوظ مقامات کومنتقلی، مالی اور دوسرے ذرائع سے مدد کرتے ۔غرض تحریک نے خود سر کمانڈروں کو شاہراہوں پر ٹیکس نہ لینے ، عوام کے جان و مال کا احترام ، شر و فساد سے باز آنے کے پیغاما ت بھیجے۔ طاقت کے نشے میں ڈوبے کمانڈر جواب میں ان سیاہ و سفید پگڑی والوں کا تمسخر اُڑاتے۔ مجبوراً تحریک نے پہلی کاروائی ایک گمراہ و قاتل کمانڈر دارو خان کے خلاف عمل میں لائی۔ جس نے بھاگنے میںعافیت جانی۔ معناً ایک اور کمانڈر صالح محمد جو جنسی زیادتوں کا مرتکب بھی تھا پر حملہ کر کے بے حیثیت کر دیا۔ قندہار کے معروف کمانڈر ملا نقیب اللہ نے تحریک سے تعاون کیا ۔ اپنا تمام اسلحہ تحریک کے حوالے کر دیا۔ تحریک نے قندہار شہر اور مضافات کے چند اضلاع فسادیوں سے خالی کرا دیے ۔ نام نہاد گورنر گل آغا شیر زئی اور چند دوسرے حیثیت کے حامل کمانڈروں نے اپنی قوت پاکستان کے سرحدی شہر چمن سے متصل افغان علاقے سپن بولدک منتقل کر دی۔ تاکہ وہاں کے کمانڈروں کی مدد کر کے تحریک کو انجام سے دوچار کیا جا ئے ۔ سپن بولدک اور تختہ پل کے مقامات میں موجود سر کشوں میں شہرت منصور نامی کمانڈر کی تھی۔ یہ جنگجو سابق کابل ر ژیم سے وابستہ عصمت مسلم کا جانشین تھا۔ عصمت مسلم نے دوران جہاد چمن شہر پر بھی حملہ کیا تھا۔ اتنا جری تھا کہ کابل میں ہونے والے اس عمارت پر بھی راکٹ برسائے جہاں لو یہ جرگہ ہو رہا تھا۔ اس کی فورس کو عصمت ملیشیا کہا جاتا تھا۔ جنگجوئوں کو فدائی پکارا جاتا۔ ملیشیا کی شناخت نسلی عصبیت کی بھی تھی۔

ملیشیا سرحد کے اس پار (چمن و قلعہ عبداللہ خان) کی پشتون سیاسی و دوسرے لوگوں سے فکری و ترجیحات کی گہری ہم آہنگی ر کھتی تھی۔ گویا ایک دوسرے کا حصہ تھے۔ مجاہدین کے خلاف ملیشائوں کا قیام ببرک کارمل کی حکمت عملی تھی ۔جن کے لیے الگ سے فنڈ رکھا گیا تھا۔ان میں عصمت مسلم کی ملیشیا ، سید نادری کا کیان ملیشیا اور رشید دوستم کا جوزجانی ملیشیا معروف تھا ،جرائم پیشہ افراد حصہ تھے ۔ طاقتور اتنے ہوئے کہ انہیں کابل حکومت کی بھی پرواہ نہ رہی ۔غرض عصمت مسلم کے انتقال کے بعد زمام کار کی منتقلی منصور کو ہوئی ۔ موجودہ افغان حکومت میں قندہار پولیس کے چیف ،کمانڈر عبدالرازق منصور کا بھتیجا تھا۔ کمانڈر عبدالرازق18 اکتوبر 2018 ء میں قندہار کے گورنر ہائوس کے اندر ’’ان سائیڈر‘‘ حملے میں مارا گیا۔اس حملہ میں این ڈی ایس کا صوبائی سربراہ بھی مارا گیا ۔گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہورہا تھا۔ جس میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر دوسرے حکام بھی شریک تھے۔سرحد پر اشتعال انگیزی کمانڈر رازق کا معمول تھا ۔ 5 مئی 2017 کو ان کی کمانڈ میں افغان فورسز نے سرحد پر واقع چمن کے گائوں ،کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر حملہ کیا دس پاکستانی شہر ی جاں بحق ہو گئے تھے ۔ان میں دو خواتین اور پانچ بچے شامل تھے ۔اس گائوں میں مردم شماری ہو رہی تھی۔مردم شماری عملہ کی حفاظت پر مامور دو اہلکار بھی جابحق ہو گئے تھے ۔ پشتو نخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی ہدایت پرپارٹی کے وابستگان نے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں کمانڈر عبد الرازق کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ۔نہیں معلوم کے ان کے چچا کمانڈر منصور کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی تھی یا نہیں ۔سپن بولدک کی طرف واپس آتے ہیں جہاں قندھار کے مذکورہ کمانڈروں نے مقامی کمانڈروں کو پوری کُمک پہنچائی۔ مگر ا س کے باوجود تحریک کے آگے ٹہر نہ سکے، یہ سب تتر بتر ہو گئے ۔منصور طالبان کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔یہاں ایک اور سفاک کمانڈر نادر جان بھی جان سے گیا۔ سپن بولد ک کو جرائم پیشہ گروہوں سے پاک کرنے کے دوران تحریک کا ایک مجاہد محمد سلیم آغا گولی لگنے سے جاں بحق ہوا ۔جو قندھار کے علاقے زنگاوات کا رہنے والا تھا ۔ یہ طالبان تحریک کی پہلی جانی قربانی تھی ۔ واضح رہے کہ منصور نے پاکستان سے وسطی ایشیاء جانے والی پچا س ملین کے سامان سے لدی پچیس گاڑیوں کو معہ عملہ کے تحویل میں لے رکھا تھا۔ جو تحریک نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ یہاں پاکستان کو تحریک کی بڑھتی قوت، پذیرائی اور نصب العین سے واقفیت حاصل ہوئی۔ ایران اس پوری صورتحال کو برابر شک کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ اب قندہار کے تاجروں، زمینداروں، مالداروں اور عام عوام نے تحریک کی امداد شروع کردی۔صوبہ قندہار امن کا گہوارہ بن گیا۔ قاتل ، غاصب، چور لٹیرے بھاگ گئے۔ان میں سے کئی پاکستان میں مقیم ہو ئے ۔جو یہاں کے کوتا اندیشوں کے ہاں معزز و محترم ٹھرے ۔ قندہار سے مزاحمت کے بعد مرحلہ وار ہلمند ارزگان، زابل، غزنی،میدان وردگ،پکتیا،نمروز، فرح، ہرات ،غور بادغیز، ننگرہار کے علاقے بے پناہ جانی نقصان و سخت کشمکش کے بعد فتح کیے گئے۔(جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں