خورشید ندیم اپنی تحریروں کے آئینے میں
شیئر کریں
رانگ نمبر
۔۔۔۔۔
عماد بزدار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خورشید ندیم ایک نمایاں کالم نگار ہیں جنہیں مسلم لیگ نون کے فکری لکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اُن کی زندگی کا واحد محور کوئی اُصول، نظریہ ، تاریخ یا مذہب نہیں، بلکہ نوازشریف، نوازشریف اور صرف نوازشریف ہیں۔ اگر نوازشریف اپوزیشن میں ہو تو وہ ان کے ہر اقدام کو مختلف اُصولوں، نظریات، تاریخی حوالوں اور مذہبی مثالوں سے جائز سمجھانے میں انتہائی خشوع وخضوع سے مصروف ہو جاتے ہیں۔ مگر نوازشریف یا اُن کا خاندان برسر اقتدار ہوتو جس نوازشریف کے اپوزیشن کی کردار کی تائید وتعریف میںاُن کا قلم فراٹے بھررہا ہوتا ہے وہی قلم اچانک سناٹے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر دوسرے رہنما اُسی نوازشریف کی طرح اپوزیشن کے کردار میںدکھائی دیں تو جس قلم نے اُسی کردار میں نواز شریف کی بلائیں لی ہوتی ہیں اچانک اُسی کردار کے دوسرے رہنماؤں کے لتّے لینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں کردار ادار کرتے ہوئے کسی موقع پر خورشید ندیم صاحب خود اپنے کردار کو ٹٹولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ آئیے اس کردارکی کچھ جھلکیاں خود اُن کی اپنی تحریروں میں دیکھتے ہیں۔
خورشید ندیم صاحب 10 اکتوبر 2016 کے اپنے کالم ”فیصلہ کن موڑ” میں لکھتے ہیں کہ ”میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے دیکھوں۔پروردگار وہ دن نہ دکھائے کہ ہم کرپشن یا کسی اخلاقی برائی کے وکیل بن جائیں۔ہم سب کو پروردگار کے حضور میں پیش ہونا ہے ۔ وہاں باطن اور ظاہر کا فرق باقی نہیں رہنا اس دن کی آمد اتنی ہی یقینی ہے جتنا یقینی آج کا دن ہے۔ اس احساس کے ساتھ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے کسی الزام کا خوف مجھے ہر بات سے بلند تر ہو کروہ کچھ کہنا
چاہیے جسے میں صحیح سمجھتا ہوں”۔
آیئے خورشید ندیم صاحب کے اپنے لکھے گئے کالمز سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس قدر اپنے اس دعوے پر پورا اُترتے
ہیں۔
شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں۔جب میاں محمد نواز شریف اپوزیشن میںتھے ، تب اپنے کالم ” شیخ مجیب الرحمان کا ذکر کیوں”تاریخ اشاعت 20 جنوری 2018 میں لکھتے ہیں”تاریخ عبرت کے لیے ہوتی ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ زیب داستاں کے لیے ہے ۔ یہ عبارت آرائی کا سامان ہے یا پھر مجلس آرائی کا۔ اگر نہیں ہے تو عبرت کا۔ شیخ مجیب الرحمان کا قصہ لیجیے !نواز شریف نے بطور تاریخی حوالہ ان کا ذکر کیا۔ مقصود عبرت دلانا تھا کہ جب ایک عوامی رہنما کو عوام کی غیر معمولی تائید میسر ہو، جسے ابن خلدون کہتے ہیں ، تو اسے مصنوعی طریقوں سے سیاسی عمل سے الگ کرنا ملکی سا لمیت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ اب ہوا یہ ہے کہ عبرت حاصل حاصل کرنے کے بجائے لوگ نواز شریف صاحب پر برس پڑے ۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ وہی طرز عمل ہے جو مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے شیخ مجیب الرحمان کے معاملے میں اختیار کیا۔ گویا ہم نے تاریخ سے عبرت نہیں پکڑی”۔
خورشید صاحب یہاں دلیل دے رہے ہیں کہ ہمیں تاریخ سے سیکھناچاہئے جو کچھ مجیب کے ساتھ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے کیا
وہی طرز عمل میاں صاحب کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے گویا ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ رہے ۔مگر گزرتے وقت کے ساتھ منظر نامہ بدلتے ہی خورشید صاحب کا مؤقف بھی مجیب کے بارے میں تبدیل ہوگیا۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت ہے جس میں وزرات عظمیٰ پر میاں محمد شہباز شریف بیٹھے ہیں ۔ اپنے 25 مارچ2023 کے کالم مرحوم ”مشرقی پاکستان کی کہانی” میں لکھتے ہیں کہ
”15 اگست 1975 کو شیخ مجیب الرحمان کا قتل ہوگیا۔ الطاف حسن قریشی نے اس موقع پر ان کے زوال کے اسباب کی ایک فہرست بنائی جس کی تفصیل ستمبر کے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔میں جب آج کے حالات کے تناظر میں اس فہرست کو دیکھتا ہوں تو کانپ اٹھتاہوں۔احتجاج، آمرانہ طور طریقے کی حاکمیت ، خطابت کے لہجے میں مبالغہ آمیز باتیں ، غلط اعداد و شمار کے ذریعے عوام کے اندر منفی تحریک کی پرورش ، فوج کے خلاف شدید نفرت ، بیوروکریسی پر مکمل گرفت کا جنون ، ان کے زوال کے چند بڑے اسباب تھے ”۔
اب وہی مجیب جسے میاں صاحب کے اپوزیشن کے زمانے میں مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے علیحدگی پر دھکیل دیا تھا اب جبکہ عمران
خان اپوزیشن لیڈر ہیں تو خورشید صاحب کی نظر میں آمر بھی ہوگئے اور ایک ایسے لیڈر بھی جو بہت ساری برایئوں کے ساتھ ساتھ مبالغہ آمیز باتیں اور اعداد وشمار بھی بیان کرتے تھے ۔
میاں صاحب جب جیل میں تھے تب وہ مظلومیت اور عزیمت کے پہاڑتھے لیکن جب پی ٹی آئی کے علی محمد بار بار جیل جانے کے
باوجود قبلہ بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے تو اس کی سیاست بصیرت مشکوک ہوگئی اور اس کی عزیمت سکڑ کر قبائلی بہادری میں تبدیل ہوگئی۔ اپنے 14 مارچ 2019 کے کالم نواز شریف ابھی زندہ ہے میں لکھتے ہیں”مظلومیت اور عزیمت ۔۔۔ کسی موڑ پر ہم قدم ہوجائیں تو تاریخ کی
گواہی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا سامنا نہیں کر سکتی۔امام عزیمت احمد بن حنبل جیل سے لوٹے تو ان کی دعاؤں میں ایک نئی دعا کا اضافہ ہوگیا : یا اللہ ابن الہیثم پر رحم کر۔ کسی نے پوچھا یہ ابن الہیثم کون ہے جس کو آپ اپنی مناجات میں بھی یاد رکھتے ہیں۔ کہا:جیل کا ایک ساتھی ۔ تفصیل بیان کی کہ جیل میں گیا تو پہلے سے موجود ایک قیدی نے مجھ سے پوچھا :کس جرم میں لائے گئے ہو ۔کہا :قرآن مجید کو مخلوق نہیں مانتا اور صاحبان اقتدار بزور منوانا چاہتے ہیں۔قیدی نے کہا میں ایک چور ہوں ۔ کئی بار اس جرم میں پکڑا گیا مگراس کام سے باز نہیں آیا ۔ تم تو ایک اچھے مقصد کے لیے یہاں آئے ہو۔جیل کی سختیوں سے گھبرانا نہیں ۔ اپنی بات پر قائم رہنا۔ امام نے کہاابن الہیثم یہی قیدی ہے ۔ میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے عزیمت کا راستہ دکھایا۔شواہد یہی ہیں کہ تادم تحریر نواز شریف صاحب نے عزیمت کے
راستے کا انتخاب کیا ہے ”۔
اب علی محمد کے بارے میں 04 جولائی 2023 کو علی محمد خان کے عنوان سے جو کالم لکھا وہ کچھ اس طرح ہے ”جب سب بھاگ رہے تھے تو علی محمد خان کھڑے ہوگئے ۔ ان کی یہ بہادری قابل تحسین ہے ۔ وہ کیوں کھڑے رہے اس کا جواب تلاش کریں تو ان کی سیاسی بصیرت اتنی ہی قابل افسوس ہے ۔ زندگی اللہ کی نعمت ہے ۔ اس کو گنوانا یا بے مصرف گزارنا گناہ ہے ۔ ہمیں عمر کے ایک ایک لمحے کے لئے جواب دہ ہونا ہے ”۔
اسی طرح جو احتجاج عمران کے دور حکومت میں حلال تھا اب آکراچانک حرام ہوگیا۔ خورشید صاحب اپنے 31 اکتوبر 2019 کے کالم ”فیصلے کا دن ”میں فضل الرحمان کے احتجاج کے بارے میں جو عمران حکومت کو گرانے کے لئے کیا گیا تھا ، لکھتے ہیں”کیا آج فیصلے کا دن ہے ؟ کیا آج پنجاب ” آزادی مارچ” کے لیے نکلے گا؟اس کا جواب مولانا فضل الرحمان کے پاس نہیں، ن لیگ کے پاس ہے ۔ جب اس نے ( نون لیگ ) آزادی مارچ کی تائید کا فیصلہ کیاہے تو پھر اس کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا پورا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دے ۔اس کے سیاسی مفاد کا بھی یہی تقاضا ہے ۔اگر لوگ نہیں نکلتے تو یہ مولانا کی نہیں نون لیگ کی ناکامی ہوگی۔جو حیثیت پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے ، وہی نون لیگ کی پنجاب میںہے ۔ اگر وہ پوری قوت مولانا کے پلڑے میں ڈال دے تو صرف پنجاب سے ایک لاکھ، کم و بیش، افراد اسلام آباد بھجوائے جا سکتے ہیں۔ اگرنون لیگ احتجاج کے ساتھ اپنی پچاس فیصد قوت بھی شامل کردے تو لاکھ دو لاکھ افراد کا اجتماع ایک قابل حصول ہدف ہے”۔لیکن اپنے 02 ستمبر 2023 کے کالم”رضاکارانہ ایمرجنسی” میںجب کمرتوڑ مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا خورشید صاحب اب عوام کو احتجاج کا حق دینے کو تیار نظر نہیں آتے ۔لکھتے ہیں”مجھے اپنی بات پر اصرار ہے کہ احتجاج مسئلے کا حل نہیں۔حل کہیں اور ہے ۔ جو حل تجویز کیے جارہے ، سب رومانوی ہیں۔ زندگی ہمیشہ سے حقیقت پسند رہی ہے ۔ مذہب کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ عالم نے ہر شے کی ایک تقدیر مقرر کردی ہے ۔ اسی کو سنت اللہ کہا جاتا ہے جو تبدیل نہیں ہوتی۔ جو خدا کو نہیں مانتا وہ اسے قوانین فطرت کہہ دیتا ہے ۔ نتیجہ دونوں باتوں کا ایک ہی ہے کہ ہر شے کی ایک تقدیرہے جو غیر متبدل ہے” ۔
یہ ہیں ہمارے خورشیدندیم صاحب جن کی زندگی کا واحد محور اور نظریہ نوازشریف اور صرف نوازشریف ہیں۔ وہ اُن کی ہر حالت کی تائید مذہبی مثالوں اور تاریخی حوالوں سے کرتے ہیں، مگر وہی حالات ہو بہو اُن کے مخالف رہنماؤں کو درپیش ہو تو وہی مذہبی مثالیں سکتے میں اور تاریخی حوالے سناٹے کے شکار ہو جاتے ہیںاور پھر اُن ہی حالات میں وہ مخالف رہنماؤں پر اپنی نئی کتاب الحیل سے حوالے ڈھونڈنے اور بہانے تراشنے کے آزمودہ مگر فرسودہ ہنر کو برتنے لگتے ہیں۔ یہ تضادات اُن کے مختلف ادوار کے کالموں میں جگہ جگہ نظر آتے ہیںا ور اُن کے سیاسی بدترین تعصبات کا چیخ چیخ کر اظہارکرتے ہیں۔ قارئین خود اُن کے اپنے ہی الفاظ میں اُن کی بصیرت و بصارت کا اندازہ لگائیں ، کہیں یہ رانگ نمبر تو نہیں ؟