میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کی پیش گوئی

مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کی پیش گوئی

جرات ڈیسک
اتوار, ۶ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھا ہے اور مہنگائی میں کمی آنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ آئی ایم ایف نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے مرکزی بینک کو مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کی پیش گوئی کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ساتھ ہی عالمی ادارے نے افراط زر کو روکنے کے لیے مانیٹری پالیسی کو سخت کرنے کا مطالبہ کیا اور مرکزی بینک نے اس کی تعمیل کی۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود مہنگائی کی شرح 2025 تک 25 فیصد کے لگ بھگ رہے گی۔پیٹرول کی قیمتوں میں اس تازہ اضافے کی مسلم لیگ ن کو بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یقینا انتخابات میں ہی آئے گا، جب عوام بیلٹ پیپر کا استعمال کریں گے۔ حکومت کو بھی ان فیصلوں کے نتائج کا ادراک ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن رہا ہی نہیں تھا۔ متوقع طور پر اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کی مہم اس بار ترقی اور معیشت کی بحالی کے وعدوں سے چلائے جانے کا امکان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برسوں کی مالی بد انتظامی نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، ساتھ ہی کووِڈ 19، توانائی بحران، خوراک کی قلت اور گزشتہ سال تباہ کن سیلابوں نے بھی معیشت کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ کریڈٹ بہرحال عمران خان کو جاتا ہے اور پوری دنیااس کا برملا اعتراف کرچکی ہے کہ کووڈ کے زمانے میں جب پوری دنیا بری طرح کساد بازاری کا شکار تھی اور صنعتیں بند ہورہی تھیں،عمران خان ملکی صنعتوں میں اس طرح جان ڈالی کہ بند صنعتیں بھی چل پڑیں اور ملک میں پہلی مرتبہ برآمدی آمدنی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے جبکہ موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کو جاری نہیں رکھ سکی جس کے نتیجے میں برآمدات میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کی پالسییوں کی وجہ سے برآمدی آمدنی اور بیرون ملک سے ترسیل زر میں کمی کی وجہ سے نوبت یہاں تک آ پہنچی کی پاکستان پر ڈیفالٹ کے بادل منڈلانے لگے اورعام پاکستانی اس معاشی اور سیاسی بحران کے نتیجے میں بدترین مسائل سے دوچار ہوگیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے خوراک کی قیمتوں میں 40 فیصد اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ غربت کی شرح 37.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گیا ہے جس سے درآمدی مصنوعات مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اگلے انتخابات میں کوئی بہتر انتخاب کر سکیں گے؟ فی الحال اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں