مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر
شیئر کریں
بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد لائحہ عمل کی تیاری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں شروع ہوا جس میں وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی اور کلسٹر بموں کے استعمال پر بحث کے لیے تحریک پیش کی تاہم تحریک میں آرٹیکل 370 کے بنیادی معاملے کو شامل نہ کرنے پراپوزیشن نے شدید احتجاج جس کے بعد اعظم سواتی نے آرٹیکل 370 کو بحث میں شامل کرنے کی ترمیمی تحریک پیش کی۔اپوزیشن کے مطالبے پر آرٹیکل 370 کے نفاذ سے پیدا شدہ صورتحال پر بحث کی تحریک منظور کرلی گئی اور اسپیکر نے بحث کے آغاز کرنے کے لئے شیریں مزاری کو مائیک دیا تاہم بحث کا آغاز اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے نہ کروانے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا جب کہ اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت کا بھی مطالبہ کیا۔اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔گزشتہ روز بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے اور ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جس میں مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورتحال پرغور کیا جائے گا۔واضح رہے کہ مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔دوسری جانب بھارت کی جانب سے ایل او سی اور آزاد کشمیر پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری میں ممنوعہ کلسٹر بموں کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے ، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بھارتی فوج لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے نشانہ بنارہی ہے ، بھارتی فوج نے 30 اور 31 جولائی کو آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں توپخانے کے ذریعے کلسٹر ایمونیشن کا استعمال کیا جس کے باعث 4 سالہ بچے سمیت 2 افراد شہید اور 11 شدید زخمی ہوگئے ۔ بھارتی فوج کی ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ اور ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے ۔