چین کے معاملہ میں غلطی کہاں ہوئی؟
شیئر کریں
وزیر اعظم نریندر مودی کے سواء ہندوستان کے کسی وزیراعظم نے بیجنگ کے زیادہ دورے نہیں کئے ہیں۔ انہوں نے جملہ 9 دورے کیے ، 5 مرتبہ ہندوستانی وزیر اعظم کی حیثیت سے اور 4 مرتبہ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے ۔ نریندر مودی کے بارے میں یہ بھی بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے چین کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی اور چینی قیادت کے ساتھ اس معاملہ میں وہ رابطے میں رہے ۔ جہاں تک ہندوستان اور چین کے درمیان 1962 کی جنگ کا سوال ہے پنڈت جواہر لال نہرو کے حامی اُسے ایک بہت بڑی غداری کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ لداخ 2020 معاملہ بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے 1962 کی جنگ سے قبل چین کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ وہ عظیم تر قدیم تہذیبی تصور کے خوبصورت فریب کی بنیاد پر تھی جبکہ مودی نے چین کے ساتھ جو قربتیں بڑھائی تھیں وہ نظریاتی طور پر کم اور شخصی زیادہ ہیں۔ چینیوں کے ساتھ مودی کی ملاقاتوں یا تعلقات کو تین سطحوں پر سمجھایا جاسکتا ہے ۔ پہلے تو یہ شخصی شکر گزاری کی بنیاد پر تھے ، آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت 2002 گجرات فسادات کے بعد مغربی ممالک نے مودی کا بائیکاٹ کیا تھا صرف 2 ایسے ممالک تھے جنہوں نے مودی کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تائید و حمایت کی اور یہ دو ممالک چین اور جاپان تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014 میں عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے فوری بعد مودی نے جس بڑے ملک کا پہلی مرتبہ دورہ کیا وہ کوئی اور ملک نہیں بلکہ جاپان تھا اور اس باوقار عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مودی نے جس پہلے بڑے عالمی رہنما کا سرزمین ہند پر خیرمقدم کیا وہ چینی صدر ژی جن پنگ تھے ۔ احمد آباد میں مختلف مقامات پر دونوں رہنماؤں کی جو تصاویر لگائی گئی تھیں ان سے دونوں رہنماوں کے درمیان خصوصی تعلقات کا ثبوت ملتا ہے ۔ ان دونوں اہم قائدین نے ہندوستان اور چین کے درمیان عدم اعتماد کا جو طویل ترین سلسلہ تھا اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا اور یہ وعدہ دال ۔ کھڑھی اور ڈھوکلا کھاتے ہوئے کئے گئے ۔ دوسری اہم سطح دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری پہلو ہے جس نے اس تعلق کو بہت زیادہ اہم بنا رکھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کبھی بھی چین کی سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی خانگی کمپنیوں کی تعریف و ستائش کو چھپا نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات میں درخشاں گجرات چوٹی کانفرنس منعقد کی گئی تب چینی کمپنیوں کی ایک کثیر تعداد نے گجرات کا رخ کیا اور ریاست گجرات میں کروڑہا روپے کا سرمایہ مشغول کیا۔ تیسری سطح طاقتور ہندوتوا قوم پرستی کا مودی برانڈ ہے ۔ اس برانڈ کی جارحانہ چینی قوم پرستی کے زی ویژن میں بھی اپنی بازگشت سنائی دی۔ دو طاقتور رہنما جنہیں اپنی پارٹیوں یا اپنی جماعتوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے دونوں کے سیاسی عروج کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں کئی ایک باتیں مشترکہ ہیں۔
اس کے باوجود سفارتی تعلقات خاص طور پر وہ جو ہندوستان اور چین کی حیثیت سے بھری ہوئی تاریخ کو دیکھتے ہیں وہ تاریخ صرف شخصی کیمسٹری پر تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ مشرقی لداخ میں جو خونی جھڑپ ہوئی ہے اس سے صرف اس شخصی برانڈ کی حامل سفارتکاری پر روشنی پڑتی ہے جہاں ادارہ جاتی میکانزم ایک شخصیاتی مسلک کی قیمت پر ترک کیا۔ مودی کے دور کو بحیثیت وزیر اعظم سفر کے شوقین کی حیثیت سے دیکھا گیا نتیجہ میں ہندوستانی وزارت امور خارجہ کے بوجھ میں کمی آئی اور وہ وزیر اعظم کے طور دیومالائی مشن کے ضمیمہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی ۔ پھر آیا وہ آنجہانی سشما سوراج ہو جنہوں نے پریشانی میں مبتلا ہندوستانیوں کے لئے مینارِ نور کا کردار ادا کیا یا پھر موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر جن کی مضبوط دانشورانہ صلاحیتوں اور سفارتی تجزیہ ایسا لگتا ہے کہ بہت کم شمار کیا گیا۔ پچھلے 6 برسوں کے دوران زیادہ تر توجہ مودی کی شبیہہ کو حالات کا رخ موڑنے والے اور کرشماتی لیڈر کی حیثیت سے فروغ دینے مرکوز کی گئی اور مودی کو ایک ایسا لیڈر بنانے پر توجہ دی گئی جس کا انداز اور مناظریات اکثر مادیت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
مودی کی طرز کارکردگی بالکل جداگانہ ہے اور جس طرح ژی جن پنگ نے کرشماتی شخصیت کا تاثر چھوڑا ہے اسی طرح نریندر مودی نے اپنے خامیوں اور مخالفین پر اپنی کرشماتی شخصیت کا تاثر چھوڑا ہے ۔ مثال کے طور پر سال 2015 میں اچانک ایک ڈرامائی فیصلہ کرتے ہوئے اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مبارکباد دینے کے لئے لاہور پہنچ گئے ۔ اس سلسلہ میں قبل از وقت کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ کسی کو کانو کان خبر نہیں ہوئی ان کا وہ دورہ پوری طرح غیر معلنہ تھا، اس طرح انہوں نے جس وقت امریکی صدر بارک اوبامہ اور ان کی اہلیہ مشعل اوباما نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود طیرانگاہ پہنچ گئے تاکہ اوبامہ اور ان کی اہلیہ کا استقبال کرسکیں۔ اس وقت نریندر مودی اوباما کے ساتھ غیر معمولی اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘‘میرے دوست بارک’’ کہتے ہوئے ان سے گرمجوشانہ انداز میں بغلگیر ہوئے ۔ مودی کے اس منظر کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا جب انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ فیملی کو احمد آباد کی سیرکروائی یا پھر ہیوسٹن میں بہت بڑی تقریب کے دوران جسے امریکہ میں ایک راک کنسرٹ یا موسیقی ریز پروگرام سے تعبیر کیا گیا اس میں تالیاں بجائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خطرناک سرخیاں اور فن سے بھرپور ایونٹ مینیجمنٹ 24×7 نیوز کوریج کو یقینی بناسکتا ہے لیکن جان توڑ سفارت کاری کا نعم البدل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لئے میدان عمل میں اتر پڑتا ہے اور تعلقات کے شخصی تعلقات سے بالاتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہمیں یہ بھی نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ لاہور میں مودی۔ شریف قربت کے اندرون چند ہفتے پٹھان کوٹ میں واقع ایک ائیرفورس اسٹیشن میں دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا جس کے بعد 2016 میں سلسلہ وار خودکش دھماکوں کے واقعات پیش آئے ۔اب جب کہ ہمارے وزیر اعظم نے مالاپورم تفریحی مقام پر چینی صدر ژی جن پنگ کی میزبانی کئے ہوئے 8 ماہ سے بھی کم عرصہ ہوا ہندوستان نے لداخ میں چینی سپاہیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں اپنے کئی سپاہیوں کو کھو دیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین کے معاملہ میں غلطی کہاں ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔