کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکاردو ارکان مستعفی ہوگئے
شیئر کریں
(رپورٹ: اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نو تشکیل کی سندھ اسمبلی سے منظوری کے بغیر بورڈز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا،دو ارکان مستعفی ہوگئے،دو ارکان سرکاری ملازمین ہیں، ایک واٹر بورڈ کا پیشنرجبکہ ایک خاتون رکن پانی سے مفاد کا ٹکراؤ رکھتی ہے،ایک رکن واٹر بورڈ کے لیگل افیئر دیکھ رہے ہیں وہ واٹر بورڈ کے معاملات چلانے کے اہل نہیں، پہلی بار بورڈز کے ارکان کوڈھائی لاکھ روپے ماہانہ بھاری مشارہ ومرعات الاؤنس کے علاوہ ان کو دفاتر الاٹ کیے جائیں گے،لیٹر نمبر KWSB/HRD7A/DA/620بتاریخ یکم جولائی 2020ء جاری کردہ حکمنامہ میں چیئر مین سیکریٹریٹ کے گراؤنڈ فلو ربلاک ایف نائن کارساز شاہراہ فیصل کو فوری طور پر کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کا بورڈسیکریٹریٹ آفس قراردیدیا گیا ہے جہاں بورڈ کے ارکان باقاعدہ تعینات ہوں گے، بورڈ نے اپنا سیکریٹری وقار ہاشمی کے تقرری کی سفارشات بھی سندھ حکومت کوارسال کردیں ہے،چیئرمین سیکریٹریٹ میں پہلے سے چیئر مین اور وائس چیئرمین کے دفاتر موجود ہیں، نئے حکمنامہ میں واضح نہیں کہ کتنے ارکان کیلئے دفاتر قائم کیا جائے گا۔گروپ اے میں شامل ارکان میں کسی کو بھی دفتر کی ضرورت نہیں،دلچسپ امر یہ ہے کہ وائس چیئرمین کا نئے بورڈ میں عہدہ نہیں رکھا گیا ہے، ان کا دفتر پہلے سے موجود ہے اور یہاں سے بیٹھ کر اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقاتیں سرکاری خرچے پر کررہے ہیں،سندھ حکومت نے کراچی واٹر بورڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نوکردی ہے،سندھ اسمبلی سے بورڈ کی ترمیم کیے بغیر یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے،اور حیرت انگیز بات یہ کہ بورڈ کے ارکان نئے بورڈ کا نیاقانو ن ترمیم ایکٹ بنائیں گے،جو اپنے نوعیت کا انوکھی مثال قائم کردی گئی، اس موقع پر بورڈ کے نئے قوانین کا مسودہ تیار کرنے کی سفارشات غیر قانونی ہوں گی،یہ کام قانونی ماہرین کرتے ہیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ایکٹ 1986ء بنا تھا، اور نئے ایکٹ کی تشکیل سے قبل بورڈ کے کی تشکیل کا عمل بھی غیر قانونی ہے،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ آف ڈائریکٹرز 15ارکان پر مشتمل ہوگا،یہ دو گروپوں یعنی اے اور بی گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے،گروپ اے میں چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات ناصرحسین شاہ، میئر کراچی وسیم اختر، سیکریٹری بلدیات روشن شیخ، فنانس، پلاننگ سیکریٹریز، ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ اراکان میں شامل ہیں،نئے حکمنامہ میں وائس چیئر مین کا عہدے ہی نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ گروپ بی میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے آٹھ ارکان پر مشتمل ہے ان ارکان میں ڈاکٹر نعمان احمد،آرکیٹکٹ انجینئر چیئرمین این ڈی یوروسٹی، گریڈ 22آفیسر ہے،سرکاری ملازم ہے ان کو قانون کے مطابق بورڈ کے رکن منتخب نہیں کیا جاسکتا ہے، بیرسٹر عبدالستار پیرزادہ،واٹربورڈکے لیگل افیئر عرصہ دراز دسے واٹر بورڈ دیکھ رہے ہیں،تاحال K-4منصوبے کے لیگل ایڈوائر ز کے فرائض ادا کررہے ہیں، وہ بورڈ کے مراعات یافتہ ہونے کی وجہ سے بورڈ کے رکن نہیں بن سکتے،محمد رضوان رؤف،آڈٹ فرم چلاتے ہیں ان کو بورڈ کا رکن بنانا حیرت کی بات ہے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے،طارق حسین بھی چارٹر اکاؤنٹ ہے،اسد علی شاہ،قائم علی شاہ کا بیٹاچارٹر اکاؤنٹ ہے، آڈٹر فرم کے مالک ہے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ خاتون رکن صدف کمال، ایثار فاؤنڈیشن چلاتی ہے،پانی پروٹیز ایولیشن یوایس ایڈسے منسلک ہے، اسلام آباد میں کام کرتی ہے ان کو کراچی میں نمائندہ مقرر کرنا شہر سے زیادتی ہے۔محمد سلمان چانڈیو، ادارے سے پنشن وصول کررہے،ان کی پیدائش سند میں تبدیلی جعلسازی کرنے کے الزام میں کیس چیف سیکریٹری سمیت دیگر فورم پر چل رہا ہے،مفاد عامہ کے ٹکراؤ کے باعث سلمان چانڈیوکی تقرری غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے،کراچی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شامل ہیں، جس کے تحت صرف سلمان چانڈیو کو اب نئے حکمنامہ کے تحت دیگرا ر کان بھی دفاتر استعمام کریں گے،مالی بحران کا شکار کراچی واٹر بورڈ کے چیئرمین سیکریٹریٹ پر تنزئین وآرئش کیلئے کروڑ روپے کاخرچ کے ایم ڈی نے حکمنامہ جاری کردیا ہے،نوٹیفکیشن کے مطابق بورڈ کے ہر اجلاس میں دو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے چیئر مینوں کو بطور مبصر کی حیثیت سے مدعو کیا جاسکتا ہے اور وہ بورڈ کے ذریعہ تشکیل دی جانے والی کسی بھی زیلی کمیٹی کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں،بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے قانون میں ترامیم کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے،گروپ بی کے ارکان کی مدت چارسال ہوگئی،اجلاس میں کسی بھی ممبر کا کوئی نمائندہ شرکت نہیں کرے گا۔مینجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کا سیکشن (1)5کے تحت حکومت سندھ کے سپرد ہے،تشکیل نو بورڈ کا ایم ڈی کی خدمات حاصل کا اختیار دیا جائے، ایم ڈی کے اختیارات بھی کم کردیے گئے، بورڈ کی افادیت کیلئے وقتاً فو قتاً اس کا جائز ہ لیا جائے گا،اور اس میں ترمیم کی جائے گی، وقتاً فوقتاً اس کی کارکردگی کی نگرانی میں اہم کارکردگی کی سفارشات مرتب کرے گا۔بورڈزپانچ سال کاپانی سیوریج کے بزنس پلان بنائیں گے، اور دیگر بنیادی ذمہ داریوں میں مینجنگ ڈائریکٹر، انٹر آڈٹ، ریفامز ڈائریکٹر، اور مختلف بورڈ کی کمیٹیوں کا قیام، سالانہ بجٹ پر نظر ثانی اور منطوری اور پانی اورسیوریج کے ٹیرف کی منظوری کا اختیار دیدیا گیاہے،بورڈ زکو 10کروڑ روپے (100ملین)تک کے اخرجات کی منظوری دینے کا اختیار ہوگا،اس سے قبل بورڈ کو لامحدود اختیارات حاصل تھے،کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے تمام فیصلہ سازی بورڈ کے ذریعے کی جائے گی، چیئر مین آرٹیکل(1)6 Cکا استعمال بند کردے گا، ایسے تمام معاملات بورڈ کے سامنے بروقت پیش کیے جائیں گے،بورڈ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایکٹ 1996ء پر نظرثانی کرے گااور تعاون کی واسبتگی کمٹمنٹ آف کارپوریشن کی دستاوئزات میں اتفاق رائے کی بہتری کی تجویز کرے گا،یہ غیر معمول کے فیصلے کرنے کی واضح انتظامی مینڈیٹ کے ساتھ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو زیادہ خودمختار بنانے کے طریقے اور ذرائع کا تعین کرتا ہے،بورڈ پورے ادارے کے کاروبار کے نئے قواعد منظورکرے گابورڈ کا کورم طے شدہ اجلاسوں کے علاوہ ارکان کی کل تعداد کا نصف ہوگا، اراکین میں سے ایک آدھے فرد کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ غیر معمولی اہمیت کے معاملے کو جان بوجھ کر کسی بھی ہنگامی ملاقات کی درخواست کرے گا۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورد کے تنظیم نو بورڈ آف ڈائریکٹرز بالا خرمینجنگ ڈائریکٹر کے اختیار کو کم کردیں گے، کیونکہ وہ کراچی واٹر اینڈ سیویج بورڈ کے بارے میں فیصلے مکمل طور پر نہیں لے سکتے اور نفاذ نہیں کرسکیں گے،ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ من پسند افراد کو واٹر بورڈ سپرد کردیا گیا، جن پر پانچ چھ کروڑ روپے خر چ کیا جائے گا، جو سراسر زیادتی ہے ،ملازمین تنخواہوں اور الاؤنس سے محروم ہیں دوسری جانب ای سی، لگثری فرنیچرز اور دیگر سامان خریداری جاری ہے۔