میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی اسرائیل یاترا

بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی اسرائیل یاترا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسرائیل کی حکومت نے پاکستان کے خلاف بھارت کی غیر مشروط اور مکمل مدد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اور لشکر طیبہ میں کوئی فرق نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے دورہ ٔاسرائیل پر تل ابیب پہنچنے پر اسرائیل کے وزیراعظم نے بذات خود ان کاپرتپاک استقبال کیا ،نریندر مودی صہیونی ریاست کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں۔ اس موقع پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مارک صوفر نے مقبوضہ بیت المقدس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور اسرائیل دونوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اسرائیل بھارت کو پاکستان سے درپیش دہشت گردی سے نمٹنے میں مکمل مدد دے گا۔
مارک صوفر نے کہا کہ اسرائیل نے کبھی اپنے عزائم نہیں چھپائے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھارت کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرتا ہے،انھوں نے کشمیر کاحوالہ دیے بغیراپنے حق خود اختیاری کے لیے جدوجہد کرنے والے مظلوم کشمیریوں کو یہ کہہ کر دہشت گرد ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بھارت کو نہ صرف پاکستان بلکہ اندرون ملک بھی دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کا حالیہ تاریخ میں مشاہدہ کیا گیا ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لشکر طیبہ ہو یا حماس دونوں میں کوئی فرق نہیں ، نہ ہم نے پہلے ان دونوں تنظیموں میں کوئی فرق کیا نہ آج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور اسرائیل دونوں ہم خیال ممالک ہیں جنہیں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی، کیونکہ کوئی ملک تن تنہا یہ کام نہیں کرسکتا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں دہشت گردی پر بات ہوگی۔
اسرائیلی رہنمائوں کو خوش کرنے کے لیے بھارتی رہنمائوں نے اپنے اس دورے میں فلسطینیوں کوقطعی نظر انداز کیاہے اوراپنے اس دورے میں رملہ نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اب تک اسرائیل کا دورہ کرنے والے تمام غیر ملکی رہنما فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ رملہ کا دورہ ضرور کرتے ہیں ۔
مودی کی طرف سے اس طرح واضح طور پر فلسطین کو نظر انداز کرنا اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی نئی حکمتِ عملی کی طرف اشارہ ہے۔بھارت اور اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ تعلقات 1992 میں قائم ہوئے لیکن اس میں تیزی بی جے پی کی حکومت میں آئی۔بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسرائیل کی حکومت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رہی ہے جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ بھارت نے 2کروڑ کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل انھیں کچلنے پر جھونک دیے ہیں اور اس کی 7لاکھ سے زیادہ فوج حق خود اختیاری کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کوکچلنے کے لیے بربریت کی آخری حدوں کو چھورہی ہے ، جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج نے مظلوم فلسطینیوں کی زندگی عذاب بنارکھی ہے ، کبھی ان کی بجلی بند کردی جاتی ہے کبھی پانی اور کبھی ان کے روزگار کے راستے بند کرنے کے لیے ان کی آمدورفت کو محدود بلکہ مسدود کردیاجاتاہے۔ اسرائیلی فوج کسی جواز کے بغیر جب چاہے فلسطینیوں کے علاقوں پر گولہ باری شروع کردیتی ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے اسرائیلی فضائیہ کے طیارے غزہ کے علاقے کوتاراج کرنے کے لیے بمباری شروع کردیتے ہیں۔ یہی وہ قدر مشترک ہے جس نے بے جے پی اور اسرائیلی حکومت کو یک جان اور دوقالب بنادیا ہے ۔اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے دوران 1999 میں کارگل کی لڑائی کے وقت ان دونوں ممالک کے تعلقات کافی آگے بڑھے تھے۔ اس وقت اسرائیل نے بھاری تعداد میں اسلحہ اور دیگر فوجی سازوسامان بھیج کربھارت کی بہت مدد کی تھی۔در اصل بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسرائیل کا ’پولیٹکل آؤٹ لک‘ کافی ملتا جلتا ہے ۔
اس صورت حال میں یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران دونوں ملکوں میں جاری موجودہ تعاون میں اور اضافہ ہو گا۔ بھارت نے چار پانچ برس قبل اسرائیل کی فوجی سیٹلائٹ کو بھی لانچ کرنے میں مدد کی تھی۔اسرائیل گزشتہ 15 سے 20 سال میںبھارت کو دفاعی ساز و سامان دینے کے معاملے میں چوتھا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ اس ضمن میں امریکا، روس اور فرانس کے بعد اسرائیل کا نمبر آتا ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو کئی طرح کے میزائل سسٹم، ریڈار اور ہتھیار مہیا کیے ہیں۔اسرائیل بذات خود بہت بڑے پلیٹ فارم اور جہاز نہیں بناتا لیکن وہ میزائل اور ریڈار کا نظام بناتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی ابتدا سے ہی اسرائیل کی ہامی رہی ہے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بہت گہرے ہوئے ہیںگزشتہ ڈیڑھ عشرے میں بھارت کا اسرائیل پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران جو دفاعی معاہدے ہوں گے، ان کے حوالے سے کافی عرصے سے بات چیت چل رہی ہے۔بھارت ا اور اسرائیل اپنے تعلقات پر خاموشی سے کام کرتے ہیں۔بھارت دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور وہ آئندہ کئی سالوں تک اسرائیل کا اہم صارف بنا رہے گا۔بھارت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بھی کافی تعاون ہوتا ہے۔اسرائیل نے سفارتی، سیاسی اور دفاعی لحاظ سے بھارت کو یہ بتایا ہے کہ جس طرح سے اس کے ملک کے آس پاس کئی اسلامی ممالک ہیں اسی طرح بھارت کے سامنے بھی اسلامی خطرہ موجود ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران بھارت اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے متوقع فوجی معاہدے یقینی طورپر پاکستان کے لیے باعث تشویش ہوں گے کیونکہ اس سے اس خطے میں طاقت کاتوازن خراب ہوگا اور بھارتی رہنمائوں کو کشمیریوں پر مزید ظلم توڑنے کی شہہ ملے گی۔ اس صورت حال میں ہماری وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو پیش بندی پر غور کرنا چاہئے اور بھارت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لیے قابل عمل حکمت عملی وضع کرنے پر غور کرنا چاہئے۔خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کاتقاضا ہے کہ فوری طورپرایک کل وقتی وزیر خارجہ کاتقرر کیاجائے تاکہ خارجہ محاذ پر بھارت کی چالبازیوں کاموثر طورپر جواب دینا ممکن ہوسکے اور اس کی ہوس ملک گیری اورکشمیری عوام پر اس کے ظلم وجور کو عالمی برادری کے سامنے بروقت بے نقاب کرکے کشمیری عوام کو ان کاحق خود اختیاری دلانے کی راہ ہموار کی جاسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں