کچہری نامہ (٣)
شیئر کریں
زریں اختر
میاں بیوی میں علیحدگی ہوچکی تھی ، عورت نے خلع لی تھی ۔ یہ مقدمہ باپ کو بچوں سے ملنے کے لیے دن اور وقت طے کیے جانے سے متعلق تھا ،شوہر موجود تھا ،اس نے کوئی وکیل نہیں کیا تھا،وہ اپنا مقدمہ خود ہی لڑ رہاتھا،اس لیے نہیں کہ اس کے پاس وکیل کو فیس دینے کے پیسے نہیں ہوں گے بلکہ اس لیے کہ وہ تیز تھا ، اس کے چہرے کے تاثرات اور نقش بھی یہی بتا رہے تھے۔ جب انسا ن کے چہرے پر اس کے مزاج کے مطابق ایک نوعیت کے تاثرات آتے ہیں تو وہ تاثرات بھی چہرے کے نقوش کا حصہ بن جاتے ہیںمثلاًجن کی ناک بھوں چڑانے کی عادت ہوتی ہے ان کی ناک وہ شکل اختیار کرلیتی ہے ، جو زیادہ غصہ کرتے ہیں اور اپنے ہونٹ سیکڑے رکھتے ہیں ان کے ہونٹ نارمل موڈ میں بھی سکڑے ہوئے رہنے لگتے ہیں،مزاج کا غالب حصہ چہرے پر اپنا اظہار کرنے لگتاہے ۔ تو لڑکا تیز تھا،زیادہ تیزی تیز ہوا ، تیز آندھی کی طرح بہت کچھ اڑا کر لے جاتی ہے ، تیز بارش دیہاتوں میںفصلوں کو ڈبو دیتی ہے توشہروں میں سڑکوںکو اور تیز لہر توبعض اوقات ایک نہیں دو دو تین تین زندگیاں ایک ساتھ لے جاتی ہے ، اس سے زیادہ بھی ،پورے پورے خان دان۔ کبھی انسان ان بیرونی فطری تیزیوں سے خودکو بچا نہیں پاتا اور کبھی اندرونی تیزیاں اسے کورٹ میں گھسیٹ لاتی ہیں۔ اگر دوسری طرف بھی ایسا ہی معاملہ ہوتو مقابلہ کانٹے کا بن جاتا ہے اورایسے لوگ اپنی زندگی میں خود ہی کانٹے بوتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بچے بھی اس کی فصل کاٹتے ہیں ، اگرایک آندھی ہواور دوسرا پانی بن جائے تو آندھی کا زور کم ہوکر ٹوٹ جائے گا ،گاڑی چل جائے گی اور چلتی رہے گی لیکن اگر دونو ں ہی آندھی ہوں تو ۔ ۔۔تو یہ کہ میاں بیوی اور بچیاں یعنی پورا گھرانہ کچہری میں تھا ۔اگر گھر کے مسئلے گھر کی چار دیوار ی میں حل نہ ہوتو پھر کچہری ہی ہے، ہر فریق یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو مزا چکھا رہا ہے اور اس خام خیالی بلکہ بد خیالی میں وہ اپنے دھکے بھی بھول جاتاہے۔ بیوی نے وکیل کیا ہوا تھا، وکیل اپنے معاون وکیل کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں تو عورت کی طرف سے دو وکیل جج صاحب کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے لیے موجود تھے اور دوسری طرف شوہر کھڑا تھا کیو ںکہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑ رہاتھا، یہی لڑائی وہ مرد کبھی تنہائی میں بیٹھ کر خود سے لڑ لیتا تواس دن تنہا عدالت میں نہ کھڑا ہوتا۔ بعد میں عورت عدالت آئی اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔ یہ دونوں پڑھے لکھے اورکھاتے پیتے گھرانے کے تھے ۔ بیوی معلوم ہورہا تھا کہ کسی اچھی جگہ اچھے عہدے پر کام کر رہی ہے،سنجیدہ اور سپاٹ چہرہ لیے بینچ کے ایک طرف بچیوں کو لے کر بیٹھ گئی۔
عورت کے وکلا ء کا موقف تھا کہ بچیاں اپنے باپ سے ملنے جائیں گی لیکن رات کو وہاں رکیں گی نہیں ، صبح سے شام تک باپ بیٹیوں کو اپنے پاس رکھ سکتاہے لیکن رات کو بیٹیاں واپس ماں کے پاس بھیج دی جائیں ۔ باپ کا موقف تھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹیوں کو رات کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، وہ ان بچیوں کا گھر ہے ، وہاں ان بچیوں کا الگ کمرا ہے۔ کچھ دیر کے لیے باپ اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ بینچ پر بیٹھا ۔انگریزی میں بات کررہاتھا اور بچیاں بھی اسے انگریزی میں جواب دے رہی تھیں، کہیں بچیاں باپ سے محبت و قربت محسوس کرتیں اور کہیں وہ کچھ فاصلے پر بیٹھی اپنی ماں کی طرف دیکھتیں ، باپ کہتا میری طرف دیکھو ، وہ آپ کا گھر ہے نا، وہاں آپ کا کمرا ہے ، آپ وہاں کیوں نہیں رہ سکتیں۔مجھے یہ منظر دیکھ کر پی ٹی وی کا ایک ڈرامہ یادآیا ،جس میں باپ کا کردار محمود صاحب کررہے تھے ،وہ اسی طرح کمرئہ عدالت میں بچوں سے ملتے ہیں ،بچوں کو چاکلیٹیں دیتے ہیں تو بچہ اس کو لینے سے انکار کردیتاہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کیوں یہ تو آپ کی پسندیدہ چاکلیٹ ہے ، بچہ کہتاہے نہیں نہیں ،مجھے نہیں کھانی ، یہاں باپ یعنی محمود صاحب کا کردار ایک مکالمہ بولتاہے کہ ‘اس نے تمہارے ذہنوں میں بھی زہر بھر دیاہے۔’
میا ں بیوی اپنے اختلافات میں اپنے بچوں کو استعمال کرکے بہت بڑی بد اخلاقی بلکہ بد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ خود ان کے بچوں کی تربیت اور شخصیت کی بڑھوتری کے لیے انتہائی مضر ہے۔ تیزی سوچ پر دھند کی طرح چھا جاتی ہے ، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میاں بیوی کا رشتہ ان کا ہے ،بچوں کے وہ ماں اور باپ ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ بچیاں باپ سے اکھڑی اکھڑی تھیں۔ یہ سب جج صاحب بھی دیکھ رہے تھے۔ وہ عورت کے اس مطالبے سے متفق نہیں تھے کہ بچیاں رات کو اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے تبصرے (ریمارکس) میں کہا کہ اگر ماں کو کچھ ہو جاتا ہے تو بچیاں کہاں جائیں گی؟ یہی وہ فراست ہے اور دور کی وہ سوچ جہاں دھند آلود ذہن نہیں پہنچ پاتا۔ اگر کوئی ایک فریق دوسرے کی طرف سے بچوں کے ذہن کو اس کے خلاف بنادے اور اگر ان میں سے کسی فریق کو کچھ ہوجائے تو بچے کہاں جائیں گے ؟ کسی کو کبھی بھی کچھ بھی ہوجانا ، یہ کوئی ان ہونی نہیں ، یہی جج صاحب بھی فرما رہے تھے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بچیاں باپ سے کھنچی کھنچی ہیں ، اور یہ نہیں ہونا چاہیے ،تو اگر کل کلاں ماں کو کچھ ہوجاتاہے تو بچیاں باپ کے پاس نہیں جائیں گی تو کس کے پاس جائیں گی ؟ وہ گھر جو اتنا بڑا تھا کہ بچیوں کے لیے الگ کمرا تھا۔ باپ کا گھر اور جہاں ماں اپنی بچیوں کے ساتھ رہ رہی تھی ، شاید میکہ وہ ایک ہی علاقے بلکہ محلے میں تھے ۔ممکن ہے یہ ان کی پسند کی شادی ہو، کیوں کہ نہ شوہر کے ساتھ کوئی رشتہ دار موجود تھا اور نہ بیوی کے ساتھ ،شوہر اکیلا تھا اور بیوی کے ساتھ وکیل اور بچیاں تھیں، مغربی لباس میں ، صحت مند ، اسمارٹ ،فر فر انگریزی بولتی پر اعتماد بچیاں۔
باپ ماں کی نوکری کے متعلق یہ کہہ رہا تھاکہ یہ کون سا بچیوں کو وقت دیتی ہیں ،یہ تو خود جاب پر ہوتی ہیں۔ عورت کے نوکری کرنے کے کئی عجیب و غریب نتائج ہیں ۔ مسائل وہاں ہوتے ہیں جہاں مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی گھرکو دیکھے لیکن دوسری طرف بیوی اپنے کیریئر کو بھی دیکھنا چاہتی ہے، اگر یہاں مرد ساتھ دے دے تو ۔۔۔لیکن مرد نہ چاہے کہ عورت نوکری کرے ، اس کے چاہنے پر بھی نہ چاہے ،ساتھ نہ دے تو ۔۔ اس مقدمے میں میاں بیوی میں معاملے کی نوعیت مجھے یہ لگی ۔
عورت بچیوں کو لے کر چلی گئی ، مرد عدالت میں موجود تھا ، کبھی یہ پرچہ جمع کرارہا ہے ، کبھی کسی پرچے کی کاپی ،کبھی کچھ کبھی کچھ ، کیا خواری
ہے ؟ کمرئہ عدالت میں جہاں جج صاحب نہ عورت کے رشتے دار نہ مرد کے ، جج صاحب نے مرد سے کہا کہ جھگڑا ختم کرو ،بیوی کو گھر لے آئو۔ مرد نے کہا کہ وہ خلع لے چکی ہے ۔ یہاں جج صاحب نے تاریخی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘ ‘ خلع کے پرچے میں کیا رکھا ہے ، پھاڑ کر پھینک دو۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔