انتخابی نتائج سے پتہ چلے گا!!
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
ترکیہ کا آئندہ صدر کون ہوگا اور پارلیمنٹ کی چھ سونشستوں کے فاتح کون ہوں گے ؟ رواں ماہ چودہ مئی کو ترکیہ میں ہونے والے انتخابات سے اِ ن سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ یہ انتخابات ہی رجب طیب اردوان کی بطورصدراپنائی پالیسیوں کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق بھی کریں گے۔ اب ترک قوم کیا فیصلہ کرتی ہے ،دنیا یہ جاننے کے لیے بے چین ہے کیونکہ یہ انتخابات ترکیہ کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے لیے بھی نہایت اہم ہیں۔ انتخابات سے یہ معلوم کرنے میں آسانی ہوگی کہ ترکیہ نے مستقبل میں امریکہ اور یورپ سے فاصلہ رکھنا ہے یا نیٹو کے ممبر کی حیثیت سے امریکہ اور یورپی یونین کے ہرفیصلے کی تائید کرنی ہے۔ موجودہ صدر ایردوان نیٹو کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے دورِ اقتدار میںاکثر آزادانہ فیصلے کرتے رہے۔ انھوں نے امریکی اور یورپی اقوام کی منشا کے مطابق چلنے کی بجائے ملکی مفاد مقدم رکھا۔ سرمایہ کاری ،تجارتی اور دفاعی تعاون میں روس، مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کوترجیح دی۔ امریکی ناپسندیدگی کے باجود روس سے جدید ترین میزائل نظام لیکرملک کی دفاعی صلاحیتیں بہتربنائیں ۔ انھوں نے فوجی بغاوت میں فتح اللہ گولن کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکہ سے حوالگی کامطالبہ کیا،جواب میں انکار پر روس کی طرف جھکائو بڑھایا۔رواں ماہ کے ا نتخابی نتائج سے یہ جاننے میں بھی مددملے گی کہ امریکی مداخلت کے حوالے سے عوام اپنے صدر کو راست تصورکرتی ہے یا نہیں ۔
ترکیہ نے حال ہی میں ایک ایسے تباہ کُن زلزلے کا سامنا کیا ہے جس سے ملک کے گیارہ صوبے متاثر ہوئے ۔یہ زلزہ اندازاََپچاس ہزار کے قریب اموات کا باعث بنا جبکہ ایک لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد معذورہونے والوں کی بھی ہے۔ مکانات اور کاروباری مراکز کو بھی شدید نقصان پہنچا ۔اِس قدرتی آفت کی وجہ سے ہی ایک سے زائد سیاسی جماعتوں نے حکومت سے انتخابی عمل موخر کرنے کا مطالبہ کیا ۔کئی جماعتوں نے توزلزلے کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اگلے برس انتخاب کرانے کی تجاویز دیں لیکن صدر ایردوان نے ایسی تمام ترتجاویز کو پایہ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے انتخابی عمل ملتوی کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ طے شدہ انتخابی شیڈول رواں برس جون کی بجائے مئی میں انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا ۔یہ خود اعتمادی سے بھرپوراہم فیصلہ تھا لیکن یہ خود اعتمادی کس حدتک درست ہے یہ جاننے کے لیے چودہ مئی کے انتخابی نتائج آنے تک انتظار کرنا پڑے گا ۔اب تک ہونے والے دس انتخابی جائزوں کے مطابق کسی بھی امیدوار کو انتخاب میں فیصلہ کُن برتری حاصل نہیں۔ صدر ایردوان کو اپنے حریف امیدوار پر معمولی برتری حاصل ہے حالانکہ آئین میں کامیابی کے لیے پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔ مگر دونوں بڑے امیدوار اردوان اورکلی چی داراولوموجودہ انتخابی عمل سے آئین کی طے کردہ حد کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ تمام جائزوں میں لگ بھگ اول الذکر43 جبکہ ثانی الذکر42فیصد کے قریب ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی بناپر اکثر ماہرین اِس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید ہی کوئی امیدواراکیاون فیصدووٹ حاصل کر سکے اور ممکن ہے انتخاب کا دوسرامرحلہ 28 مئی کو ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو صرف پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار میدان میں رہ جائیں گے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ چودہ مئی کے انتخاب صدرایردوان کی کامیابی یا ناناکامی کے علاوہ اُن کی سیاسی قسمت کا فیصلہ بھی کردیں گے۔ اگر وہ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو امریکہ اور یورپ سے فاصلہ رکھنے کی پالیسیاں نہ صرف غلط ثابت ہوں گی بلکہ ترکیہ کا اسلام پسند تشخص بھی متاثر ہوگا نتائج کامطلب یہ ہوگا کہ ترک قوم کواپنی سیکولر شناخت عزیز ہے۔
اردوان کی کوشش ہے کہ ترکیہ کی عالمی شناخت ایک مضبوط اور اسلام پسند ملک کی ہو۔ وہ مغرب اور امریکہ کی ناپسندیدگی کو اہمیت نہیں دیتے۔ گزشتہ ماہ ہی روسی تکنیکی تعاون سے ملک کے پہلے جوہری پلانٹ کی تعمیرمکمل کر چکے ہیں۔ ترک النسل ممالک کو قریب لانے کے لیے اِن ملکوں کی تنظیم بنانے میں بھی اُن کا کلیدی کردار کسی سے ڈھکا چُھپانہیں ۔وہ چاہتے ہیں مقامی طورپر تیار کی گئی پہلی الیکٹرک کارکی رونمائی،بحری صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ملک کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری، ملکی طورپر تیارہونے والے ٹینکوں کے دویونٹ فوج کے حوالے کرنے ،بحیرہ اسود سے قدرتی گیس حاصل کرنے کے ایک ماہ کے جشن کا آغاز،انقرہ میں ایک خوبصور ت آرام دہ نئی میٹرولائن کی شروعات،ارتھ آبزرویشن سیٹلائٹ کی لانچنگ جیسے منصوبوں کاعوام اُنھیں کریڈٹ دیں ۔اس کے لیے وہ اِن منصوبوں کی تشہیر میں خاصے سرگرم ہیں ۔ وہ ترکیہ کی بہتری امریکہ سمیت مغربی ممالک پر انحصار کرنے کی بجائے دیگر آپشنز پر توجہ مرکوز کرنے میں دیکھتے ہیں۔چودہ مئی کے انتخابات نہ صرف صدرایردوان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے بلکہ اکثر مبصرین اِن انتخابات کوخارجی حوالے سے امریکہ سمیت مغربی ممالک سے ترکیہ تعلقات کا فیصلہ کرتے دیکھتے ہیں۔ صدرایردوان عام ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ایک برس کے دوران 19 ہزار گھر متاثر ہ لوگوں کودینے کامنصوبہ ،گھریلوصارفین پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے مفت قدرتی گیس فراہم کرنے کے علاوہ پچیس کیوبک میٹر تک ماہانہ گیس استعمال کرنے والوں کو بھی ایک سال تک یہ سہولت مفت فراہم کرنے جیسے وعدے کررہے ہیں ۔یہ معمولی وعدے نہیں بلکہ عام ووٹروں کے لیے نہایت پُرکشش ہیں مگراِس میں بھی شائبہ نہیں کہ ترک معاشرے میں تبدیلی کی لہریں بھی ہلکورے لے رہی ہیں۔ اسی لیے تمام ترترقی اورسہولتوں کے باوجود صدرایردوان کو اپنے مخالف امیدوار پرکچھ زیادہ نہیں محض معمولی برتری ہے۔
امیدوار ووٹروں کولبھانے کے لیے انتہا تک جانے میں بھی عارتصورنہیں کرتے۔ کیونکہ اُن کا اولین مقصد جیت ہوتی ہے ۔دوسرے اہم صدارتی امیدوارکلی چی داراولو نے سیکولر نظریہ کے نفاذ میں سختیاں اور فوج کو سیاست میں لانے کے حوالے سے اپنی جماعت کی پالیسیوں پر بڑی حد تک نظرثانی کر لی ہے۔ وہ کسی ایک مذہب کی بجائے تمام مذاہب کی عبادات ،رسوم ورواج میں حکومتی مداخلت کوغلط کہتے ہیں۔اُن کی جماعت 1979 سے اقتدار سے باہر ہے۔ اب وہ کھویااقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کررہے ہیں۔انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے صرف تین ماہ بعد یورپ کے لیے ترک شہریوں کو ویزافری سہولت دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ ترک شہریوں کا دیرینہ خواب ہے۔ اسی لیے ووٹروں میں جوش وخروش کاباعث ہے حالانکہ یہ وعدہ پورا ہونے کے امکانات روشن نہیں تاریک ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے ترکیہ کی بات چیت 2016سے عملی طورپرمنقطع ہے۔ یورپی یونین کی تنظیم ای یو کی بہتر میں سے پانچ ایسی شرائط ہیں جنھیں پوراکرنے سے ترکیہ ابھی تک انکاری ہے جن میں ایک اہم شرط انسانی حقوق سمیت ہم جنس
پرستوں کوکھلی آزادی اور تمام تر حقوق دینے کا مطالبہ ہے۔ اسی طرح یورپ کے ساتھ آپریشنل تعاون کا ایک وسیع تر معاہدہ، بدعنوانی جیسے جرائم پر قابوپانے کے لیے ترکیہ قوانین میں ردوبدل،ڈیٹا کے تحفظ کا قانون بنانے اور دہشت گردی کے متعلق یورپی معیار کے مطابق چلنے کے لیے قانون سازی جیسے مطالبات شامل ہیں ۔پھربھی جانے کیوں کلی چی داراولوبات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں؟ اگرایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیا جائے کہ اقتدار اُنھیں مل جاتاہے توکیایورپی یونین کے حوالے سے وہ اپنا یہ وعدہ پورا کرسکیں گے؟کیونکہ زمینی حقائق ایسا ہونے کی تائید نہیں کرتے ۔امریکی سفیر جیف فلیک کی کلی چی داراولو سے ملاقاتوں کو صدر ایردوان انتخابی مُہم کے دوران اُچھال رہے ہیں ۔ ترک معاشرے میں موجود امریکہ سے نفرت کے تناظر میں یہ تنقیدانتخابی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ مئی کے انتخابی نتائج سے پتہ چلے گا کہ ترک معاشرہ کُس جانب ہے؟وہ سہولتوں کو اہمیت دیتا ہے یا مغرب میں بلاروک ٹوک آنے جانے اور امریکہ پر انحصار کو۔
٭٭٭