میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول کی بلے بلے

وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول کی بلے بلے

جرات ڈیسک
هفته, ۶ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت پہنچ چکے ہیں، ایس سی او کے اس اجلا میں روس، چین، بھارت اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کے 4 ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔ گوا کے اس اہم اجلاس میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لارؤف اور چین کے وزیر خارجہ کین گانگ شریک ہو رہے ہیں، 12 سال بعد یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا دورہ ہو گا جو ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات متعدد متنازع امور کے باعث سرد مہری کا شکار ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کی آمد سے کچھ دن قبل انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پونچھ کے علاقے میں بھارتی سیکورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے ہی سرد فضا اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ باہمی تعلقات کے موجودہ تناظر میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تمام تر منفی پہلوؤں کے باوجود بلاول کا بھارت کا دورہ علاقائی تعاون کے تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔بلاول زرداری کی آمد سے قبل بھارتی میڈیا میں اس بارے میں بھی بحث ہوئی کہ اس اجلاس کے دوران ان کی بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے باہمی نوعیت کی ملاقات ہو گی یا نہیں۔ ایس جے شنکر نے بلاول سے ملاقات کے بارے میں سوال پر دوٹوک جواب دیا کہ ’پڑوسی ملک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے۔جس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کیلئے قطعی تیار نہیں ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں دعویٰ کیا تھا کہ بلاول زرداری بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی دعوت پر ایس سی او کی وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شریک ہو رہے ہیں اور اس اجلاس میں شرکت ایس سی او کے چارٹر اور عمل کے تئیں پاکستان کا عزم اور اس کی خارجہ پالیسی میں خطے کو دی جانے والی اہمیت کا ثبوت ہے۔گزشتہ ہفتے بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ہم نے سب ہی وزرائے خارجہ کو اس میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ یہ میٹنگ کامیاب ہو۔بھارت اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے سوال پر تعلقات کئی برس سے کشیدہ ہیں۔ بھارت شدت پسندی کی کئی بڑی کارروائیوں کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہوئے۔پلوامہ حملہ اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے بالاکوٹ پر فضائی کارروائی اور اس کے جواب میں پاکستان کا فضائی حملہ اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کا معاملہ بھی ابھی تک دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ پرانا نہیں ہو ا۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے کسی طرح کی بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور تجارتی تعلقات ختم کر دیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے ہائی کمشنر میں بھی سفارتی عملہ برائے نام رہ گیا ہے۔ایسے حالات میں بھی بھارت کے معروف دانشور سدھیندر کلکرنی بات چیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کوئی بھی مسئلہ بالآخر مذاکرات سے ہی حل ہونا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پڑوسیوں میں بات چیت کبھی بند نہیں ہونی چاہیے۔انھوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ بھارت وزیر خارجہ کو چاہیے کہ گوا کے ساحل پر بلاول کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت کریں تاہم بھارتی وزیر خارجہ نے ان کی یہ تجویز ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں ذرا بھی توقف نہیں کیا،اس سے ظاہر ہے اگر بھارت کے وزیر خارجہ نے بلاول سے ہاتھ ملا کر ان سے بات کربھی لی تو یہ ایک رسمی ملاقات سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی، معروف دفاعی تجزیہ کار وں کا بھی خیال ہے کہ بلاول اور جے شنکر کے درمیان کسی باہمی بات چیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت بھارت میں انتخابات کی فضا ہے۔ حکمراں جماعت یہ نہیں چاہے گی کہ پاکستان کے خلاف ملک میں جو سخت بیانیہ بنایا گیا ہے اس میں کسی نرمی کا اشارہ ملے،تاہم تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تمام تر منفی پہلوؤں کے باوجود بلاول کا یہ دورہ علاقائی تعاون کے تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کانفرنس میں بلاول کی شرکت سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان بھارت سمیت ہر ایک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتاہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے پس منظر اور توازن میں یہ بات اہم ہے کہ دو بڑی طاقتیں روس اور چین اس گروپ کا محور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ رکن ممالک کے متضاد مفادات اور باہمی اختلافات کے باوجود یہ گروپ مضبوط ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت اس فورم کی اہمیت کی عکاس ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین جیسے ممالک اپنے باہمی ٹکراؤ اور اختلافات کو پس پشت رکھ کر اس فورم کے تحت پرعزم ہیں۔ایران کے بعد بیلاروس، ترکی، افغانستان جیسے متعدد ممالک اس کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس وقت بھارتی میڈیا کی ساری توجہ ایس سی او اجلاس کے دوران بلاول زرداری پر مرکوز رہے گی۔اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں بھارتی صحافیوں اور ٹی وی چینلوں نے ان سے انٹرویو کے لیے پاکستان ہائی کمیشن کے شعبہ نشرواشاعت سے درخواست کی ہے۔ جس کا ایجنڈا ’محفوظ ایس سی او‘ ہے۔ دو روزہ اجلاس میں آئندہ جولائی میں دلی میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس کی تیاری کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
پاکستان میں عوام نے ایک ایسے وقت جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت سے انکاری ہے بلاول کے اس دورے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے اور عام طورپر لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے مذاکرات سے انکار کے باوجود بلاول کا اس دورے کااہتمام امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنی روانگی سے قبل بلاول نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ اس دورے پر ان کی تمام توجہ صرف ایس سی او اجلاس پر مرکوز ہو گی لیکن موجودہ حکومت کے وزرا کی تضاد بیانیوں کے سبب عام لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور اس کے پس پشت کوئی اور مقاصد کارفرما ہونے پر مصر نظر آتے ہیں۔ عام لوگوں اور خود پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا موقف یہی ہے کہ اگر اس اجلاس میں شرک اتنی ہی ضروری تھی تو وزیر خارجہ ویڈیو لنک پر اجلاس میں شرکت کر سکتے تھے لیکن مودی کی محبت میں ان حکمرانوں کے لیے کشمیریوں پر مظالم اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم کی کوئی اہمیت نہیں، مودی کو خوش کرنے کے لیے یہ حکمران ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ انھوں نے پڑوسی ملک افغانستان کے اجلاس کو نظرانداز کیا تھا۔ مگر پاکستان کے کم سن وزیر خارجہ پر کیا موقوف ، موجودہ حکومت ہر اعتبار سے امریکا اور بھارت کو خوش کرنے میں مصروف ہے، اور ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھاتی جو مودی کو ناخوش کرے۔ اس لیے بلاول کے اس اقدام سے امریکا اور بھارت تو خوش ہے اور بلاول کی بھی بلے بلے کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں