میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان میں پھر عدم اعتماد کی باتیں

بلوچستان میں پھر عدم اعتماد کی باتیں

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے28اپریل کو کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا اور مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کو خاطر میں نہ لائے چناں چہ کوئٹہ سے واپسی کے فوراً بعد وزیراعظم نے گورنر کو بذریعہ مراسلہ عہدہ چھوڑنے کا کہہ دیا۔مراسلے میں لکھا گیا کہ میں بلوچستان میں عوام کے مسائل کے حل اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرکے مطمئن ہوں تاہم موجودہ سیاسی حالات، وقت کی ضرورت اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس لیے بلوچستان میں نیا گورنر تعینات کرنا چاہتا ہوں اس بنا پر آپ سے استعفے کی درخواست ہے۔ اہلیت اور کارکردگی پر کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کو درپیش سیاسی چیلنجز کی ضرورت ہے اور میں تبدیلی پر یقین رکھتا ہوں۔وزیر اعظم نے نئے گورنر کی تعیناتی کی ضرورت کے لیے کو ئی دلیل و جواز نہیں دیا ہے اور نہ ہی گورنر یاسین زئی منصب چھورنے کو تیارہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال کو بھی اپنی جماعت کے بعض اراکین اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک دو اراکین کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی بازگشت کرائی جاتی ہے۔ سردار صالح بھوتانی بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ اور ان کے د رمیان اول روز سے فضاء عدم اعتماد کی ہے۔ دونوں گھرانوں کا تعلق لسبیلہ سے ہے، آپس میں رشتہ دار مگر سیاسی حریف ہیں۔ یعنی سیاسی رنجش پرانی ہے۔ چناں چہ وزیراعلیٰ جام کمال نے یکم مئی کو سردار صالح بھوتانی سے وزارت بلدیات کا قلمدان لے کر اپنے پاس رکھ لیا تاقتیکہ کسی کو سونپا جائے۔سردار صالح بھوتانی نگراں وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سردار اسلم بھوتانی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ر ہیں اور اس وقت قومی اسمبلی رکن ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی جام کمال سے ان بن چل رہی ہے۔
سردار رند کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی دسترس میں بلوچستان اسمبلی میں اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی بھی نہیں ہیں۔ عمران خان نے انہیں برائے اپنامعاون خصوصی بنا تو رکھا ہے۔ مگرانہیں پارٹی میں کسی بھی سطح کی مشاورت میں شریک نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں باوجود اسی کے سردار رند پارٹی کے صوبائی صدر اور اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہیں درخور اعتناء نہ سمجھے گئے جس کا خود انہوں نے بارہا ذکر و گلہ کیا۔عمران خان کے اس دورہ کوئٹہ میں بھی سردار رند ان کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ سردار یار محمد رند کے پاس وزارت تعلیم کا قلمدان ہے۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ چل چلائو یہی ر ہا تو لا محالہ وزارت سے محروم کردیے جائیں گے۔ سردار رند ٹکرائوکی پوزیشن میں ہوتے تو سینیٹ الیکشن میں بیٹے سردار خان رند کو پارٹی ٹکٹ دلواتے۔ جن کو آزاد حیثیت سے امیدوار بنایا اور دستبردار کرایا۔ انہیں اپنی جماعت کے ارکان کی حمایت حاصل ہوتی تو بیٹے کو کسی صورت دستبردار نہ کراتے۔ عدم اعتماد کی باتیں محض شوخیاں بھگارنے کے مترادف ہے۔یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس وقت صوبے کی حکومتی جماعت میں جام کمال سے بڑھ کر صلاحیتوں اور خوبیوں کا مالک رکن موجود نہیں ہے۔ جام ہر لحاظ سے اس منصب کے لیے موزوں شخص ہیں۔ کارکردگی میں بھی بڑھ کر ہیں۔ دراصل جام کمال کو اپنی جماعت اور اتحادیوں کی طرف سے دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان کی مجبوریاں کچھ اور بھی ہیں۔ وگرنہ اس وقت بلوچستان اسمبلی کا ا سپیکر بھی کوئی اہل شخص ہی ہوتا۔ لہٰذا مقتدر بھی کسی کی باتوں میں آ کر صوبے کی حکومت اور وزارت اعلیٰ کا اہم منصب مذاق نہ بنائیں۔ جام کمال خود مختار ہوناچاہیے کہ وہ اسمبلی کے دھونس کی سیاست آنے والوں سے نمٹے تاکہ حکومت چلانے کے لیے ماحول سازگار بنے۔سیاسی شور و غوغا عموماً شخصی اہداف و مقاصدکے لیے کیا جاتا ہے۔پچیس اپریل کو کوئٹہ کے تولہ رام روڈ پر ایک شاپنگ مال کے خلاف کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی تو شاپنگ مال کی انتظامیہ اور ملازمین نے اسسٹنٹ کمشنر سٹی محمد زوہیب الحق اور لیویز عملے اور پولیس اہلکاروں کو زدوکوب کیا۔ انتظامیہ کے رد عمل پر تاجر اور سیاسی جماعتوں نے الٹا انتظامیہ اور حکومت کے خلاف محاذ بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی سعی کی گئی۔سیاست کے اندر یہی عمومی روش ہے۔ گویا ہر کس و ناکس کی گمران کن باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ جام کمال خود پر اقرباء پروری کا لیبل نہ لگنے دیں۔ مطمع نظر صوبے کے عوام کی خوشحالی اور ترقی ہونی چاہیے۔
بات وزیراعظم کی آمد کی ہوئی جس دوران 22کلومیٹر طویل این 25کے کوئٹہ مغربی بائی پاس کو دو رویہ کرنے اور 11کلومیٹر طویل ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس (این65) اور زیارت موڑ، کچ ، ہرنائی سنجاوی روڈ کی تعمیر کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ بلوچستان کی سندھ و پنجاب کو جانے والی قومی شاہراہوں کو دو رویہ اور معیاری بنانا اولین ضرورت ہے۔ آبادی اور ٹریفک میں اضافہ ہوچکا ہے۔ شاہراہیں تنگ پڑچکی ہیں اور حادثات پیش آنے سے سالانہ ہزاروں اموات ہوتی ہیں۔حکومت نے چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ دو رویہ بنانے کے کام پر بھی رواں سال کام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ڑوب ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ کی منظوری کا بھی بتایا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ان اڑھائی سالوں میں بلوچستان میں3300کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس پر کام بھی شروع کیا جاچکا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت بین الاقوامی معیار کی شاہراہوں کی تعمیر پہلی اور ہنگامی ترجیح ہونی چاہیے۔ صوبے میں صنعتی زونز کے قیام کے منصوبے جلد مکمل ہوں۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحدات پر بارڈر ٹریڈ ٹرمینل کے قیام و تعمیر سے تجارت کو فروغ اور عوام کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔ پچھلے دنوں ایران بارڈر پر سرحد کی بندش سے بڑا مسئلہ بنا۔لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا۔ ایسی صورتحال چمن بارڈر پر بھی بنی۔ نگاہ رہیں کہ عوام کا روزگار متاثر نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں