بل گیٹس کون ہے؟
شیئر کریں
مائیکرو سوفٹ کے شریک بانی اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بل گیٹس اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان 29/اپریل کو رابطہ ہوا۔ وزیراعظم نے بل گیٹس سے تبادلۂ خیال کے دوران میں کورونا وبا کے ہنگام گیٹس فاونڈیشن کی امداد کو سراہا۔ ٹھیک اُسی روز امریکی عوام لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے باہر آئے تو اُنہوں نے بل گیٹس کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے اُس کے خلاف خوب نعرے لگائے۔ پاکستانی وزیراعظم کو ٹیلی فون سے پانچ روز قبل بل گیٹس نے ایک خط بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو لکھا جس میں کورونا وبا کے حوالے سے اُن کے قائدانہ کردار کو سراہتے ہوئے بھارت میں ڈیجیٹل اختراعات کو فروغ دینے پر اُن کی تعریف کی۔ بل گیٹس نے گزشتہ برس وزیر اعظم نریندر مودی کو بھارت میں صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے ایک قومی پروگرام کے کامیاب نفاذ کے لیے باوقار گلوبل گول کیپر ایوارڈ سے نوازا تھا۔ہم گزشتہ برس بل گیٹس سے کچھ امداد اینٹھ آئے تھے۔ سوال بہت سادہ ہے کہ بل گیٹس کون ہے؟ جو ایک آدمی کے طور پر ریاستوں کی طرح بروئے کا رآتا ہے۔ ریاستیں ایک آدمی کے ساتھ اس طرح معاملات کرتی ہیں، جیسے وہ ریاستوں سے کرتی ہیں؟ یہ تعین اس لیے بھی ضروری ہے کہ بل گیٹس کے فون کے اگلے ہی روز 30/ اپریل کو وزیراعظم عمران خان نے دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وبا پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ویکسین آنے تک دنیا کو سوچ سمجھ کر چلنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں وائرس اور ویکسین کے حوالے سے بل گیٹس کا کردار حد سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سوال بارِ دگر سمجھنا ضروری ہے کہ آخر یہ بل گیٹس کون ہے؟ایک سوفٹ ویئر ڈیولپر؟ ایک تاجر؟ایک فیاض انسان دوست؟یا ایک عالمی ماہر صحت؟
یہ سوال اُن اصحاب ِ فکر کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرجاتا ہے جو کورونا وبا میں ایک تشویش ناک ایجنڈے کی آہٹ سنتے ہیں۔ اوربل گیٹس کو اُس کی ناقابل تصور دولت کے ساتھ عالمی صحت عامہ کے تمام شعبوں کو چاروں کھونٹ قابو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔کسی ابہام کے بغیر ہم جانتے ہیں کہ طبی تحقیق، ویکسین پھیلاؤ، جی ایم ٹیکنالوجی(مصنوعی بیجوں سے فصلوں کی آبیاری)، آر ایف آئی ڈی (ریڈیو فریکوئنسی آئیڈینٹیفکیشن)اور ڈیجیٹل کنٹرول سے متعلق تمام متنازع معاملات پر جس آدمی کو منظم طور پر کام کرتے ہوئے واضح طور پر پہچانا جاتا ہے، وہ صرف اور صرف بل گیٹس ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بل گیٹس صحت عامہ کا کوئی ماہر نہیں،وہ ایک معالج (ڈاکٹر)بھی نہیں۔ وہ کوئی مہاماری ماہر یعنی ماہر وبائیات (epidemiologist)بھی نہیں۔ وہ متعدی بیماریوں کا کوئی محقق بھی نہیں۔پھر بھی صرف اس ایک شخص کی مٹھی میں اربوں انسانوں کی زندگیوں کا مستقبل سمٹ آیا ہے، وہ مسکراتا ہے، فون اُٹھاتا ہے اور دنیا بھر کے حکمرانوں کو فون کرتا ہے، اور کسی اشتہار کے فقرے کی طرح پوچھتا ہے کہ میری مٹھی میں بند ہے کیا، بتادوں نا؟ پھر وہ دنیا کو واپس معمول پر لانے کے لیے اپنے طبی احکام آمرانہ انداز سے دیتا ہے۔ جسے طبی سائنس کے مستند محققین اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔ آدمی حیرانی سے سوچتا ہے کہ کمپیوٹر کی سالاری سے عالمی صحتِ عامہ کی شہنشاہی تک اس کایا پلٹی کے ساتھ وہ کیسے ہمیں اس بحران کے بارے میں قبل ازوقت معلومات دیتا ہے؟ کیسے باربار وائرسوں کے آنے کی برسوں سے خبریں دیتا آیا ہے؟کیسے پہلے کبھی نہ دیکھے جا نے والے بحرانوں سے خبردار کرتا ہے؟ کیسے مستقبل کے پیش آئندہ خیالی بحرانوں پر اپنے آمرانہ طبی احکامات سے باور کراتا ہے کہ اس پر عمل درآمد میں ہی نجات ہے؟مگر یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے؟
عالمی صحت عامہ کے ایک اجارہ دار کے طور پر بل گیٹس کے تیور وں کا تجزیہ کریں تو ذہنوں میں 2001ء کا ایک مقدمہ اُبھرتا ہے۔ امریکی حکومت نے بل گیٹس پر مائیکرو سوفٹ میں غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے کا مقدمہ قائم کیاتھا۔ بل گیٹس پر الزام تھا کہ وہ مائیکرو سوفٹ کی دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے، اس طرح وہ 1890 کے شرمین اینٹی ٹرسٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جو مختلف کاروباری اداروں (انٹرپرائزز) کے مابین مسابقتی اُصولوں کا تعین کرتا ہے۔ جون 2001ء میں فیصلہ گیٹس کے خلاف آگیا۔ اگر اُس مقدمے کی دلچسپ کارروائی کا مطالعہ کریں تو اندازا ہوتا ہے کہ بل گیٹس عدالت کے سادہ سوالات کے جواب بھی نہیں دے پارہے تھے۔بل گیٹس کی واحد کوشش یہ تھی کہ اس کی اجارہ داری قائم رہے، اور اُن کی کمپنی تب جس ونڈوز۔98 کو متعارف کرانے جارہی ہے، اُسے عدالت روک نہ دے۔ دلچسپ طور پر بل گیٹس سے جب نان مائیکروسوفٹ کے براؤزرز کے متعلق تحفظات پر عدالت نے سوال کیے تو بل گیٹس اُن”تحفظات“ کو سمجھنے تک کی گنجائش دینے کو تیار نہیں تھے۔ عدالت اُنہیں تحفظات کے لفظ کا مطلب ہی سمجھاتی رہی۔آپ اُن تالیوں کے شور میں اس مقدمے کو سنیں جو بل گیٹس کو کمپیوٹر کی سالاری کے دوران میں دنیا بھر کی مختلف تقریبات میں سنائی دیتی تھیں۔
مغربی ممالک میں بل گیٹس کو کبھی ایک اچھے آدمی کے طور پر عوامی سطح پر نہیں لیا گیا۔ اُن پر بیلجیئم میں 1999 میں ایک کیک پیسٹری سے حملہ کیا گیا، تب سوال اُٹھا کہ بل گیٹس سے لوگ نفرت کیوں کرتے ہیں؟ دلچسپ طور پر آج بھی گوگل پر اس سوال سے متعلق معلومات کو حذف کردیا جاتا ہے۔ہمیں مرکزی ذرائع ابلاغ کے دھارے پر اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ملتا، اس کی ٹھوس وجوہات ہیں جو آگے بیان کی جائیں گی۔ مگر متوازی اور متبادل ذرائع ابلاغ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں منکشف کرتے ہیں، جس کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ بل گیٹس کے تمام کاموں میں ایک مخصوص ایجنڈا ہوتا ہے، جو عام لوگوں کے وجود سے نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔دنیا کا سب سے امیر ترین شخص مشہور تو ہے مگر مقبول اور محبوب نہیں۔
بل گیٹس مائیکروسوفٹ کی دنیا پر اپنا فردِ واحد کے طور پر تسلط قائم نہ رکھ پانے کے بعد ایک نئی اڑان بھرتا ہے۔ مگر اُس کی ذہنیت کے حوالے سے جو نکتہ واضح ہو چکا تھا، وہ اس نئی اڑان میں زیادہ نفرت انگیز بن کر پھلتا پھولتا ہے۔ یعنی ہر کام میں مخصوص ایجنڈا، عام لوگوں سے نفرت۔ آپ ان دونوں پہلوؤں کو ذہن میں رکھیں، اور حیرت میں غوطے لگاتے چلے جائیں کہ بعد کے دنوں میں بل گیٹس کے تمام اقدامات کو اس کے بالکل برعکس طور پر پیش کیا گیا۔ اُس کے کاموں پر مخصوص ایجنڈے کے تاثر کو ہٹانے کے لیے انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا زرق برق ورق چڑھا دیا گیا۔ عام آدمی سے اُس کی نفرت کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے اُسے ایک انسان دوست (philanthropist)کی چھوی دی گئی۔ بل گیٹس کی پوری شبیہ دوبارہ ایجاد ہوئی۔ یہ ہر ارب پتی، دولت مند اور اشرافیہ سے متعلق مسئلہ ہوتا ہے۔اُنہیں اپنے تمام جرائم سے ترقی پانے کے بعد بآلاخر ایک موقع پر اپنی شخصیت کو انسان دوست بنانے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کے لیے دسترخوان بچھائے جاتے ہیں۔ مغرب میں یہ کام زیادہ خطرناک طور پر ہوتا ہے۔ بل گیٹس سے پہلے یہی مسئلہ جان،ڈی راک فیلر کو پیش آیا تھا۔جب اُس نے جدید تعلقات عامہ کے بانی اور تشہیر کے ماہر آئیوی لیڈبیٹر لی کی خدمات حاصل کی۔ جس نے اُنہیں اسٹینڈرڈ آئل ہائیڈرا کے سفاک سربراہ، حریص تاجر اور تنازعات میں گھرے آدمی سے یک بیک ایک رحم دل آدمی میں تبدیل کردیا۔ بل گیٹس کے مائیکرو سوفٹ پر اجارہ داری، راک فیلر کی آئل کے کاروبار پر اجارہ داری سے زیادہ سخت نوعیت کی تھی۔ راک فیلر نے اس اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے مگر یہ سب عوامی مفاد کے کام لگتے ہیں، جو دراصل آئل کے کاروبار میں اس کی اجارہ داری کو مستحکم کرتے تھے۔ مثلاً جنرل ایجوکیشن بورڈ، راک فیلر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ، راک فیلر فاونڈیشن وغیرہ۔ ناموں پر غور کریں، یہ آئل کے سب سے بڑے اجارہ دار کے فلاحی منصوبے تھے۔ مگر سب کے سب مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کرتے تھے۔ بل گیٹس نے کچھ بھی مختلف نہیں کیا۔ اُس نے بھی اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے ایک پبلک ریلیشن کمپنی کی خدمات لیں،سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے،بل گیٹس کون ہے؟ ایک سوفٹ ویئر ڈیولپر؟ ایک تاجر؟ایک فیاض انسان دوست؟یا ایک عالمی ماہر صحت؟آخر وہ کیا چیز یں ہیں جس سے بل گیٹس دنیا بھر میں عالمی صحت عامہ کے ایک اجارہ دار کے طور پراُبھرتے ہیں۔اس بحث کویہاں سے جاری رکھیں گے، مگر یہ نکتہ اب غیر مبہم ہو چکا ہے کہ بل گیٹس نے راک فیلر کو پیچھے چھوڑ دیا اور کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ سب کچھ کیا۔ پیسوں کے خرچ سے کمانے کی صورتوں تک سب کچھ پہلے سے کچھ زیادہ تھا، راک فیلر سے بھی زیادہ۔ زیادہ خطرناک، زیادہ تباہ کن، زیادہ نتیجہ خیز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔