سی پیک ۔گیم چینجر
شیئر کریں
پاکستان چین اقتصادی راہداری المعروف سی پیک کو علاقہ میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے، سی پیک کیا ہے اور یہ علاقہ میں کھیل کا منظرنامہ کس طرح تبدیل کر سکتا ہے اس کو سمجھنا ازحد ضروری ہے ورنہ ہم اس کو گیم چینجر کہتے رہیں گے اور ہمارے دشمن بازی الٹ دیں گے، جس کی تیاریاں ہی نہیں ہو رہی ہیں ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں قومی اہمیت کے منصوبوں کو متنازعہ بنانا سیاسی فیشن کا حصہ ہے اس ہی طرح بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان بھی سیاسی بازی گری کے سوا کچھ نہیں ہے کالا باغ ڈیم پر جس قدر رقم لگ چکی اس سے کئی ڈیم بن سکتے تھے لیکن ڈیم بنانا اور پانی کا ذخیرہ کرنا جاگیردار سیاسی اشرافیہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ پاکستان عملاً جس رفتار سے خشک سالی کی جانب بڑھ رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت نے کشمیر میں بڑی تعداد میں ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی پر ڈاکہ ڈالا ہے لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ،ورلڈ بنک جو سندھ طاس معاہدہ کا ضامن ہے معاہدہ کی خلاف ورزی پر کھلم کھلا بھارت کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ جس طرح سیاسی بازی گروں نے کالا باغ ڈیم کے منصوبہ کو متنازعہ بنایا اس ہی طرح اب سی پیک کو بھی بنایا جا رہا ہے اس منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا اور خطہ اس سے کس طرح مستفید ہو گا یہ اصل سمجھنے کی بات ہے جس کے بعد اس منصوبہ کو متنازعہ بنانے کی وجوہات سمجھ میں آسکیں گی۔
چین کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے کہ اس کو گرم پانی کی سہولت حاصل نہیں ہے لیکن چین کا مغرب سے سمندری فاصلہ بہت زیادہ ہے جبکہ گوادر خلیج فارس کے ذریعہ یورپ ومغرب سے جڑا ہوا ہے پھر چین کا ایک صنعتی علاقہ سنکیانگ میں واقع ہے جو شنگھائی کی نسبت گوادر سے قریب ہے اس طرح اس صنعتی علاقہ میں لائے جانے والے خام مال اور تیار شدہ مصنوعات کی ترسیل کے لیے گوادر زیادہ بہتر ہے ۔بین الاقوامی تجارت میں سمندری راستہ سے تجارت نفع بخش ہوتی ہے۔ روس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایٹمی قوت تو تھا لیکن سمندری ذرائع نقل وحمل سے محروم تھا یوں اس کی درآمدات وبرآمدات شدید متاثر ہوتی تھیں ،جس قدر سامان بیسیوں مال برادر ہوائی جہازوں سے منگوایا یا بھیجا جا سکتا ہے اتنا ہی سامان ایک بحری جہاز لیکر جا سکتا ہے اس طرح روس کی تجارت سمندری راستوں کی سہولیات نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں موجود مقابلہ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اور 1978ءمیں روس کی افغانستان میں فوجی مداخلت بھی اس خواہش ہی کا حصہ تھی کہ کسی طرح گرم پانیوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔اگر ہم افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلہ کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ صورتحال واضح ہوتی ہے کہ روسی افواج کے ارتکاز کا مرکز افغانستان کا صوبہ قندھار تھا۔کیا روسی فوجی قندھار صرف انار کھانے آئے تھے؟ اور وہیں کے ہوجاتے تھے ایسا نہیں ہے ،قندھار کا سرحدی علاقہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملتا ہے جو کہ سڑک کے راستے گوادر سے جا ملتا ہے، روسی گرم پانی کی تلاش اور اس تک رسائی چاہتے تھے اور ان کی نگاہیں گوادر پر جمی ہوئی تھیں، روس نے جس وقت یہ منصوبہ بندی کی اس وقت ایران پر رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی اور ایران کو امریکہ کی 53ویں ریاست کہا جاتا تھا اس طرح روس کے پاس گرم پانی تک پہنچنے کے جو دو راستے تھے ایک بندر عباس کے ذریعہ اور دوسرا گوادر کے ذریعہ امریکہ کی ایران میں موجودگی کے باعث بندر عباس کا راستہ تو بند ہو گیا تھا اب واحد راستہ گوادر بچا تھا اگرچہ پاکستان بھی امریکن بلاک میں شامل تھا لیکن روسی قیادت 1965ءاور 1971ءمیں دفاع پاکستان میں امریکی دلچسپی دیکھ چکی تھی 1965ءمیں امریکہ سے آنے والے اسلحہ بردار جہاز کو اس وقت بیچ سمندر میں روک لیا گیا جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اسلحہ وگولہ بارود کی قلت کے باعث پاکستان جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا یوں مواقع کے باوجود اس جنگ میں پاکستان اتنی پیش قدمی نہ کرسکا تھا جس قدر کر سکتا تھا اس ہی طرح 1971ءکی جنگ اور اس سے قبل امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیے جس بحری بیڑے (ساتواں بیڑہ) کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا وہ نہیں آیا یوں امریکہ نے ثابت کر دیا کہ اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور اگر کسی بھی جانب سے پاکستان میں دراندازی ہوتی ہے تو وہ پاکستان کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے اس طرح روس کو واضح پیغام مل گیا کہ اس نے 50 کی دہائی میں گرم پانیوں تک رسائی کے جس پروگرام کا آغاز کیا تھا اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
1978 ءکے اواخر میں جب روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو روزاول سے ہی روسی فوجوں کا ارتکاز پاکستان کے سرحدی علاقہ چمن سے متصل افغانستان میںتھا اور قندھار روسی فوجوں کا بڑا مرکز تھا۔ روس چمن کے راستہ پاکستان میں داخل ہو کر کوئٹہ کے باہر سے گزرتے ہوئے خضدار اور پنجگور کے راستہ گوادر پہنچ سکتا تھا لیکن افغانستان میں ابھرنے والی مزاحمت نے روس کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا اور طویل جنگ کے بعد روس کو شکست خوردہ حالت میں افغانستان سے واپس جانا پڑا۔ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ افغانستان میں اُٹھنے والی مزاحمت کی تحریک اس قدر طاقتور ہو گی کہ روس کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، افغانستان میں داخلہ سے قبل روس کی آخری پیش قدمی پولینڈ میں تھی اور اسلحہ اور گولہ بارود درآمد کرنے والے پولینڈ کی فوج نے روسی سپاہیوں کاگلاب کے پھولوں سے استقبال کیا تھا ۔ان حالات میں کون سوچ سکتا تھا کہ گھریلو ساختہ بندوقوں سے شروع ہونے والی تحریک مزاحمت کامیاب ہوسکتی ہے امریکہ نے افغان مجاہدین کی مدد کا سلسلہ کافی عرصہ بعد شروع کیا تھا جب اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ روس کو افغانستان میںشکست ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے اس وقت ہم نے روس سے بات چیت کے بجائے مزاحم افغانوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ورنہ سی پیک CPEC) ( رشیا پیک (USSRPEC) بھی بن سکتا تھا ۔اگر اس وقت کی قیادت دوراندیشی کامظاہرہ کرتے ہوئے رشیا کو بندرگاہ کی سہولت فراہم کر دیتی تو پاکستان جن حالات کا شکار ہے ان سے دوچار نہ ہوتا بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو چکا ہوتا بہرحال اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک پیش رفت کی شنید ہے کہ پاکستان چین روس اور ترکی ایک اتحاد کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہ ایک انتہائی خوش آئندپیش رفت ہے 1988-89ءمیں جب روس شکست و ریخت کا شکار ہوا تو اس کے بطن سے کئی آزاد ریاستوں نے جنم لیا تھا۔ یہ ریاستیں ایٹمی قوت بھی رکھتی ہیں اور وسائل سے بھی مالا مال ہیں لیکن ان کے اقتصادی میدان میں آگے بڑھنے کی رفتار بہت سست ہے ،وجہ اس کی بھی وہی ہے جو روس کے اقتصادی مسائل کی تھی، یعنی گرم پانیوں سے محرومی۔اگر ان ممالک کوپیش کش کی جائے کہ وہ اس ہی طرح سرمایہ کاری کر کے گوادر کی بندرگاہ استعمال کر سکتے ہیں جس طرح کی سرمایہ کاری چین نے کی ہے تو اس سے نہ صرف ان ممالک جن کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے سے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی بلکہ اس قسم کے معاہدوں سے یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ان ممالک کا پاکستان سے براہ راست کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے بلکہ ان تمام ممالک کو راہداری کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنا ہو گی ۔
اس وقت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی ہرواردات کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جہاں بھارت نے غیرضروری طور پر 26 قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں یہ قونصل خانے دراصل دہشت گردی کی تربیت گاہیں ہیں ۔لیکن سفارتی تحفظ رکھتی ہیں یوں ان کی سرگرمیوں کا سدباب کرنا آسان نہیں ہوتا اس ہی طرح بھارت افغانستان میں اپنا اثرورسوخ روزبروزبڑھا رہا ہے تاکہ پاکستان کو ایک ناکام اور غیر محفوظ ریاست کے طور پر پیش کر سکے اور تیسری جانب مسئلہ کشمیر کے حل سے مسلسل فرار اختیار کیے رکھے۔
٭٭….٭٭