میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نعرے خواہ کتنے ہی سخت ہوں جرم نہیں قراردیاجاسکتا، اسلام آبادہائیکورٹ

نعرے خواہ کتنے ہی سخت ہوں جرم نہیں قراردیاجاسکتا، اسلام آبادہائیکورٹ

ویب ڈیسک
اتوار, ۶ مارچ ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ اسٹوڈنٹس کے احتجاج میں شرکت پر درج مقدمے میں شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری اور دیگر کو گرفتار نہ کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے پر امن مجمع کو طاقت کا غلط استعمال کر کے منتشر کیا گیا۔عدالت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ نعرے لگانے کو خواہ وہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، کسی بھی صورت جرم یا مجرمانہ سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایف آئی آر میں درج دفعات سے بظاہر لگتا ہے کہ اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسا کیا گیا۔تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں طاقت کا غلط استعمال ناقابل برداشت ہے۔ ریاستی ذمہ داران کی جانب سے تشدد اور بغاوت کی کارروائیاں ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں۔عدالت کے حکم نامے کے مطابق ریاست کو شہریوں کے اظہار رائے کے لیے حوصلہ افزائی اور ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے کہ وہ سیاسی مباحثوں میں بغیر خوف اور روک ٹوک حصہ لے سکیں۔ پرامن اجتماع میں مداخلت کرنا اختیارات کا غلط استعمال اور اپنے اختیار سے سنگین تجاوز ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ اختیارات کے غلط استعمال کا یہ پہلا کیس نہیں کو اس عدالت کے سامنے آیا ہے۔ مخصوص کلاس کو ٹارگٹ کر کے اختلاف، تنقید اور سیاسی بحث کو دبانے کی کوشش کرنا ناقابل برداشت ہے۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی اور سیکرٹری انسانی حقوق عدالت پیش ہو کر پر امن نوجوانوں کے خلاف پولیس فورس کے استعمال اور پھر ایف آئی آر درج کرنے کا جواز دیں۔ توقع ہے کہ وہ ان پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کریں گے جو پر امن مجمع کے حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں