میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایوانِ بالا کاانتخاب، کیا کھویا کیا پایا ؟

ایوانِ بالا کاانتخاب، کیا کھویا کیا پایا ؟

ویب ڈیسک
هفته, ۶ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

سینیٹ میں عددی اعتبار سے پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت تو بن گئی ہے لیکن اپوزیشن کواب بھی معمولی ہی سہی مگر برتری حاصل ہے اگر یہ کہا جائے کہ سینٹ انتخابات سے اپوزیشن کو نئی زندگی ملی ہے اور نتائج سے حکومتی صفوں میںمایوسی ہے تو غلط نہ ہو گا ۔اب بھی حکومت اگر محاذآرائی کی روش تبدیل نہیں کرتی اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل نہ کیا گیاتوپارلیمنٹ کی طرف سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا عام لوگوں کو پی ٹی آئی سے بڑی توقعات تھیں مگرمہنگائی سے ووٹ دینے والے اب خائف ہیں اِس لیے عوام کی طرف سے حکومت کو حمایت ملنا ازحد دشوار ہے اگر محدود اکثریت کے باوجود مدت پوری کر نی ہے تو سوچ کے ساتھ رویے پر نظرثانی لانا ہوگی۔

اسلام آباد کی جنرل نشست کے معرکے میں حکومتی امیدواروزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی شکست اور پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی کی جیت سے اپوزیشن دلیر اور حکومت یکدم دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے اب چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی جیتیں یاعدمِ اعتمادناکام بنانے کی طرح صادق سنجرانی فتح مند ہوں ایک بات طے ہے کہ حکومت کی اکڑ ہی رخصت نہیں ہوئی بلکہ اخلاقی طور پرایوان کا اعتمادبھی سوالیہ نشان بن گیا ہے وزیرِ اعظم نے ہفتے کو اعتماد کا ووٹ لینے کاعندیہ دیا ہے لیکن ساتھ ہی غلط فیصلوں کی زمہ داری قبول کرنے اور خامیوں پر نظرثانی کابھی فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ سینٹ الیکشن سے اُن کا شخصی سحر تحلیل ہوگیا ہے تصویر لگاکر ووٹ ملنے کے تاثر میں جان نہیں رہی اس لیے افہام تفہیم کی فضا نہیں بنائی جاتی تو اپوزیشن اتحاد مزید سیاسی نقصان پہنچاسکتا ہے ابھی تو اعتماد کافور ہواہے اگر معامالات پر گرفت کمزور ہوتی ہے جس کا بہت ذیادہ امکان ہے تو بقیہ مدتِ اقتدار میں بڑے فیصلے کرنے کی طاقت سے محروم ہوجائیں گے۔

حکومت کا خیال ہے کہ ایوانِ بالا میں یوسف رضا گیلانی کی جیت میںپیسے کاعمل دخل ہے جس سے سولہ ممبر بک گئے اِس بات میں کتنی صداقت ہے ابھی تعین ہونا باقی ہے لیکن اِس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے سے ہونے والے ہر الیکشن میں رقوم کے استعمال کے الزامات لگتے رہے ہیں جن کے ثبوت بھی منظرِ عام پر آتے رہے موجودہ حکومت نے بھی ایک ویڈیوسے اپنی جماعت کے ممبران کو رسوا کیا مگر اِس غلط روایت کو ختم کیسے کرنا ہے؟ سوچنا پارلیمنٹ کی زمہ داری ہے جسے بوجوہ پورا نہیں کیا گیا موجودہ وزیرِ اعظم نے بھی ابتدامیں کوشش کی کہ شوآف ہینڈ کے زریعے انتخاب ہو تاکہ ووٹ پر نوٹ اثر انداز نہ ہوسکیں جس کے لیے سپریم کورٹ ریفرنس بھیجنے کے بعد صدارتی آرڈیننس بھی جاری کرایا گیالیکن طریقہ کارغلط اختیار کیا گیا اسی لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی علاوہ ازیں عدالتِ عظمٰی نے آرٹیکل 226 کے تحت کرانے مگر ساتھ ہی ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا کی رائے دی جس سے حکومتی کاوشوں کو مزید دھچکا لگا تبھی ووٹ سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوئے اور ناقابلِ ِ یقین اپ سیٹ ہوا ساتھ ہی حکومتی خامیاں اُجاگر ہوئیںبلکہ اب تو عدم مقبولیت کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ مریم نواز کہتی ہیں پیسہ نہیں ن لیگ کا ٹکٹ چلا ہے جبکہ بلاول بھٹو جمہوریت کے ذریعے انتقام کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری ثابت ہوا ہے جو قبل ازیں بلوچستان میں پسندیدہ اُ میدواروں کو کامیاب کرانے کے بعد صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوانے میں کامیاب ہوئے۔ اب بھی انھوں نے ہی تمام جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں نہ صرف حصہ لینے پر رضا مند کیا بلکہ سینٹ انتخاب میں بھی ایسا جوڑتوڑ کیا جس سے حکومت کو ہزیمت ہوئی۔

یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی کا مقابلہ بھی کانٹے دار ہوگاساتھ ہی وسائل کے بے دریغ استعمال کا خدشہ ہے دراصل حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی دُہرے معیارات پر کاربند ہیں جس سے سیاست میں منافقت بڑھ رہی ہے وزیرِ مملکت شہریار آفریدی کی مثال لے لیں جنھوں نے وزیر ہوکر کمال ہوشیاری سے دستخط کرکے نہ صرف ووٹ خراب کردیا بلکہ اپنی جماعت کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے دوبارہ بیلٹ پیپر کی درخواستیں دینے کی ایسی بھاگ دوڑ کی اور جن سے خرابی ووٹ کا وعدہ کررکھا تھا اُنھیں بھی ثبوت دے کر مطمئن کر دیا اسی طرح زرتاج گُل کے حوالے سے بھی ووٹ خراب کرنے کی باتیں گردش کررہی ہیں ،راجہ ریاض نے توکُھلے عام ووٹ پی ڈی ایم کے امیدوار کو دیکراپنی ناراضگی ظاہر کی۔ اسی لیے جب ٹکٹ چلنے کی بات کی جاتی ہے توامکان ہے کہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے کچھ ممبران حکومتی کشتی سے چھلانے لگانا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے آئندہ انتخابات میں پی پی اور ن لیگ کے ٹکٹ کے وعدے لینے کی کوشش میں ہیں ۔
جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ اپنے سوا سب کو کمزوراورحقیر سمجھنے لگتا ہے حالانکہ اچھا پہلوان حریف کی طاقت دیکھ کر دائو آزماتا ہے اندھا دھند ٹکر لگانے کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا موجودہ سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم نے سوچ سمجھ کر جنوبی پنجاب سے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اُتاراکیونکہ اُسے معلوم ہے کہ جہانگیرترین ناراض ہیں اور وہ حکومت کے حق میںایک قدم اُٹھانے کو تیار نہیں اسی طرح گیلانی اور ترین خاندانوں میں قریبی تعلقات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں جس کے بعد یہ بعید ازقیاس نہیں تھا کہ جہانگیر ترین کی ہمدردیاں یوسف گیلانی کے ساتھ ہوں یہ بھی عیاں حقیقت ہے کہ وہ درجن کے لگ بھگ ممبرانِ اسمبلی پر ہنوز اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اِس بارے اپوزیشن کے تمام اندازے درست ثابت ہوئے مگر حکومت نے اندھادھند ٹکر لگانے کی کوشش کی اور منہ کی کھائی سینٹ الیکشن میں خراب کارکردگی سے حکومت کو کچھ اتحادیوں کی ناراضگی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صدرپیرصدرالدین شاہ راشدی ہارنے پرغصے کا اظہار کر چکے ہیں وجہ یہ ہے کہ جی ڈی اے کے چودہ ارکان نے جماعتی پالیسی کے مطابق ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیے مگر حکومتی اتحاد کی کامیابی میں حصہ ڈالنے کے باجود جودجی ڈی اے کے امیدوار کی حمایت نہ کی گئی اِس لیے اتحادیوں میں خیلج کے امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا پی ٹی آئی کے ممبرانِ سندھ اسمبلی کا پی پی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے بعد جی ڈی اے کی ناراضگی حکومت کے لیے دُہرا صدمہ ہوگا۔

اپوزیشن نے اگروسائل کا بے دریغ استعمال کیا ہے تو حکومت بھی پیچھے نہیں رہی سینیٹ انتخابات سے قبل اراکینِ اسمبلی کوترقیاتی منصوبوں کے لیے پچاس پچاس کروڑ دینے کا علان بھی ایک قسم کی رشوت تھی یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد تردید کر دی گئی مگر نجی ملاقاتوں میں ممبران کویقین دہانی کرائی جاتی رہی کہ حکومتی امیدوار کو ووٹ دیکر اپنے حلقوں کو سنوارلیں۔ اسی طرح ایک طرف حکومتی ذمہ داران اپوزیشن پر ووٹوں کی خرید وفروخت کا الزام لگاتے ہیں مگر ٹکٹ دیتے وقت خود بھی کھرب پتی افراد کو ترجیح دی جس کا مطلب ہے کہ ایوانِ بالا کے انتخاب کے بعد اگرکیاکھویا کیا پایا کا جائزہ لیں تو اچھی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ پہلے بھی قومی مفاد پر ذاتی و گروہی مفادات کو اہمیت ملتی تھی اب بھی کچھ نہیں بدلا،پہلے کی طرح شفافیت ،امانت ودیانت کا فقدان دکھائی دیتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں