عورت مارچ کیخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پرفیصلہ محفوظ
شیئر کریں
عورت مارچ کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ قانون کے مطابق مارچ پر پابندیاں عائد کرے ۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ میں مارچ میں لگنے والے 3 نعرے اس عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر 8 مارچ کو کچھ خلاف قانون ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، درخواست گزار قبل از وقت اس عدالت سے ریلیف مانگ رہے ہیں، ہمارے معاشرے میں کئی دیگر اسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے ، عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست گزاران تمام اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے بھی عدالت سے رجوع کرینگے ۔اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عورتوں کے نعرے تو وہی ہیں جو اسلام نے ان کو حقوق دئیے وہ دیئے جائیں، ان کے نعروں کی کیا ہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟ خواتین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اسلام میں دئیے گئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ جب پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی بات واضح کردی تو ہم کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں، پورے میڈیا میں ان کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ہے ۔ انہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کس نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کے رواج کو ختم کرایا؟۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کو زندہ دفن کرنا ختم کرایا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بچیوں کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ بات سوچنی ہوگی۔ ضروری ہے کہ آپ اس عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں، آپ یہ بتائیں کہ ہم کتنی خواتین کو وراثتی حقوق دے رہے ہیں۔ عدالت نے بعد ازاں درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔