میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نوبل۔۔یا۔۔نوبیل۔۔

نوبل۔۔یا۔۔نوبیل۔۔

ویب ڈیسک
بدھ, ۶ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

دوستو، کبھی کبھی ہمیں یوں لگتا ہے کہ پہلے زمانے کی اردو کمزور تھی یا پھر شاید اب اردو کا بیڑا غرق ہونے لگا ہے، بہت سے ایسے الفاظ جو ہم بچپن سے پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے ،اب وہی الفاظ روپ بدل کر سامنے آرہے ہیں، ایک عرصہ تک سندھ کو ہم نے ’’سند‘‘ لکھا اور پڑھا۔۔پھر اچانک ’’سند‘‘ کو پتہ نہیں کیوں ’’سندھ‘‘ کردیاگیا۔۔اسی طرح آپ اگر عمرعزیز کی چالیس بہاریں کراس کرچکے ہیں تو سوچئے کون کون سے الفاظ اب بدل چکے، جیسا کہ ہم نے ہمیشہ نوبل ہی پڑھا لیکن اب اسے نوبیل کہاجارہا ہے۔۔ہم نے گزشتہ دنوں ’’املے کی غلطی‘‘ لکھی تو ہمیں طنزو تضحیک کا نشانہ بنایاگیا کہ، املے کوئی ’’ورڈ‘‘ نہیں ہوتا، اصل میں یہ ’’ املاء‘‘ ہوتا ہے۔۔ایسا ہی ایک ہائی ایجوکیٹڈ نوجوان اپنے دوستوں کو بتارہا تھا کہ ۔۔گائیز کل چائے پیتے پیتے اچانک میری لینگویج جل گئی، ہاٹ ہی اتنی شدید تھی۔۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم صاحب کو نوبل پرائز( ہم نوبل ہی لکھیں گے جس کی مرضی اسے نوبیل پڑھے، پڑھنے والے کا لکھنے والے سے متفق ہونا ضروری نہیں) دینے کا چرچا رہا،ہمارے پیارے دوست کو بڑا غصہ آیا،ان کی ہمدردیاں چونکہ مکمل طور سے نون لیگ کے ساتھ ہیں اس لئے وزیراعظم کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کرنے پر انہیں شدید اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ ، کیا وزیراعظم کو اس بات پر نوبل پرائز ملنا چاہیئے کہ وہ ووٹ چھین کر آئے، پاکستان کو او آئی سی سے نکالاگیا، پاکستان تنہائی کا شکار ہوگیا۔دشمن پائلٹ کو واپس کردیا لیکن اپنے جوان کی میت پاکستان آئی۔۔مہنگائی اتنی کردی کہ غریب سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی، میڈیا ورکرزکو ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار کرادیا اور آج تک اس مسئلے پر دھیان نہیں دیا۔۔ڈالر کی قیمت کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچادیا۔۔پاکستانی معیشت مرغی اور انڈے پر کھڑی کر دی ۔زرمبادلہ کے ذخائر سات ارب ڈالر پر لے آئے۔۔ایل پی جی مہنگی کردی، بجلی اور گیس کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔۔پشاور میٹروابھی تک مکمل نہ کرسکے۔۔ادویات کی قیمتوں میں تین سو فیصد تک اضافہ کردیا۔۔دو سوارب ڈالر بیرون ملک سے واپس نہ لائے جاسکے۔۔آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بات پر خودکشی کااعلان کردیا لیکن پھر قرضہ لے بھی لیا۔۔چندہ اور بھیک مانگنے والے اب نوبل پرائز بھی مانگنا شروع ہوگئے۔۔ایویں تے نئی نوبل پرائز مل دے نے، کافراں دے فوجی چھڈنے پیندے نے۔۔ اگر ایک قیدی کو وطن واپس بھیجنے کا صلہ نوبل انعام ہے تو پھر اندرا گاندھی کو تو امن کے ہزاروں نوبل انعامات ملنا چاہیے تھے جنہوں نے پاکستان کے تقریباً نوے ہزار جنگی قیدی اکہتر کی جنگ کے بعد واپس کیے تھے۔
معروف ادیب مستنصڑ حسین تارڑاپنی کتاب ’’ہزاروں ہیں شکوے‘‘ میں نوبل پرائز کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ۔۔’’سنو اور غور سے سنو۔۔۔اب یہ پرائز نوبل نہیں اگنوبل ہو گیا ہے۔ یہ اب صرف مغرب اور مغربی اقدار پر یقین رکھنے والوں کے لیے ہے۔ یہ آج تک کسی ایسے شخض کو نہیں ملا ،جس نے مغربی بالادستی قبول نہ کی ہو۔ اس میں سیاست اتنی ہوتی ہے کہ ایک زمانے میں جونہی کوئی روسی مصنف بھاگ کر یورپ آ جاتا جو اپنی تحریروں میں اپنے ملک کو گالیاں نکالتا تھا۔ مثلا سونرے انشن تو فوری طور پر نوبل انعام۔۔ دہشت پسند بیگن کو نوبل امن انعام۔۔ علامہ اقبال کو نہیں البتہ ٹیگور کو ادب کا انعام۔۔دنیا کے ایک عظیم ناول نویس یاسر کمال کواس لیے انعام نہیں دیا جائے گا کہ وہ کرد ہے اور ترک ناپسند کریں گے۔ایک ایسے یہودی ادیب کو انعام۔۔جو صرف پولینڈ کی پولش زبان میں لکھتا ہے اور انڈونیشیا سے الگ ہو جانے کے لیے جدوجہد کرنے والے مشرقی تیمور کے ایک پادری ’’بشپ بیلو‘‘ اور لیڈر ’’ہو سے ہوتا‘‘ کوامن انعام کہ شاباش بیٹا مسلمان ملک سے الگ ہونے کوشش میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔کیا یہ انعام کسی کشمیری لیڈر کو بھی مل سکتا ہے۔جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔اور آخری بات مدر ٹریسا کوامن انعام اس لیے کہ وہ مغرب سے آئی ہے اور عبدالستار ایدھی جو دنیا کے ہر انعام سے بلند ہے۔اسے اس لائق نہیں سمجھا گیا کیونکہ وہ مشرق سے آیا ہے،چنانچہ نوبل پرائز بھی اب گینڈا ایوارڈ بن گئے ہیں۔۔‘‘
باباجی فرماندے نے۔۔ بچوں کے کراچی میں نویں جماعت کے امتحان ہونے والے ہیں،ٹیچرز بیچارے پریشان ہوسکتے ہیں کہ بھارت کو جغرافیہ میں رکھیںیاہسٹری میں، جلدی جلدی کوئی فیصلہ کرلو۔۔کہتے ہیں کہ بھارتی پائلٹ سے دو رازاگلوکر چھوڑا گیا، نمبر ایک پاکستانی فوج بہت بہترین ہے نمبردو چائے بہت شاندار ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، کلبھوشن بھی سوچ رہا ہوگا کہ کاش میں موجودہ حکومت میں ہی گرفتار کیاگیا ہوتا۔۔ایک پاکستانی نے ٹوئیٹ کیا کہ۔۔مودی تمہیں سمجھ تو آ گئی ہو گی۔ کہ الیکشن جیتنے کے لئے فوج بارڈروں پر نہیں پولنگ سٹیشن پر لگانی پڑتی ہے۔ کچھ سیکھو ہم سے۔۔ایک نوجوان بھارتیوں کو سمجھا رہا تھا کہ ۔۔انڈیا یاد رکھ،پاکستانی اپنی بیویوں کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔۔انڈین پائلٹ کو واپس کرنا صحیح ہے یا غلط اس کو چھوڑیں مزے کی بات یہ ہے کہ نندو کی حیثیت اس وقت گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کی طرح ہے جسے گھر والے واپس لا کر بھی شرمندہ ہیں کچھ کہہ رہے ہیں مار دو اور کچھ کہہ رہے ھیں اسے کسی ایسی جگہ بیاہ دو جہاں سے اسکی ہوا بھی نہ آئے۔۔ابھی نندن کے گھر پہنچنے پر اس کی بیوی نے سب سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ۔۔ جو آپ کو بارڈر تک چھوڑنے آئی وہ کون تھی؟
مشہور کہاوت ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔پتر جیہڑی اک ہتھ نال وجے اوہنوں چپیڑ کہندے نیں۔۔سنا ہے مودی سرکار نے مزید لڑاکا طیارے پاکستانی حدود میں بھجوانے کی دھمکی دی ہے، یہ دھمکی سن کر پاکستانی کباڑیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ویسے کسی ازلی کنوارے نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا۔۔شادی شدہ زندگی کشمیر جیسی خوبصورت تو ہے لیکن اس میں’’ آتنک ‘‘بہت ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انڈیا ٹوائلٹس اور پائلٹس کے معاملے میں ایک جیسا ہی ماٹھا ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔جب انسان کسی ایک پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو ایک ساتھ باقی ساری پریشانیاں بھی ایسے دوڑی آتی ہیں،جیسے بندہ اولمپکس کھیل رہا ہو۔۔
اور اب چلتے چلتے موضوع کے اعتبار سے ایک دلچسپ واقعہ۔۔ترقی یافتہ ملک کے ایک سائنسدان نے طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔فرض کرو اگر میں ایک ایسا ایٹمی ہتھیار بنا لوں جس سے ساری دنیا پل بھر میں ختم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ایک کونے سے آواز آئی۔۔ جناب! آپ کو نوبل پرائز دینے والا کوئی نہیں رہے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں