میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدعنوانی کا خاتمہ‘ سب کی ذمہ داری

بدعنوانی کا خاتمہ‘ سب کی ذمہ داری

منتظم
منگل, ۶ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کا سروس پروفائل، تنخواہوں اور مراعات کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے‘ اور نیب کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میں کیسے قرارداد پاس ہوئی اور کس حیثیت سے نیب کے خلاف قرارداد منظور کرائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ بلائے تو اس کے خلاف بھی قرارداد منظور کر لی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ نے احتجاج سے روکتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفیٰ دینا ہے وہ دے دے‘ نیب کو کوئی ہراساں نہیں کرے گا‘ نہ ہی نیب کی جانب سے ایسا اقدام کیا جائے۔

چیف جسٹس کی جانب سے احد چیمہ کا سروس پروفائل‘ تنخواہوں اور مراعات کا تمام ریکارڈ طلب کرنا ظاہر کرتا ہے کہ عدالت نے کسی بھی نوعیت کے احتجاج اور کسی بھی قرارداد کا دبائو قبول نہیں کیا‘ اور اس نے بدعنوانوں پر گرفت کا جو عزم کر رکھا ہے‘ اسے قائم رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ سابق ڈی آئی جی ایل ڈی اے کی گرفتاری کے خلاف پنجاب کی بیوروکریسی نے احتجاجاً کام بند کر دیا تھا۔ بعد ازاں پنجاب اسمبلی میں نیب کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ چیف جسٹس کی جانب سے اسی پر ریمارکس دیے گئے۔ پارلیمنٹ کے ایک حصے کی جانب سے ریاست کے ایک ادارے کے خلاف قرارداد کی منظوری اچنبھے والی بات ہے۔ اسی لیے سنجیدہ اور سخت رد عمل آیا ہے۔ واضح ہے کہ احتجاجوں یا مخالفانہ قراردادوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر کسی ریاستی ادارے کے لیے کام کرنا ممکن نہ رہے گا‘ کیونکہ جب بھی کسی فرد سے کسی معاملے میں پوچھ گچھ کی جائے گی تو اس کا متعلقہ گروہ‘ طبقہ یا کمیونٹی متحرک ہو جائے گی اور یہ احتجاج کرنے لگے گی کہ اس سے تعلق رکھنے والے فرد کے خلاف کارروائی کیوں کی گئی۔ یوں معاشرے کو برائیوں اور برے لوگوں سے پاک کرنے کا عمل رک جائے گا اور ملک سے بدعنوانی کے مکمل خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

چیف جسٹس کے ریمارکس اس امر کی غمازی بھی کرتے ہیں کہ نیب کو سپریم کورٹ کا مکمل تحفظ حاصل ہے‘ لہٰذا اس کے خلاف کہی گئی ہر بات اور کیے گئے ہر اقدام کو سنجیدگی سے زیر غور لایا جائے گا۔ چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف جنگ قومی فریضہ سمجھ کر لڑ رہے ہیں، اور یہ کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، پلڈاٹ اور ورلڈ اکنامک فورم نے نیب کے اقدامات کو سراہا ہے۔ نیب کی ’سب کا احتساب‘ مہم موثر بنانے کے حوالے سے ایک بیان میں چیئرمین نیب نے کہا کہ بدعنوانی قومی دشمن ہے‘ نیب بدعنوانی کے خاتمے کے لیے عوام کی توقعات پر پورا اترے گی۔ انہوں نے بالکل درسست کہا۔ عالمی ادارے جس عمل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہوں اس کے خلاف کوئی اقدام مناسب نہیں لگتا۔ عدالت میں ہسپتالوں کے فضلہ جات‘ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار‘ بوتلوں میں بند ناقص پانی کی فروخت‘ ڈبوں میں بند خشک دودھ‘ اجینو موتو کی فروخت‘ استعمال شدہ تیل کی فروخت‘ جعلی پولیس مقابلوں‘ مرغیوں کو دی جانے والی خوراک سے متعلق معاملات بھی زیر غور لائے گئے۔ دراصل یہ سارے کام‘ اقدامات اور فیصلے حکومت کے کرنے کے ہیں۔

حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ عوام کو خالص اور صحت بخش خوراک وافر اور ارزاں ترین نرخوں میں مل رہی ہے‘ کوئی دودھ اور منرل واٹر کے نام پر بیماریاں تو نہیں بانٹ رہا‘ معاشرے میں کوئی ایسا اقدام تو نہیں ہو رہا‘ جس سے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہو‘ کسی فرد یا گروہ کے حقوق تو پامال نہیں ہو رہے۔ لیکن چونکہ حکمران اپنی یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے‘ اس لیے عدالت کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکمران ان معاشرتی مسائل سے آگاہ نہیں ہیں‘ جن سے عدالت میں بیٹھے جج صاحبان پوری طرح آگاہ ہیں اور وقتاً فوقتاً حالات میں بہتری لانے کے حوالے سے حکومتوں کی رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کی اس رہنمائی پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے‘ الٹا اگر کسی پر بدعنوانی کے الزام میں گرفت کی جاتی ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ اقدام حکمرانوں کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ یہ تاثر اس حقیقت کے باوجود دیا جاتا ہے کہ ملزم اگر بے گناہ ہے اور اس نے کسی قسم کی بدعنوانی نہیں کی تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔ احتجاج وغیرہ سے حکومت اور حکمرانوں کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا‘ اس لیے ضروری ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ معاشرے کا ہر ذی شعور کرپشن کے خاتمے کا خواہش مند ہے‘ کیونکہ اس کے باعث عوام کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ خود حکمران بھی کرپشن کے خاتمہ کے بلند بانگ دعوے اور وعدے کرتے رہتے ہیں کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے اور ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں گی کہ ملک اور معاشرے سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے جب حکمران خود کرپشن کے خاتمے کے خواہاں ہیں تو اسی سلسلے میں کیے گئے کسی اقدام کے خلاف احتجاج کیوں؟ ایسا اقدام تو کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہوتا ہے‘ لہٰذا اس حوالے سے چیف جسٹس اپنے ریمارکس میں بالکل درست ہیں۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں