میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستانیوں کا خواب

پاکستانیوں کا خواب

ویب ڈیسک
پیر, ۶ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

حکایتہے یا حقیقت‘ کہا جاتا ہے کہ دبئی کے موجودہ حکمران شیخ محمد بچپن میں اپنے والد محترم شیخ محمد راشد کے ہمراہ ایک مرتبہ کراچی آئے تھے۔ ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں قیام کے دوران اپنے والد سے استفسار کیا کہ”ابا جان“ کیا ایسے ہوٹل ہم دبئی میں بھی بنا سکتے ہیں۔ زیرک اور ذہین والد نے اثبات میں جواب دے کر بات ختم کردی تھی لیکن شیخ محمد کے ذہن میں یہ بات جڑ پکڑ گئی اور آج دبئی اپنی عالیشان فلک بوس عمارت کے باعث پوری دنیا میں مشہور ہیں اور دنیا بھر سے لوگ یہاں سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی 162منزلہ بلند ترین عمارت”برج الخلیفہ“ بھی دبئی میں واقع ہے۔ 1960کی دہائی میں دبئی ریگستان تھا جسے شیخ محمد کی کاوشوں نے نخلستان بنادیا ہے۔ درختوں اور ہریالی کی وجہ سے اب وہاں خوب بارشیں ہونے لگی ہیں۔ پچپن ساٹھ سال قبل پاکستان بھی نخلستان تھا جسے ہمارا کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں اور حکمرانوں نے”قبرستان“ بناکر ساری رونقیں چھین لی ہیں۔ غربت و افلاس اور بیروزگاری و ناخواندگی نے پوری قوم کو بھکاری بنادیا ہے حکمران طبقہ قومی دولت اور وسائل لوٹ کر مالا مال اور عوام بدحال ہوتے جارہے ہیں‘ سوئس بینک کے ایک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی 97ارب ڈالر کی رقم سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑی ہے جو کہ 30سال کے دوران ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔ اس رقم سے 6کروڑ پاکستانیوں کو روزگار اور ملازمتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک 4رویا سڑکیں بن سکتی ہیں۔ 500سے زیادہ پاور پراجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے مفت بجلی فراہم ہوسکتی ہے۔ ہر پاکستانی 60سال تک 20ہزار روپے ماہانہ وظیفہ لے سکتا ہے اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک کے قرضوں سے نجات مل سکتی ہے لیکن پاکستان سے لوٹی گئی 97ارب ڈالر کی رقم پاکستانی عوام کے کام نہیں آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر اپ لوڈ کی گئی جس میں دبئی کے حکمران شیخ محمد عام افراد کی طرح زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کررہے ہیں۔ ہمارے وی آئی پی اور حکمران کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چند دن قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کراچی کے نزدیک حب کے علاقے میں بعض بلوچ رہنماو¿ں کو پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت دینے گئے تھے۔ یہ مختصر فاصلہ انہوں نے بذریعہ سڑک طے کرنے کی بجائے سیکورٹی خدشات کے باعث بذریعہ ہیلی کاپٹر لے گیا۔ واپسی پر کلفٹن میں واقع ان کی رہائش گاہ”بلاول ہاو¿س“ سے چند قدم کے فاصلے پر باغ ابن قاسم میں ہیلی کاپٹر اتارا گیا۔ انہیں دیوہیکل بلٹ پروف گاڑی تک پہنچانے کے لیے”ریڈ کارپیٹ“ بچھایا گیا جس پر بڑے شاہانہ انداز میں چلتے ہوئے گاڑی میں جاسوار ہوئے۔
بادی النظر میں شیخ محمد آصف علی زرداری کے مابین کوئی موازنہ نہیں ہے۔ دولت‘ امارت‘ جاہ و جلال اور اپنے ملک و عوام کے لیے خدمات کا جائزہ لیا جائے تو صفر اور ہزار کی نسبت بھی کم لگے گی‘ لیکن شیخ محمد کا عام شہری کی حیثیت سے سڑک پارکرنا اور آصف علی زرداری کا شاہانہ انداز بہت کچھ بیان کررہا ہے۔ اس میں پاکستان کی تباہی و بربادی اور دبئی کی زبردست ترقی کی داستان پنہاں ہے۔ بچپن میں کراچی کی پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کی شان و شوکت سے متاثر ہونے والے شیخ محمد نے دبئی میں ہزاروں عالیشان پلازے اور ہوٹل کھڑے کردیے ہیں۔ یہ عمارات پورے اماراتی عوام کا اثاثہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور ان کی اولادوں نے بھی پلازے‘ بنگلے‘ فلیٹس اور جائیدادیں بنائی ہیں لیکن پاکستان کی سر زمین سے دور لندن‘ سوئٹزر لینڈ اور دیگر غیر ممالک میں‘ سرے محل سے لے کر لندن فلیٹس تک‘ چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان ان کی کچھ کاتذکرہ”پاناما لیکس“ کے ذریعے ہر زبان زد خاص و عام ہے۔ عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں اور میڈیا ان کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان غریب ملک نہیں ہے۔ صدر جنرل ایوب خان مرحوم کے دور میں یہی ملک سپر سانک رفتار سے ترقی کررہا تھا۔ عالمی بینک کی رینکنگ میں پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر شمار ہوتا تھا۔ تربیلا ڈیم‘ منگلا ڈیم‘ پاکستان اسٹیل جیسے دیوہیکل منصوبے اسی دور میں بنے اور مکمل ہوئے اس دور میں ڈاکٹر محبوب الحق کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کا پوری دنیا میں شہرہ ہوا۔ جنوبی کوریا نے اس کی نقل کی اور ترقی کرلی۔
1960کی دھائی میں پاکستان‘ سنگا پور‘ ملائیشیائ‘ تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان ترقی کے تناظر میں ان سب سے بہت آگے نظر آئے گا اس کے بعد نام نہاد جمہوریت کی دیمک پورے ملک اور ترقی کے تناور درخت کو چاٹ گئی۔ جاگیرداروں نے”جمہوریت“ کے نام پر ایسی لوٹ مچائی کہ پورا ملک اجڑ گیا۔ ان تلخ تجربات نے پاکستانی عوام کی یہ نفسیات بنادی ہے کہ بد عنوان سیاستدانوں کو صرف فوج ہی پکڑ سکتی ہے۔ اکتوبر 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت اور اسمبلیاں ختم کرکے عنانِ اقتدار عوام اور دانشوروں کی ایماءپر سنبھالی تھی۔ جب بھی حکومتیں بد انتظامی کا شکار ہوتی ہیں‘ کرپشن ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ ان لمحات میں عوام الناس”مسیحائی“ کے لیے فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ تب تمام راستے جی ایچ کیو کی طرف جاتے ہیں۔ آرمی چیف سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے رفقاءکی کرپشن کو روکیں اور ملک بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ سندھ کا ایک منصوبہ رائٹ بینک آو¿ٹ فال ڈرین تھا جس کا مقصد گندا اور مضر پانی سمندر میں پھینکنا تھا۔ ابتدائی طور پر اس کا بجٹ 116ارب روپے مقرر کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر نظرثانی کرائی تو وہ 75ارب روپے رہ گیا۔ اس پر فوج کے انجینئروں نے مزید غورو خوض کیا تو یہ منصوبہ 116ارب کی بجائے صرف 16ارب روپے تک نیچے آگیا اور حتمی طور پر اس کے لیے 18ارب روپے کا بجٹ مقرر ہوا۔ اس ایک مثال سے نام نہاد جمہوری دور کی لوٹ مار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1988سے 1999تک ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک کھرب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی اور اس دوران لاہور‘ اسلام آباد موٹر وے ایم ٹو کے علاوہ کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا۔ اسی دور میں گیارہ ارب ڈالر کی”بینک ڈکیتی“ کی گئی جو عوام اور اداروں کی رقم تھی۔ اس اسکیم کو ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کا خوبصورت استعارہ پہنایا گیا۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں نام نہاد جمہوری ادوار سے منسوب ہیں۔ حالات سے تنگ آکر بالآخر عوام الناس نجات کے لیے فوج کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ فوج ملک سے دہشت گردی اور فساد ختم کرنے کے لیے”آپریشن رد الفساد“ میں مصروف ہے۔ فوج کے افسر اور جوان ملک اور عوام کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ ضرب عضب کی طرح یہ آپریشن بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ حکمران طبقات کے بادشاہ‘ شہزادے اور شہزادیاں اپنی اپنی جائیدادیں اور بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف ہیں۔ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں جہاں سے”پاناما لیکس“ کا فیصلہ نمودار ہوگا۔ ان میں کوئی ایک بھی شیخ محمد‘ مہاتیر محمد اور لی کو ان یو نہیں ہے۔ عام پاکستانیوں کا خواب وہی ہے جو ان شخصیات نے 1960ءکی دہائی میں اپنے ملکوں کے لیے دیکھا اور اس کی تعبیر حاصل کی۔ پاکستان کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں نے بھی 1947ءمیں اپنے وطن کے لیے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کے لیے قوم گزشتہ 70برس سے بھٹک رہی ہے لیکن رہبر نما رہزنوں اور نام نہاد جعلی جمہوریت کے دعویداروں نے ان کے خواب خاک میں ملا دیے ہیں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں