کمزور جمہوریت آمریت سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ، مولانا فضل الرحمن
شیئر کریں
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کمزور جمہوریت کو آمریت سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آمریت میں آمر کے خلاف جدوجہد تو کی جاسکتی ہے لیکن کمزور جمہوریت میں آمریت پیچھے ہوتی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کے ‘یوم یکجہتی کشمیر’ کے موقع پر خطاب کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘کمزور جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر کی دلیل دی جارہی ہے لیکن کمزور جمہوریت آمریت سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔’انہوں نے کہا کہ ‘آمریت میں آمر کے خلاف جدوجہد تو کی جاسکتی ہے لیکن کمزور جمہوریت میں آمریت پیچھے ہوتی ہے ، جدوجہد نہیں کی جاسکتی جبکہ مکمل آئینی جمہوریت کے تحت ہی قوم مضبوط ہوسکتی ہے ۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘مایوسی کے ماحول میں بھی 19 مارچ کو لاہور میں بڑا جلسہ عام کریں گے ، آزادی مارچ چلتا رہے گا اور منزل پر پہنچ کر دم لے گا۔’قبل ازیں اسلام آباد میں یکجہتی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘پاکستانی قوم نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام نے ہمیشہ کشمیر کا مقدمہ لڑا۔’انہوں نے کہا کہ ‘انسانی حقوق عالمی قوتوں کے دکھاوے کا نعرہ ہے ، نائن الیون کے بعد آزادی کی تحاریک کو دہشت گردی سے جوڑا گیا جس کے بعد مسلم ممالک میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے اور عالم اسلام، عالمی قوتوں کے نشانے پر ہے ۔’مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ‘شام، یمن میں کیا ہو رہا ہے ، سعودی عرب پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے ، بین الاقوامی جارحیت ہو رہی ہے ، اقوام متحدہ مظلوم قوموں کے تحفظ میں رو رہا ہے جس میں کشمیر سرفہرست ہے ۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کی بات کرتے تھے لیکن آج صرف کشمیریوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، ہمارے حکمران بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔’انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ملک میں جمہوریت نہیں جبریت ہے ، وزیر اعظم جب امریکا سے واپس آئے تو کہتے تھے کشمیر پر ٹرمپ نے ثالثی کرنے کی حامی بھری ہے ۔’سربراہ جے یو آئی(ف)نے کہا کہ ‘مسئلہ فلسطین پر جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے کردار ادا کیا وہ ہمارے سامنے ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کے حوالے کیا، کیا کشمیر پر بھی ان کی ثالثی مسئلہ فلسطین کی طرح ہوگی کہ پورا کشمیر بھارت کے حوالے کردیں گے ؟’ان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے ، جبری کے فیصلے قابل قبول نہیں ہیں، جس طرح فاٹا کو جبری شامل کیا گیا تھا اسی طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو شامل کیا ہے ۔’انہوں نے کہا کہ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ جمہوریت نہیں ہے ، اس صورتحال میں آمر نظر نہیں آتا جبکہ مارشل لا کے دور میں تو آمر نظر آتا ہے ۔