5 فروری اور کشمیر
شیئر کریں
کشمیر کا تنازع1947 میں پیدا نہیں ہوا یہ تنازع تو اسی وقت پیدا ہو گیا تھا جب انگریزوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر کو ڈوگروں کے حوالے کر دیا تھا۔ ڈوگرا راج کا قیام کشمیر میں ہندو توا کا نقطہ آغاز تھا کشمیر بنیادی طور پر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور اس خطہ میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔
1947 میں جب تقسیم ہند عمل میں آئی تو اس کے طے شدہ اُصولوں میں مسلم اکثریت علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا اور غیر مسلم علاقوں کو ہندوستان میں شامل ہونا تھا کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب 70 فی صد سے زائد ہے جبکہ باقی 30 فی صدمیں ہندو، سکھ اور عیسائی شامل ہیں۔ ہندوو¿ں میں پنڈتوں کی تعداد سب سے نمایاں ہے قیام پاکستان سے قبل ہی 19 جولائی 1947 کو کشمیری اسمبلی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا لیکن وائسرئے ہند لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے کشمیر اسمبلی کی اس قرارداد کو قبول نہیں کیا اور کشمیر کو ایک متنازع علاقہ بنا دیا بعدازاں بھارتی فورسز کے دباو¿ پر راجہ ہری سنگھ نے کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی جو مبینہ طور پر پنڈت جواہر لال نہرو نے تیار کی تھی ۔
اکتوبر1947 میں محسود اور وزیر قبائل نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور مختصر عرصہ میں یہ مجاہد سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے کہ جنوری 1948 میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی اور پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ نے اعلیٰ قیادت کے مشورے سے قبل ہی اقوام متحدہ میں اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ۔یوں محسود اور وزیر قبائل جو سری نگر سے چند میل کے فاصلے پر تھے جنگ بندی ہونے کے نتیجہ میں وہی رکنے پر مجبور ہوئے ۔اقوام متحدہ نے اگرچہ اس قرارداد کے ذریعے کشمیر میں استصواب کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا لیکن 69 سال گزرنے اورجنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر موجود ہونے کے باوجود یہ قرارداد تاحال عملدرآمد کی منتظر ہے ۔
1978 میں افغانستان میں روس کی مداخلت کے ساتھ ہی جہاد کا احیاءہوا تو کشمیریوں کے دلوں میں موجود آزادی کے جذبے نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور 80 کی دہائی کے وسط میںسید صلاح الدین کی سربراہی میں حزب المجاہدین نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیاجس نے مختصر عرصہ میں پورے کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور گلی گلی کوچہ کوچہ آزادی کے نعرہ گونجے لگے ۔سن رسیدہ سید علی گیلانی ہی نہیں کشمیر بچہ بچہ آزادی کے نعرے بلند کر رہا تھا اور ان نعروں کی گونج میں خواتین کی آواز بھی کسی سے کم نہ تھی ان حریت پسند خواتین کی قیادت آسیہ آندار بی کر رہی ہیں ۔
نومبر1988 میں بے نظیر بھٹو پہلی بار پاکستان کی وزیراعظم بنی اور جنوری 1989 میں اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس میں دیگر شرکاءکے ساتھ ساتھ بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بھی شریک ہونا تھا بھارت سے مرعوبیت صرف موجودہ حکمرانوں کا المیہ نہیں یہ ایک قومی المیہ ہے جس سے ضیاءالحق جیسے ” آمر” ہی مبرا ہیں ” محترمہ بے نظیر بھٹو©” جانتی تھی کہ اسلام آباد میں کشمیر ہاو¿س اور کشمیر روڈ کے سائن بورڈ بھارتی مہمان کی طبع نازک پر گراں گزریں گے یوں انہوں نے احکامات جاری کیے کہ بھارتی وفد کی آمد سے قبل ہی کشمیر سے وابستہ ہر نشانی کو نقاب پہنا دیا جائے اور اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے کوئی نشانی نظر نہ آئے۔ ان احکامات کے تحت کشمیر ہاو¿س پر موجود آزاد کشمیر کا جھنڈا اتار دیا گیا کشمیر روڈ کے نشانیاں مٹا دی گئی اور ہر اس دُکاندار کو جس کی دُکان کے سائن بورڈ پر کسی بھی حوالے سے کشمیر کا نام موجود تھا اس نام کو چھپانے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اسطرح راجیو گاندھی کو اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران کہیں بھی کشمیر کا نام نظر نہیں آیا۔ ضیاءالحق نے کشمیر کی آزادی کی جس جدوجہد کی اخلاقی مدد کی تھی اس مدد نے مشرقی پنجاب میں سکھوں کی خواہش کے مطابق آزاد خالصتان کی جدوجہد بھی شامل تھی سکھوں کو بھی کشمیریوں کی طرح ضیاءالحق کے اخلاقی مددحاصل تھی۔ ضیاءالحق کا ہدف یہ تھا کہ خالصتان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کی آزادی چند لمحوں کی بات رہ جائے گی پھر کشمیر کو بھارت سے ایک مختصر پٹی ہی زمینی طور پر ملاتی ہے اور یہ پٹی مشرقی پنجاب سے ہو کر گزرتی ہے ۔
ضیاءالحق کی طرح آزاد خالصتان تحریک کی قیادت بھی بھارت سے آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے خوشگوار دوستانہ تعلقات کی خواہشمند تھی کہ سکھوں کے اہم مذہبی مقامات پاکستان میں موجود ہیں جن میں اعلیٰ ترین مقام ننکانہ صاحب ہے۔ اسی طرح دیگر مقامات بھی پاکستان میں ہی ہیں ،مشرقی پنجاب میں تو صرف امرتسر کا گولڈن ٹیمپل ہی ہے جو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والاکی ہلاکت کے بعد مزید اہمیت کا حامل ہو گیا ہے ۔سنت جرنیل سنگھ کی ہلاکت 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کشی کے نتیجہ میں ہوئی تھی اور جوابی کاروائی میں اندرا گاندھی بھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کا شکار ہوئی ۔
1989 میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر بے نظیر بھٹو نے راجیو گاندھی کو ایک طرف پورے اسلام آباد میں کہیں کشمیر کا نام نظر نہ آنے دیا تو دوسری طرف اس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے مشرقی پنجاب میں برسرپیکار سکھوں کی فہرستیں راجیو گاندھی کے وفد میں شامل اس کے وزیر خارجہ کو پیش کی جس کے نتیجہ میں 6 ماہ سے بھی کم عرصہ میں کم وبیش ایک لاکھ سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار کر وقتی طور پر آزاد خالصتان کی تحریک کو دبا دیا گیا ۔یہ وہ مرحلہ تھا کہ جس نے کشمیر میں حریت پسندوں کو لرزہ کر رکھ دیا تھا اور انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت تھی۔
ایسے وقت میں سید صلاح الدین نے قاضی حسین احمد سے مشورہ کیا اور 1989 میں 5 فروری کو پہلی مرتبہ یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس وقت تک یہ فیصلہ صرف حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کا تھا 1990 میں بھی 5 فروری کو غیر سرکاری طور پر ہی صرف جماعت اسلامی اور حزب المجاہدین نے منایا جبکہ اس مرحلہ پر حزب اسلامی ” حکمت یار” افغانستان نے بھی کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا 1991 میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا اب بے نظیر بھٹو نہیں کشمیر نژاد میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اس طرح 1991 میں پہلی مرتبہ5 فروری کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا اور اس وقت سے ہی یہ سلسلہ جاری وساری ہے لیکن اس عرصہ میں یہ ہوا ہے کہ آزادی کشمیر کو کاروبار بنا لیا گیا ہے جنہیں کشمیر کا نقشہ بھی نہیں معلوم وہ بھی جہاد کشمیر کے سب سے بڑے شریک ہیں لیکن جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے کاغذوں پر موجود ایسی جہادی تنظمیوں کو حزب المجاہدین وقتاً فوقتاً ان کا مقام یاد دلاتی رہتی ہیں جیسا کہ اگست 2000 میں اچانک جنگ بندی کا اعلان کر کے سید صلاح الدین نے جہاں ایک طرف قاضی حسین احمد کو پریشان کر دیا تھا۔ وہیںکاغذی اور اخباری سطح پر موجود جہادی تنظیموں کو بھی بے نقاب کر دیا تھا اب جون 2016 میںحزب المجاہدین برہان الدین وانی نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اور چار پانچ سال کی مختصر جہادی زندگی کو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لا کر بھارت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ اس طرح کشمیر میں شکست سے دوچار ہو رہا ہے ۔
٭٭