غزہ میں غذائی بحران
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بین الاقوامی این جی او ایکشن ایڈ فلسطین نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے باعث پیدا ہونیوالی غذائی قلت نے شیر خوار بچوں کی زندگی بھی مشکل بنادی جہاں فاقہ کشی پر مجبور مائیں بچوں کو دودھ پلانے قابل بھی نہ رہیں۔ غزہ میں وحشیانہ حملوں اور پابندیوں سے پیدا ہونے والی غذائی قلت سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے ، وہاں موجود تمام آبادی اس وقت بھوک کا شکار ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حماس کی لڑائی کے بعد غزہ میں غذائی بحران سنگین ترین ہوگیا ہے جس کے بعد ہر 4 میں سے ایک فلسطینی بھوک کی وجہ سے موت کے قریب پہنچ چکا ہے۔عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی حملوں اور غزہ پر مسلسل بمباری کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے دوران خصوصاً غزہ میں خوراک کی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔افغانستان اور یمن سمیت دیگر جنگ زدہ ممالک قحط سالی کا شکار ہو چکے ہیں، تاہم اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے بھوک کے شکار غزہ کے فلسطینیوں کی صورت حال ان ممالک سے بھی زیادہ بگڑ چکی ہے اور غذائی بحران دن بہ دن بدترین ہوتا جا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ صہیونی ریاست کی جانب سے امدادی سامان لانے میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔
غزہ کے رہائشی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 120 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے فلسطینیوں کی تعداد 22 ہزار 637 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 57 ہزار 296 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ شہداء میں 9 ہزار 100 سے زائد بچے اور 6 ہزار 500 سے زائد خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 8 ہزار 663 بچے اور 6 ہزار 327 خواتین بھی شامل ہیں۔ادھر مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں پر صیہونی مظالم میں کوئی کمی نہ آسکی۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں اور انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں 83 بچوں سمیت شہید فلسطینیوں کی تعداد 324 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 3 ہزار 800 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔7 اکتوبر سے 3 جنوری 2024 تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 87 صحافی اپنے جانیں گنوا چکے ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے جانیں گنوانے والے صحافیوں میں 80 فلسطینی، 3لبنانی اور 4 اسرا ئیلی صحافی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج نے لبنان میں شہید ہو نیوالے حماس کے نائب سربراہ صلاح العروری کے خاندان سے منسوب خان یونس کی ایک رہائشی عمارت پر وحشیانہ بمباری کی جس میں ایک ہی خاندان کے 14 افراد شہید،جبکہ متعدد شدید زخمی ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا اسرائیلی حملے میں شہید ہونیوالے خاندان کا حماس کے کمانڈر شہید صلاح العروری سے کیا تعلق تھا۔خان یونس کے علاقے میں اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ ریڈ کراس کے ہیڈ کوارٹر اور العمل ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں ایک شخص کے شہید اور درجن سے زائد مریضوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری میں ہسپتال اور رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔اسرائیلی فوج نے لبنان میں حزب اللہ کے ایک مقامی مرکز پر بمباری کی جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے 9 کارکن شہید ہوگئے۔بیروت پر اسرائیلی ڈرون حملے میں 6 ساتھیوں سمیت حماس رہنما صالح العاروری کی شہادت کے بعد لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر بھی صورتِحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے لبنان میں اسرائیلی حملے کو خطے کے تمام ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیدیا ہے۔غزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے حوالے سے حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں ایک فلسطینی حکومت کے قیا م پر بات ہوسکتی ہے لیکن یرغمالیوں کی رہائی مکمل جنگ بندی پر ہی ہوگی۔
لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے حماس رہنما کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے اسرائیل کو صالح العاروری کے قتل کی سزا ضرور دی جائیگی۔ غزہ جنگ سے اسرائیل کی طاقت کا بھرم ٹوٹا ہے اور اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ادھراقوام متحدہ نے کہا ہے امدادی اداروں کو شمالی غزہ کے مکینوں کو امداد فراہم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ رسائی میں تاخیر اور نقل و حرکت کی اجازت سے انکارکیساتھ ساتھ جاری جنگ کی وجہ سے شمالی غزہ میں امداد نہیں پہنچائی جا سکی۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے عہدیدار کے مطابق اتنے وسیع پیمانے پر اور اتنی تیز رفتاری کے ساتھ بگڑتے ہوئے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اس سے زیادہ بدترین صورت حال کوئی اور نہیں ہو سکتی۔